پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کو آج اس ملک کی عوام کا
بھرپور خیال ستایاہواہے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نوازشریف کی جانب سے
عوامی رابطہ مہم کا اعلان تو پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری کی جانب سے
پنجاب اور سندھ بھر میں جلسے جلوس دونوں ہی عوام کے درمیان وقت گزارنے کا
عمل یا ایک بہانہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ واقعی عوامی رابطوں کا معاملہ ہے
؟ الیکشن کی تیاریاں ہیں یاپھر سیاسی دفاع ؟ یہ آئندہ چند روز میں واضح
ہوجائے گا اوریہ بھی درست ہے کہ یہ تینوں ہی معاملات اہم ہیں ،مگر میں آج
ان سے بھی زیادہ اہم معاملے کی جانب اپنے پڑھنے والوں کی توجہ مبزول کروانا
چاہتاہوں جس کا زکر آگے چل کر کرونگا۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مڈٹرم
الیکشن کا اشارہ کیا ہوا گویا گھروں میں بیٹھے سیاستدانوں کے جسموں میں
بجلی سی بھر گئی ہے اچانک سب کو ہی ٹوٹ کرعوام سے محبت ہونے لگی ہے ، مگر
جہاں تک عوام سے رابطے بڑھانے کا معاملہ ہے وہ سمجھ سے بالاترہے کیونکہ جب
عوامی رابطہ مہم کا وقت تھا جب کسی نے بھی غریب عوام کی جانب توجہ نہیں دی
آج جب انہیں عوام کی ضرورت درپیش ہے تب انہیں یہ ہی عوام اب اپنے بچاؤ کی
واحد تدبیر نظر آرہی ہے شاید اس ملک کی یہ دونوں بڑی جماعتیں اس آس میں
عوام کے درمیان جانے کی کوششوں میں ہیں کہ یہ عوام یقیناً ان کے لیے ٹینکوں
کے نیچے لیٹ کر ان کا دفاع کریگی ، اور یوں محسوس ہوتاہے کہ مسلم لیگ ن اور
پیپلزپارٹی کے حکمرانوں نے کوئی ایسا انقلاب برپا کردیاہے کہ ان دونوں
جماعتوں کے لوگوں کے لیے عوام اپنے دروازوں پر کھڑی ہے کہ آئیے آئیے
نوازشریف صاحب آئیے زرداری صاحب آئیے ۔کیا ایسا منظر نامہ کسی کے مشاہدے
میں ابھی تک آیاہے؟، آصف زرداری صاحب اور ان کے قریبی ساتھی اس طرح میاں
نوازشریف ،میاں شہباز شریف ،مریم نواز،کیپٹن صفدر ،شاہدخاقان عباسی اور
خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر اول درجے کی قیادت اس وقت سخت مشکلات کا شکار ہے
بظاہرتوان کے لیے ہر قسم کے راستے بند ہوچکے ہیں، مگراس سے قبل کے ان کے
درواز ے عوام کے لیے بند تھے یقیناان حکمرانوں کو عوام سے رابطے اس وقت
کرنے چاہیے تھے جب یہ ان ہی عوام کے ووٹوں سے پوری آب وتاب کے ساتھ سیاست
کے آسمان پر چمک رہے تھے اور ان کی کابینہ کے ارکان اپنی ناک پر کسی مکھی
کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یہ وہ وقت تھا جب وزراء کے دروازے کا
رکنوں اور عام شہریوں کے لیے بند ہوتے تھے یہاں تک کہ کسی بھی عام آدمی کو
وزیروں کے دروازے پر تو کیا ان کے فلورپر آنے کی بھی اجازت نہیں تھی آج ا س
وقت عوام کا خیال صرف اس لیے آرھا ہے جب یہ خود مشکل میں ہیں مگر غموں کی
ماری یہ عوام جو اس وقت اپنے ہواس مکمل طورپر کھو چکی ہے شاید اپنے ان
دکھوں کو بھی یاد نہ رکھ سکے کہ ان پر کیا گزررتی رہی اور اب کیا گزررہی ہے
۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے سو دن بھی ایک عذاب مسلسل
ثابت ہوئے ہیں غریبوں کے چولہوں کی بجھتی ہوئی آگ اب راکھ کے ڈھیر میں
تبدیل ہو چکی ہے لوگ شاید موجودہ حکمرانوں سے بھی اپنی امیدو ں کو کھوتے
جارہے ہیں شاید ان کے پاس اب کوئی ایسی چوائس باقی نہ رہی ہے کہ موجودہ
حکومت پر ہی اعتبار کرلیا جائے یا پھر پچھلے حکمرانوں کو پھر آزمایا جائے؟
؟ یعنی تمام آس وامید ہی دم توڑتی جارہی ہے سوشل میڈیا دیکھیں تو موجودہ
حکومت کے بارے میں ایسا لگتاہے کہ ایک خدائی فوج عوام کی مدد کو آن پہنچی
ہے لوگوں کے گھروں میں آسمانوں سے کھانے اور لوازمات اتر رہے ہیں اور جب
سوشل میڈیا سے الگ ہوئے تو محسوس ہوا کہ ہم ایک ایسے ویرانے میں کھڑے ہیں
جس سے نکلنے کا دوردورتک کوئی راستہ نہیں ہے وہ ہی پریشانیاں وہ ہی سوچیں
جو نہ تو گزشتہ دور حکومت میں ختم ہوئی اور نہ ہی موجودہ وقتوں میں ان میں
کچھ کمی آئی ہے ہم کسی کی عیادت کو ہسپتال میں بھی چلے جائیں تو یہ وہ مقام
ہے جہاں کی حالت دیکھ کر ہر ایک شخص کو اپنی پریشانیاں کم ہی دکھائی دینے
لگتی ہیں سہولتو ں اور دوائیوں سے محروم لوگوں کی آہ و بقا کو دیکھ کر ہم
بہت حد تک اپنی پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں ،تھانوں میں اور عدالتوں میں
اگر کسی مقصد کے لیے جانے کا اتفاق ہو تو وہاں بھی پریشانیوں اور مصیبتوں
کے ڈیرے دکھائی دیتے ہیں گاؤں اور دیہاتوں سے لیکر تمام تر شہری زندگیوں
میں اگر کہیں خوشحالی دکھائی دیتی ہے تو وہ ان محلوں میں دکھائی دیتی ہے جن
کے مکینوں کا شعبہ اقتدار سے شروع ہوتا ہے اوراقتدار پر ہی ختم ہوتا ہے یہ
وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکومت میں ہو تو دکھائی نہیں دیتے اور حکومت سے باہر ہو
تو عوام کی ہمدردی سمیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کی اداکاریاں اور مگر مچھ
کے آنسوؤں کو دیکھ کر ان لوگوں کو بھی حیرانگی ہوتی ہے جن کو معلوم ہی نہیں
ہے کہ خوشی بھی کسی بلا کا نام ہے مگر ان تمام باتوں میں سوال یہ اٹھتا ہے
کہ پریشان اس وقت موجودہ حکمران ہیں یاسابقہ حکمران جس کا جواب یہ ہے کہ ان
دونوں میں کوئی پریشان نہیں ہے اصل پریشان تو وہ عوام ہیں جو ان بھیس بدل
بدل کر آنے والے ان بھیروپیوں سے تنگ ہیں جوکبھی مسلم لیگ کے کسی گروپ سے
آجاتے ہیں تو کبھی پیپلزپارٹی کے کسی شہید پر ترس کھانے سے یا کسی اور
لاڈلے کے نام سے جماعت بناکر قوم کو بے وقوف بنانے آجاتے ہیں جو ہر دور میں
اپنے اور اپنے بچوں کا مقدر بدلتے رہے مگر درحقیقت سب کے سب ایک ہیں اگر
نہیں بدلے تو عوام کے مقدر نہیں بدلے اگر نہیں بھرے تو عوام کے پیٹ نہیں
بھرے اور نہ ہی ان لوگوں کو کبھی انصاف مل سکا اور نہ ہی کبھی روزگار مل
سکا جنھیں کوئی نہیں جانتا وہ عدالتوں کے بیس بیس سال سے چکر لگالگاکر تھک
چکے ہیں اور جو مشہور ہیں ان کے کیسوں کی سرخیاں آج کے اخبار میں بھی مل
جائینگی اور کل کے بھی اخبار ان ہی کے لیے بھرے پڑیں ہیں جو کبھی باعزت بری
تو کبھی بھرپور پروٹوکول کے ساتھ ملکر سے فرار ہوجاتے ہیں،اور جب کبھی یہ
حکمران پھنس جاتے ہیں تو پھر ان کو عوام کی یاد آجاتی ہے اسی عوام کی یاد
جن کے لیے ان کے دروازے صرف ان ہی دنوں میں بند ہوتے ہیں جب یہ اقتدار میں
ہوتے ہیں گزشتہ روز جب میں آفس سے گھرواپس آرھا تھا تو ایک نحیف سے آدمی سے
ملاقات ہوئی جو مجھے کہہ تھا بھائی کھانا کھلادوبہت بھوک لگی ہے ،میں اس
نئے پاکستان میں اس اکلوتے بھوکے شخص کو دیکھ کر بہت حیران ہوااور اس شخص
کو لیکر قریب ہی ایک ہوٹل میں لے گیا اور کہا جو کھانا ہے منگوالو اس دوران
جب میں نے اس آدمی سے پوچھا کہ کیا کام کرتے ہو تو اس نے کہا اگر کچھ کام
کاج کررہاہوتا تو کھانے کے لیے آپ سے کیوں کہتا پھر میں نے اس آدمی سے
دوبارہ سوال کیا اس بار آپ نے کسے ووٹ دیاتھااور تمھارا پسندیدہ لیڈر کون
ہے؟۔ تو اس نے کہا بتا تا ہوں بھائی پہلے کچھ کھالو ں بہت زور کی بھوک لگی
ہے ۔ |