بھارت کی دہشتگردمودی سرکارنے اپنے ملک کے مسلمانوں کے
خلاف اپنے جہل وجنون کاجوتازہ مظاہرہ کیاہے وہ بے حدمذموم ومسموم ہونے کے
باعث ہندوبنئے کے روایتی تعصب ونفرت کاآئینہ دارہے۔تقسیم ہندکے بعدایک سوسے
زائدمقامات کے نام تبدیل کردیئے گئے ہیں جن میں کئی معروف اوربڑے شہر بھی
شامل ہیں۔جیسے کہ بمبئی کوممبئی،کلکتہ سے کولکتہ،مدراس سے چنئی کانام
دیاجاچکاہے لیکن متعصب ہندوؤں کامسلم ناموں سے موسوم مقامات سے ایک عجیب
خوف اورچڑ نظرآرہی ہے جس سے ان کی بدطینت ذہنیت کاپتہ چل رہاہے۔اپنے
ہندوقوم پرست حامیوں کوخوش کرنے کیلئے متعصب مودی سرکارنے اپن ی جماعت کے
ذریعے مسلم نام کے تمام مقامات کے نام تبدیل کرنے کیلئے ایک نئی لہر شروع
کررکھی ہے۔اس مہم کاآغازجولائی میں اتر پردیش جہاں بی جے پی کے انتہائی
متعصب ہندوکی حکومت ہے ،برطانوی دورکے مشہورریلوے اسٹیشن مغل سرائے کانام
تبدیل کرکے اسے جماعت کے نظریہ سازرہنماء دین دیال ابھاریاکے نام سے منسوب
کردیاگیاہے۔
اسی طرح گزشتہ ماہ اترپردیش ہی کے شہرالہٰ بادکانام پریاک راج رکھ
دیاگیاہے۔بی جے پی کے حکمران اس امرپرزیادہ ناراض تھے کہ شہرکا435 سال
پرانانام مسلمان حکمران کادیا ہواتھا۔اتناہی نہیں ایک متنازع ہندومذہبی
رہنماء کی سربراہی میں قائم مقامی حکومت نے فیض آبادضلع کانام ایودھیہ رکھ
دیاجوہندوبھگوان رام کی جائے پیدائش کے حوالے سے جانا جاتاہے ۔دلی کے اورنگ
زیب روڈ کانام تبدیل کرکے ڈاکٹرعبدالکلام روڈرکھ دیاگیا۔اب بی جے پی کے
رہنماء تاج محل کے شہرآگرہ اورگجرات میں احمدآبادکوہندونام دیناچاہتے ہیں ،اس
سے قبل رواں سال ہی میں راجستھان میں حکمران بی جے پینے تین دیہات کے نام
تبدیل کئے کیونکہ وہ بظاہراسلامی نام تھے۔
بھارت کے 77000دیہات میں سے 7000سے زیادہ دیہات مشہورہندوبھگوان رام
اورکرشناسے منسوب ہیں ،اس مقابلے میں مغل بادشاہ اکبرکے نام پربھی 234دیہات
ہیں۔مارچ میں وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکارنے پارلیمان کوبتایاکہ انہیں مختلف
ریاستوں سے مختلف دیہات، قصبات اورریلوے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کرنے کی
تجاویز موصول ہوئی ہیں اوران میں سے بیشتردرخواستیں بی جے پی کی حکومتوالی
ریاستوں ہریانہ اورراجستھان سے تھیں۔بی جے پی ناموںکی اس تبدیلی کو بھارت
کے شاندارماضی کا نام دیتے ہوئے اسلامی تہذیب سے تعارت ظاہرکرتی ہے۔بھارت
کے انتخابات میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں اورمودی کے ناقدین اس امرکوبھارت
میں مذہبی اہم آہنگی کودھچکہ قراردے رہے ہیں۔
بی جے پی کے نام تبدیل کرنے کی روش کوووٹرقائل کرنے کی ایک کوشش کے
طورپربھی دیکھا جاسکتاہے ۔ناقدین کاکہناہے کہ اسلامی ناموں کو ختم کرنے
کامقصدبھارت کے مسلمانوں کو اختیار سے محروم کرنااورملک کی تاریخ میں ان
کاکردارختم کرناہے۔دلی یونیورسٹی کے پرمیت سنگھ کہتے ہیں کہ بھارت میں
ناموں کی تبدیلی سیاست کی جڑمیں عام طورپر تہذیب کوقومیت کے دائرے میں لانے
سے جڑی ہوئی ہیں۔بھارتی ریاست اتر پردیش (یوپی)کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ
ناتھ کی حال ہی میں منظرعام پرآنے والی بچگانہ حرکات سے لگتاہے کہ ان دنوں
وہ مسلمان ناموں والے شہروں اورقصبوں کے ہندوانہ نام رکھوانے کی نفرت
انگیزمہم چلارہے ہیں۔حالیہ دنوں میں یوپی کے مشہورشہرالہٰ آبادکانام تبدیل
کرتے ہوئے اسے پیراگ راج کانام دے دیاگیا۔پیراگ دراصل ندیوں کوملنے کے مقام
کوکہاجاتاہے اوریوپی(اترپردیش) کایہ تاریخی شہرگنگا ،جمنااورممکنہ
طورپردکھائی دینے والی سرسوتی کے ملنے کے مقام پرموجودہے لہندااب اسے پیراگ
راج کانام دیاگیاہے۔یوگی حکومت نے الہٰ آبادکانام تبدیل کرتےہوئے مسلم
مخالف دشمنی کواپنے ایجنڈے میں سر فہرست رکھاہواہے۔
الہٰ آبادکے نام کی تبدیلی توصرف آغازہے کیونکہ ان لوگوں کی فہرست میں کئی
اورمسلم نام بھی موجودہیں۔الہٰ آبادکانام تبدیل کرنا مستقبل میں آنے والی
مزیدکاروائیوں کی خاموش آوازہے اور عوام دیکھ رہے ہیں کہ مزیدکتنے مسلم
ناموں کویہ دائیں بازوکی بدترین متعصب جماعتیں تبدیل کرتی ہیں۔دائیں بازوکی
جماعتیں اورمتعصب ذہنیت کے تنگ دماغ عناصرکی کاروائیاں اس طرح ایک بڑی حدتک
بڑھ رہی ہیں،وہ مسلمانوں کے صدیوں پرانے مختلف شہروں،مسلم ناموں یایہاں تک
کہ مسلم آوازوں کے سننے کے بعدچراغ پا ہوجاتی ہیں۔آئے دن ایسے واقعات
رونماہوتے ہیں جہاں مخالف مسلم اورتعصب کاثبوت دینے والے سیاست دان چاہتے
ہیں کہ کئی ایک مسلم ناموں کوہندو ناموں میں تبدیل کردیاجائے جن میں
احمدآبادکانام کروناوٹی،بھوپال کوبھوجپال، اورنگ آبادکانام تبدیل کرکے
سمھاجی نگر،پٹنہ کانام تبدیل کرکے اسے پاٹلی پتر،حیدرآبادکے نام کو بھاگیہ
نگر میں بدلنے کی سازش ہنوزچل رہی ہے جبکہ گواکوتبدیل کرتے ہوئے گواپری،
کیرالہ سے کیرونک،ناگالینڈسے ناگن چی میں بدلنے کی تیاری ہورہی ہے،اس کے
علاوہ گلبرگی کانام تبدیل کرکے اسے کلبورگی کردیاہے۔مسلمانوں کی شناخت
مٹانے کے ایک اوراقدام کرتے ہوئے تاریخی حیثیت کی حامل ریاست اترپردیش کے
شہرالہٰ آبادکاقدیم اورمسلم نام تبدیل کر دیا گیا ۔
موجودہ الہٰ آبادشہرمغل بادشاہ جلال الدین محمداکبرنے 1574ء میں
بسایاتھا۔اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں اترپردیش کی
کابینہ نے متفقہ طورپرتاریخی شہرالہٰ آبادکانام تبدیل کرنے کااعلان کیا۔بی
جے پی سے تعلق رکھنے والے ہندوانتہاء پسند وزیریوگی ادتیہ ناتھ نے کہاکہ
الہٰ آبادکانام تبدیل کرکے پرایاگرج رکھیں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست
کے چیف منسٹرکچھ کے میلے سے پہلے الہٰ آبادکانام تبدیل کرناچاہتے ہیں ۔ہندوؤں
کے مقدس ترین دریاؤں کے سنگم پر واقع اس شہر میں ہربرس میلے لگتے ہیں ۔یہ
بارہ برس میں کہاکمھ کاانعقاد ہوتاہے جسے دنیامیں بادشاہ جلال الدین
محمداکبر1574ء میں بسایاتھا۔یہ شہرگنگاجمناکے سنگم پرواقع ہے جس کی تاریخ
443سال قدیم ہے۔اس شہرنے برصغیر کی جنگوں اوربعدازآزادی میں اہم
کرداراداکیا۔
جس مقام پرہندوؤں کامیلہ کمھ لگتاہے اس کانام پہلے ہی سے پریاگ راج ہے۔مسلم
ناموں کی تبدیلی حقیقت میں مسلم ناموں سے انتہاء پسند ہندوؤں کی الرجی
اورشدیدنفرت کانتیجہ ہے اوریہ نفرت بابری مسجدکی شہادت کے وقت سے ہی پالی
جارہی ہےاوربابری مسجدکی شہادت کے بعدکئی شہروں میں نفرت کی جوآگ لگائی گئی
تھی،اس کے نتائج آہستہ آہستہ ہرگزرتے دن کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔مسلم
ناموں سے نفرت ہندوستان میں کسی شہریاگلی کے مسلم نام کوتبدیل کرتے ہوئے
اسے ہندونام میں تبدیل کرنے تک محدودنہیں ہے بلکہ یہ نفرت یہاں تک پھیل چکی
ہے کہ گھروں کے ناموں،رہائشی عمارتوں کے جونام مسلم ناموں پررکھے گئے ہیں
ان کو بھی نشانہ بنایاجارہاہے۔شہروں گلیوں،مکانوں اوررہائشی عمارتوں کے
بعدجن مردوں اورعورتوں کے مسلم نام ہیں ،انہیں ملازمت حاصل کرنے کیلئے
ناممکن حدتک مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے۔
آرایس ایس کے مطابق ان شہروں کے موجودہ نام ہندوستان پرحملہ کرنے والوں نے
دیئے ہیں۔بی جے پی کےدہشتگرد بازوئے شمشیرزن راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس)
کیرالہ کانام بھی بدل کربرمیک رکھنے کیلئے پرعزم ہے۔ اپریل میں ہریانہ کی
بی جے پی حکومت نے گڑگاؤں کانام بدل کر گروگرام رکھ دیاتھا،آرایس ایس
کامطالبہ ہے کہ الہٰ آبادکا نام بادشاہ کرندیوکے نام پرکرناوتی رکھ
دیاجائے،اسی طرح بھاگیہ لکشمی کے نام پرحیدر آبادکانام اورشیواجی کے بیٹے
سنبھاجی کے نام پررکھ دیاجائے ۔بھارت میں تعصب کی یہ حالت ہے تومعیشت
وسیاست میں بھی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔سنگھ اورہندوسمراٹ نریندرمودی نے
مل کرملک کو ہندوراشٹربنانےکاتہیہ کررکھاہے۔گوآئینی طورپربھارت اب بھی ایک
سیکولرملک ہے لیکن عملی طورپربی جے پی نے پورے ملک کوبھگواکرن کردیاہے۔
کے معروف امریکی مصنف،محقق،How Dictators Come To Power In A Democracy
مورخ جم پاؤل نےاپنے ایک تحقیقی مضمون میں ہٹلر کی مثال کو سامنے رکھتے
ہوئے ثابت کیا کہ جب جمہوریت میں رہنے والوں کی اکثریت حالات سے بالکل ما
یوس ہو جائے تو فاشسٹ رجحانات رکھنے والے افرادحکمرانوں کی خراب معاشی اور
سیاسی پالیسیوں کے باعث انتخابات میں ایسے متعصب وانتہاء پسندافراد انتخاب
میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو عام حالات میں بالکل پذیرائی کے قابل نہیں
ہوتے۔حال ہی میں دنیامیں دو ایسی بڑی مثالیں دیکھنے کوملی ہیں ۔ انہی مایوس
کن حالات میں مودی اور ٹرمپ جیسے دیوانے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔
جم پاؤل کے اس تجزیئے کی صداقت بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں
صدفی صد درست نظر آ رہی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے ملک بھارت کی ایک ریاست اتر
پردیش میں ایک ایسا شخص ریاست کا وزیراعلی بننے میں کامیاب ہو گیا،جس
کودنیا کا کوئی بھی غیر جانبدار شخص قطعی طور پر ذہنی اعتبار سے ایک متوازن
شخص قرار نہیں دے سکتا۔ بھارت کی اہم ترین ریاست اترپردیش میں
انتہاپسنداورمتعصب ترین ہندواوربھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یوگی آدتیہ
ناتھ کی شناخت مسلمانوں کے حوالے سے سخت گیرموقف رکھنے والے ہندورہنماکے
طورپر ہوتی ہے اوروہ اکثروبیشتر مسلمانوں کے بارے میں متنازع بیانات دیتے
رہتے ہیں۔ انتہاپسندہندورہنمایوگی آدتیہ ناتھ نے ہندویواواہنی نامی ایک
مسلح گروہ بھی بنارکھاہے اوریہ مسلح جتھہ مسلمانوں کے خلاف قتل وغارت اور
ریاست میں فسادات پھیلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہاہے۔یوگی آدتیہ ناتھ کا تعلق
پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے گڑھوال کے ایک گاؤں سے بتایا جاتاہے،یوگی آدتیہ
ناتھ کی ساری سیاست تشدد پرمبنی ہے اورخوداس کے خلاف بھی اقدام قتل، معاشرے
میں فساد برپاکرنے،دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے اورمزارکونقصان پہنچانے
جیسے الزامات کے تحت تین مقدمات بھی درج ہیں۔
ٹھاکر اجے سنگھ بشٹ عرف یوگی آدتیہ ناتھ نامی اس شخص کوجاننے کیلئےیہ چند
جملے ہی کافی ہیں کہ جویوگی آدتیہ ناتھ نے مختلف جلسوں اورپروگراموں میں
کہے:مسلمانوں کوسزا دینے کی خاطران کی عورتوں کوریپ کرنے میں بھی کوئی حرج
نہیں....میں یوپی اوربھارت کوایک ہندو راشٹربنانے تک چین نہیں لوں گا....
اگرایک ہندو لڑکی کومسلمان بناکراس سے شادی کی جائے گی توہم ایک سومسلمان
لڑکیوں کوہندوبنادیں گے...اب کوئی جودھا کسی اکبرکے ساتھ نہیں جائے گی
....مسلمان مشرقی اترپردیش کوبھی پاکستان بناناچاہتے ہیں۔۔۔ یوگابھگوان کی
دین ہے،اِس لئے اس کی مخالفت کرنے والے بھارت چھوڑ دیں۔۔۔ بھگوان گنیش کی
مورتی ہرمسجد میں ہونی چاہئے..... شاہ رخ اور حافظ سعید میں کوئی فرق نہیں،
اگر بڑی تعداد میں لوگوں نے شاہ رخ کی فلموں کا با ئیکاٹ کر دیا تو وہ بھی
با قی مسلمانوں کی طرح بھارت کے گلی محلوں میں دھکے کھائے گا ..... ہندوؤں
کے بھارت پر راج کرنے والے مسلمان،بہادرشاہ ظفراور ٹیپوسلطان کی اولادیں آج
بھکاریوں کی زندگی گزاررہی ہیں....مدرٹریساانسانی خدمت نہیں بلکہ بھارت میں
عیسائیت پھیلانے کیلئےکام کرتی تھی ۔
مودی حکومت کے پچھلے چارسال میں بھارتی اقلیتیں بالخصوص مسلم اقلیت ہرمعنی
میں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی شہری بن چکی ہیں۔مساجد کی اذان سے
ساؤنڈپولیوشن کی دہائی دی جارہی ہے اورتاج محل میں پانچ وقت کی نمازنہیں
ہوسکتی۔دہلی سے ملے ہوئے گڑگاؤں میں کھلے میدان میں نمازجمعہ پرپابندی
عائدکی جاچکی ہے۔شرعی معاملات میں بھی حکومت کی دراندازی ظاہرہے اورتواورآج
اس ملک کامسلمان نہ تواپنے گھرمیں محفوظ ہے اورنہ ہی سڑکوں پراس کی جان
ومال کوامان حاصل ہے۔بھلامودی حکومت سے قبل کوئی سوچ سکتاتھاکہ ایک معصوم
مسلمان(جس کانام اخلاق ہے)اپنے گھرکے اندرگائے کاگوشت رکھنے کے الزام میں
ہلاک کردیاجائے گاجبکہ بعدازان تجقیق کے بعدیہ الزام بھی غلط نکلالیکن آج
تک ان متعصب ہندوؤں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔جس مودی
کے دورمیں گجرات میں مسلم کشی کاجنونی کھیل کھیلاجاسکتا ہے،اس مودی کے راج
میں بھلامسلمان کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ابھی مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے
پاس حق رائے شماری ہے یعنی ووٹنگ کاحق بچاہے،اگر2019ء لوک سبھاکے انتخابات
میں بھی مودی کی قیادت میں بی جے پی برسراقتدارآگئی تویہ ملک باقاعدہ
ہندوراشٹرہوجائے گااور اقلیتوں سے حق رائے شماری بھی چھین لیاجائے گا۔
چھتیس گڑھ،راجستھان،مدھیہ پردیش،تلنگانہ اورمیزورام میں جوانتخابات ہورہے
ہیں،وہ لوگ سبھا انتخابات سے قبل مسلمانوں کی دانشمندی کیلئے آخری موقع ہے
کہ جن کے ذریعے سے مودی کو 2019ء میں ہندوستان کادوسری مرتبہ وزیراعظم
بنانے سے روکاجاسکتاہے ورنہ اس بدترین عالمی دہشتگردوزیراعظم سے نجات محال
ہوجائے گی۔ |