مطیبہ کو ہوش آیا تو وہ اسلام آباد کے ہاسپٹل میں تھی۔ اس
کے اردگرد سب چاہنے والوں کا مجمع تھا، مگر اس کی نگاہیں مطاہر کو ڈھونڈ
رہی تھیں ۔اس کے ساس،سسر،دیور، ممی ،پاپا سب اس کے اردگرد تھے، مگر وہ دشمن
جان کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہیں گیا اس نے اپنی ساس کو
مخاطب کرکے پوچھا:
"آنٹی ! مطاہر کہاں ہیں؟"
اس کی ساس جو اس کے لیے جوس گلاس میں ڈال رہی تھیں ۔ان کے ہاتھ اس کا سوال
سن کر ہلکے سے کانپے اور جوس چھلک گیا ۔مطیبہ نے محسوس کیا کہ اس کی ساس کی
رنگت پھیکی پڑھ گئی تھی، مطیبہ کا دل ہزاروں واہموں میں گھر گیا، کیا کاٹیج
میں کوئی برا واقعہ پیش آگیا تھا، اس کے جسم سے جان نکلتی محسوس ہورہی
تھی،وہ اس واردات دل پر حیران تھی کہ نکاح کا بندھن کیسا پاک بندھن ہے ،جو
دو انجان دلوں کو محبت سے جوڑ دیتا ہے۔اس کے دل پر اچانک القا ہوا کہ وہ
مطاہر کی محبت میں پور پور بھیگ چکی تھی،اب اس سے جدائی کا تصور ہی جان
لیوا تھا۔مطیبہ گھبرا کر بولی:
مطاہر خیریت سے تو ہیں نا؟
مطیبہ کا چھوٹا دیور حمزہ جو انجینرنگ کے آخری سال میں تھا ، اس کے پاس
بیٹھا اور بولا:
"وہ بھابھی! بھیا بالکل خیریت سے ہیں، انشاءاللہ شام تک آپ کو دیکھنے آئے
گے۔اصل میں اس دن آپ کو ہسپتال پہنچاتے پہنچاتے وہ کافی بارش میں بھیگ گئے
تھے ،اس لیے انھیں کولڈ ہوگیا ہے۔"
مطیبہ کے کھچے ہوئے اعصاب یہ سن کر ریلیکس ہوئے ،وہ پہلی بار دل سے مسکرائی
اور بولی:۔
"حمزہ مجھے کب یہ گھر جانے دینگے؟"
حمزہ مسکرا کر بولا:
"میری چندا سی بھابھی، انشاءاللہ کل۔ ویسے آپ کے دل نہ لگنے کا سبب مجھے
پتا ہے۔"
مطیبہ کا چہرہ شرم سے گلابی ہوگیا۔مطیبہ انتظار ہی کرتی رہی مگر وہ ظلمی
اسے دیکھنے اسپتال نہیں آیا۔ مطیبہ کے دل میں کچھ مر سا گیا۔ اسپتال سے
ڈسچارج ہوکر دیور کے ساتھ گھر جاتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔میرے دل میں ابھی
اور کون کون سی خواہشات اور ارمانوں کے مرقد بنینگے ۔۔میں ان قبروں کے بیچ
ہی یہ زندگی کیسے گزارونگی ؟جب وہ گھر پہنچے تو اس نے دیکھا، مطاہر باہر
لان میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور بولا:
ہائے مطیبہ How are you feeling now
اس کے کسی انداز سے یہ محسوس نہیں ہورہا تھا کہ اس نے مطیبہ کی کوئی کمی
محسوس کی تھی۔ مطیبہ کا دل بجھ سا گیا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے حمزہ کی معیت
اپنے بیڈروم تک آگئی ۔حمزہ اسے اس کے بیڈ روم میں چھوڑ کر خود سکواش کھیلنے
چلا گیا۔ مطیبہ کمرے میں داخل ہوئی تو ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک سی گئی۔لائٹ
سکائی بلیو اور آف وہائٹ کنٹراسٹ میں سجا، ایک خوبصورت کمرہ اس کے سامنے
تھا۔ کمرے میں ایک طرف آتشدان تھا، جس کے آگے صوفے رکھ کر باقاعدہ نشست گاہ
بنائی ہوئی تھی۔ایک طرف کتابوں کے شیلف پڑے تھے۔ بڑی سی مسہری پر چھپرکھٹ
بنا ہوا تھا، مسہری کے اردگرد نیلے جالی کے پردے لٹک رہے تھے ۔ڈریسنگ ٹیبل
پر پرفیومز کی شیشیاں سجی ہوئی تھیں ،کمرے میں مطاہر کے مخصوص پرفیوم اور
آفٹر شیو کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔مطاہر کی ایک خوبصورت ہنستی ہوئی تصویر
کا قد آدم پورٹریٹ سامنے لگا ہوا تھا۔ وہ بے خیالی میں آہستہ آہستہ ٹرانس
کی سی کیفیت میں چلتی ہوئی فریم کے پاس کھڑی ہوگئی۔اس نے اپنےدوپٹے سے
تصویر پر آئی، غیر مرئی سی گرد صاف کی۔اس نے غور سے دیکھا،تصویر میں چھ فٹ
لمبا سانولا سلونا مطاہر اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ایک سٹائل
سے کھڑا اپنی پرکشش آنکھوں اور دلکش مسکراہٹ کے ساتھ بہت ہی اچھا لگ رہا
تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مطاہر کی آنکھیں بہت ہی سیاہ اور بولتی ہوئی تھیں
۔تصویر اگرچہ ساکن تھی،مگر مطیبہ کے دل پر اک عجب واردات ہو رہی تھی۔اچانک
پیچھے سے مطاہر کھنکارا اور بولا:
"نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا؟
مطیبہ ایک دم سے گڑبڑا گئی ۔وہ تیزی سے مڑی تو اس کی ٹکر مطاہر سے
ہوگئی۔مطاہر نے اسے گرنے سے بچایا، وہ مطاہر کی باہوں میں تھی،وقت تھم سا
گیا تھا، مطیبہ کے حواس پر مطاہر کی خوشبو چھا سی گئی تھی، مطاہر کی گرفت
اس کے بازوں پر سخت ہوتی جارہی تھی،مطیبہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، وہ
مطاہر کی سانسوں کی حدت اپنے چہرے پر محسوس کرسکتی تھی۔ اچانک کمرے میں لگی
کلاک کا گھنٹہ بجا اور وہ دونوں لمحے کے طلسم سے آزاد ہوگئے ۔مطاہر ایک دم
سے سنبھلا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ مطیبہ اپنے دل کی دھڑکنیں سنبھالتی،
بستر پر بیٹھ گئ ۔اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں سنبھالا اور گہری سانس لی
۔اس کی دھڑکنیں ابھی تک بے ترتیب تھیں ۔
اگلی شام ان کی دعوت مطاہر کے بچپن کے دوست نے کی ہوئی تھی۔مطیبہ وارڈ روب
کھول کر کھڑی تھی، اس نے بے خیالی میں سیاہ بنارسی ساڑھی نکالی،سیاہ پتھروں
والا گولڈ کا سیٹ پہنا، ہلکا ہلکا میک اپ کیا، بالوں کو اس نے ڈھیلے سے
جوڑے کی شکل میں باندھ لیا، اس نے ڈریسنگ روم کے قد آدم شیشے میں اپنا
جائزہ لیا تو وہ واقعی کوئی مہارانی لگ رہی تھی، مطیبہ کا دل ملال سے بوجھل
ہوگیا ،اس نے سوچا اس جوبن کا کیا فائدہ جس سے میں اپنے میت کو ہی اپنا
راجا نہیں بنا سکتی ۔اس کی آنکھوں نے بھیگنے کی کوشش کی، مگر اس نے سختی سے
اپنے آنسوؤں کو پلکوں کی دہلیز پر ہی روک لیا۔ جب وہ تیار ہوکر نکلی تو
مطاہر بھی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا پرفیوم اپنے اوپر چھڑک رہا تھا، مطیبہ
کو سیاہ ساڑھی میں دیکھ کر اس نے بے اختیار ہی وسل کیا اور بولا:
"سرکار تو آج بجلیاں گرا رہے ہیں ۔"
اس کی آنکھیں مطیبہ کو سراہ رہی تھیں ۔
مطیبہ پزل سی ہوگئی ۔راستے میں مطاہر نے اسے گلاب اور موتیے کے گجرے لے کر
دیے اور خود اس کے ہاتھوں میں پہنائے، مطاہر کے انداز آج کچھ بہکے بہکے سے
تھے، مطیبہ اس کی نگاہوں کی حرارت محسوس کرسکتی تھی، مطیبہ نے اپنا چہرہ
گاڑی کی کھڑکی کی طرف کرلیا، وہ مطاہر کی پرشوق نگاہیں اپنے اوپر محسوس
کرسکتی تھی ۔مگر اس کے دل میں آج جیسے قبرستان کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔
مطیبہ اپنے محسوسات کی اتنی یکدم تبدیلیوں سے بے حد پریشان تھی۔وہ اپنے آپ
کو ڈپٹ رہی تھی کبھی تو مطیبہ بی بی مطاہر کی توجہ کے لیے مر رہی ہوتی ہوں
اور جب وہ تم پر مہربان ہوتا ہے تو تم پیچھے ہٹنے لگتی ہو،اسی ادھیڑ بن میں
راستہ کٹ گیا،مطیبہ نے دیکھا وہ ایک بڑے سے فارم ہاوس کے سامنے کھڑے
تھے۔باوردی گارڈز نے دروازہ کھولا ،وہ گاڑی اندر لے گئے،پارکنگ میں موجود
گاڑیوں کی تعداد بتا رہی تھی کہ مطاہر کے دوست رضا نے بہت اچھے پیمانے پر
ریسپشن رکھا ہوا تھا۔ لان میں موجود مرد اور عورتوں کی ڈریسنگ دیکھ کر
اندازہ ہوتا تھا کہ یہ وہ طبقہ ہے جو مادر پدر آزادی کا علمبردار ہے۔ لان
کے وسط میں موجود سوئمنگ پول پر شیشے کا فرش تھا، ہول کے اندر جلتی بجھتی
رنگین روشنیاں فرش کو خیرہ کررہی تھیں، ایک طرف ایک ڈی جے میوزک فرمائش پر
بجا رہا تھا اور مرد عورتیں جوڑوں کی شکل میں ناچنے میں مصروف تھے۔ مطیبہ
کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا جب اس کی نظر ایک کونے میں سیٹ اپ" بار" پر
پڑھی، ہزار آزاد خیال ہونے کے باوجود مطیبہ ایک صوم وصلوت کی پابند لڑکی
تھی،اس نے کئی دفعہ قرآن پاک ترجمے سے پڑھا تھا،وہ شراب کے سخت خلاف تھی،اس
کی وجہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات تھیں جو اس نے اپنی دادی سے حاصل کی تھیں ۔مطیبہ
کا دل ہی ڈوب گیا جب اس نے مطاہر کو بھی شراب پیتے دیکھا ۔اس محفل میں کیا
عورتیں، کیا مرد سب آزادی سے ام الخبائث کا شوق کررہے تھے ۔مطاہر کے ایک
دوست نے مطیبہ کو اپنے ساتھ ڈانس کرنے کی آفر کی ،مطاہر بھی مسکراتے ہوئے
بولا:
"جاو ڈئیر! ایک راونڈ عارفین کے ساتھ لگاو، میں تمھیں اگلے راونڈ میں جوائن
کرتا ہوں۔"
مطیبہ نے عارفین کو انکار کرنا چاہا مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ڈانس
فلور پر لے آیا۔ تیز بے ہنگم میوزک میں عارفین کے ہاتھ اس کی کمر کے گرد
تھے ،وہ ایک غیر مرد کی باہوں میں تھی ،مطیبہ کا دماغ صورتحال کو سمجھ نہیں
پارہا تھا،عارفین کے ہاتھ آہستہ آہستہ گستاخیوں پر اتر آئے ، مطیبہ نے اس
کا ہاتھ جھٹکا اور بچتی بچاتی باہر نکل آئی، اس نے دیکھا مطاہر اپنے ایک
دوست کی بیوی کے انتہائی قریب کھڑا تھا،وہ عورت بھی عملا مطاہر سے چپکی
کھڑی تھی ۔مطاہر اس عورت کے کانوں میں سرگوشیاں کررہا تھا، اچانک اس عورت
نے مطاہر کے گال پر بوسہ دے دیا۔ مطیبہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، وہ
بے اختیار ہی مطاہر کے پاس جاکر بولی:
یہ کیا ہورہا ہے؟
مطاہر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، اس نے استہزائی لہجے میں کہا:
"بےوقوف ،جاہل چھوٹے دماغ کی عورت،کیا ہورہا ہے؟ہم سوشلائز کررہے ہیں ۔اسی
لئے میں "پاکستانی "کسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا،تم جیسی گھٹے
ہوئے ذہن کی عورت کے ساتھ ممی نے مجھے باندھ دیا ہے۔"
مطیبہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی:
"میں نے اسی وقت گھر جانا ہے۔"
مطاہر نے تیزی سے اپنی ڈرنک ختم کی،مطیبہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا
گاڑی تک لایا،اس نے اسے دھکا دے کر فرنٹ سیٹ پر پھینکا،بڑے ہی رف انداز میں
گاڑی ریورس کی اور واپسی کے لئے گاڑی موڑ لی،اس کے بھینچے ہوئے لب،شعلہ بار
آنکھیں مطیبہ کو انہونی سے ڈرا رہی تھیں ۔
مطیبہ نے ڈرے ڈرے لہجے میں مطاہر کو گاڑی کی رفتار کم کرنے کو کہا،مگر گاڑی
تو گویا ہوا سے باتیں کررہی تھی۔
مطیبہ کے ساتھ کیا ہوگا؟ کیا یہ رشتہ پنپ پائے گا؟
پڑھتے ہیں اگلی قسط میں ۔
(باقی آئندہ )☆☆ |