کانگریس نے اپنے تینوں نو منتخب وزرائے اعلیٰ کی حلف
برداری کے لیے ۱۷ دسمبر کا مہورت نکالا۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے کمل
کو اناتھ کرنے والے کمل ناتھ کی تاج پوشی جمبوری میدان میں جانی مانی
شخصیات کے سامنے تقریباًایک لاکھ کارکنان کو لاکر عوامی طاقت کے مظاہرے کی
کوشش کی گئی۔ اس کے برعکس راجستھان میں اشوک گہلوت نے آزادی کے بعد پہلی
بار البرٹ ہال میں حلف برداری تقریب کا انعقاد کیا ۔ چھتیس گڑھ کے رائے پور
سائنس کالج میدان میں بھوپیش بگھیل کی رسمِ حلف برداری کا ارادہ کیا گیا
لیکن بارش کی وجہ سے انڈور اسٹیڈیم میں منتقل کرنا پڑا۔ راہل نے پچھلے دنوں
اعتراف کیا تھا کہ وہ مودی جی سے سیکھ چکے ہیں کہ کیا نہیں کرنا چاہیے لیکن
اس تام جھام کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی سے تقریبات
کے اہتمام کا فن یعنی event management بھی سیکھ لیا ہے۔
اس موقع کو حزب اختلاف کے اتحاد ( ماتگٹھ بندھن) کی مہمیز کے طور پر
استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔تقریب میں سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ
اور ایچ ڈی دیوے گوڑا کے ساتھ ان کے فرزند کمار سوامی، فاروق عبداللہ، شرد
پوار، شرد یادو، پرفل پٹیل ،چندربابو نائیڈو، تیجسوی یادو، جتن رام مانجھی
،ہیمنت سورین، بابولال مرانڈی ، اسٹالن ، کنی موزی، ٹی آر بالو، بدالدین
اجمل اور سماجوادی کے راجیش کمار موجود تھے ۔ اکھلیش موجود ہوتے سماجوادی
کا نام لکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ٹویٹ پر انہوں نے شرکت سے ذاتی وجوہات
کی بناء پر معذرت کی۔ مایاوتی اور ممتا بنرجی نے ایسا کرنے کی ضرورت بھی
محسوس نہیں کی۔ ویسے ترنمل کا ایک رکن پارلیمان اسٹیج پر نظر آرہا تھا۔
کمیونسٹ بھی دکھائی نہیں دیئے ویسے ان کا آنا نہ آنا یکساں ہوگیا ہے۔ اس
لیے یہ ماننا پڑے گا کہ بنگلورو میں کمارسوامی کی حلف برداری میں جس جوش کا
مظاہرہ ہوا تھا وہ اس بار دیکھنے کو نہیں ملا۔
حزب اختلاف کی سرد مہری کا پتہ لگانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ اس کی صاف
صاف وجہ یہ ہے کہ دیوے گوڑا کی جنتادل (ایس) نہ تومایا اور کی اور نہ ممتا
کی سیاسی حریف ہے مگر کا نگریس سے اس کا مقابلہ ہے۔ یہ علاقائی جماعتیں
کانگریس کے کمزور ہونے پر اسی طرح خوش ہوتی ہیں جیسے بی جے پی ہوتی ہے اور
کانگریس بھی ان کے مضبوط ہونے پر اسی طرح غمگین ہوتی ہے جیسا کہ بی جے پی
ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ ہندوستانی سیاست میں نظریہ کی جگہ ابن الوقتی نے لی ہے۔
ایسے میں تصور کریں کہ ایک ہفتہ قبل جب انتخابی ناکامی کے بعد جب وسندھرا
راجے سندھیا نے گورنر کلیان سنگھ کو اپنا استعفیٰ سونپا ہوگا تو بابری مسجد
شہید کروانے والے سابق وزیراعلیٰ کو کیسا لگا ہوگا؟ گورنر کی حیثیت سےوہ
اپنی پارٹی کی حکومت کو گرنے سے نہیں بچا سکا۔
کلیان سنگھ کے ساتھ یہ سانحہ دوسری بار ہوا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کے
بعد سابق وزیراعظم نرسمھا راو نے ان کی سرکار گرادی تھی لیکن اس وقت مرکزی
حکومت پران کا اختیار نہیں تھا ۔ اس کے بعد انتخاب ہوئے تو عوام نے انہیں
شکست فاش سے دوچار کردیا ۔ رائے دہندگان پر بھی ان کا زور نہیں چلتا تھا سو
بے بس ہوگئے۔ اب تو مرکز میں اپنی ہی سرکار ہے لیکن پھر سے عوام نے سبق
سکھا دیا۔ مکافاتِ عمل کے آگے بھلا کس کی چلتی ہے؟ کلیان سنگھ کی آزمائش
ابھی پوری نہیں ہوئی ۔ کانگریس کے رہنما اشوک گہلوت یا سچن پائلٹ کی حلف
برداری کرتے وقت بھی ان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہوں گے ۔ اس وقت ان کے دل
پر جو گزری ہے اس کا اندازہ تو وہی کرسکتے ہیں اس لیے کہ قبر کا حال تو
مردہ ہی جانتا ہے۔
کلیان سنگھ کے مقابلے آنندی بین کی مشکلات دوگنا ہیں ۔ اس سال اگست میں
چھتیس گڈھ کے گورنر بلرام داس ٹنڈن کا انتقال ہوگیا تھااس لیے آنندی بین
کو اس صوبے کا کارگذار گورنر نامزد کردیا گیا۔ یہ وہی آنندی بین ہے جنھیں
اپنی وراثت یعنی وزیراعلیٰ کا عہدہ سونپ کر مودی جی دہلی گئے تھے لیکن وہ
اپنےپٹیل سماج کو قابو میں نہیں رکھ سکیں۔ ریاست بھر میں ہونے والے مظاہروں
کا بہانہ بناکر امیت شاہ نے ان کی چھٹی کردی اور اپنی برادری کے وجئے
روپانی کو گدی پر بٹھادیا۔ صوبائی انتخاب میں روپانی نے ۱۵۱ کا دعویٰ کیا
مگر ۹۹ پر سمٹ گئے۔ اس کے باوجود ان کو نہیں ہٹایا گیا۔
آنندی بین کا سارا دکھ شیوراج چوہان اور اس کے بعد رمن سنگھ کا استعفیٰ
قبول کرنے کے بعد دور ہوگیا ہوگا۔ وہ کم ازکم ہار کر تو اپنے عہدہ سے محروم
نہیں ہوئی تھیں۔ یہ دونوں تو ذلیل و خوار ہوکر آئے تھے۔ آنندی بین نے جس
طرح مسکراتے ہوئے چوہان کا استعفیٰ قبول کیا اور ہنستے ہوئے اپنی تصویر
کھنچوائی اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کی اس شکست سے وہ بالکل
بھی رنجیدہ نہیں ہیں ۔ امیت شاہ نے انہیں اس قدر دکھ دیئے ہیں اس کے چلتے
کا نگریسیوں کی حلف برداری کراتے ہوئے بھی آنندی بین کو آنند ہی آنند
ہوگا۔ بقول غالب ؎
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
بی جے پی کے اچھے دن فی الحال نہ جانے کہاں کھو گئے ہیں۔یہ جماعت پنجاب کی
حکومت میں شامل تھی وہاں پر۲۲ حلقوں میں انتخاب لڑا اور ۳ پر کامیاب ہوئی
نیزاپنی حامی اکالی دل کو بھی لے ڈوبی۔ جموں کشمیر حکومت میں حصہ داری تھی
آدھی کے بجائے پوری کے چکر میں آدھی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ۔ وہ تو اچھا
ہوا کہ کرناٹک میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے کے باوجود حکومت نہیں
بناسکی ورنہ شاہ جی روپیوں کی تھیلی لے کر مدھیہ پردیش پہنچ جاتے ۔ گوا کی
مانند کانگریس کے ہاتھ ایک رکن اسمبلی بھی لگنے نہ دیتے الٹا کانگریس کو
توڑ کر اپنےساتھ ملا کرسرکار بنالیتے ۔
اس انتخابی ناکامی کی ذمہ داری تینوں وزرائے اعلیٰ نے اپنے سر لے لی لیکن
مودی جی اور شاہ جی کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔ ان کی بولتی ایسی بند ہے کہ
عوام کا شکریہ تک اداکرنا بھول گئے۔ ایوان پارلیمان میں ویسے ہی بی جے پی
کے ارکان کی تعداد ۲۸۲ سے ۲۷۲ ہوچکی ہے اوپر سے یوپی کا دلت چہرہ ساوتری
پھلے بھی استعفیٰ دے چکی ہیں ۔ سشما سوراج اور اوما بھارتی جیسے بی جے پی
کے معمر رہنما ازخود رضا کارانہ سبکدوشی لے رہے ہیں۔یہ برسرِ اقتدار جماعت
کے لیے تشویشناک صورتحال ہے۔ ایسے میں کانگریسیوں کا نیا نعرہ ’ برے دن
جانے والے ہیں ، راہل جی آنے والے ہیں‘ خوب چل رہا ہے۔ ویسے مودی جی کے
نام نہاد ’اچھے دن ‘ پر یہ قتیل شفائی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
بہتر دنوں کی آس لگاتے ہوئے قتیل
ہم بہترین دن بھی گنواتے چلے گئے |