ایم اے ابلاغ عامہ کیے کئی برس بیت گئے ۔یونیورسٹی میں
کسی کا م کے سلسلے میں جانا ہوا تو وہاں اساتذہ سے ملاقاتیں ہوئیں اور
ابلاغ عامہ کے طلبہ سے بھی ۔کئی طلبہ کو جب پتا چلا کہ ہم شعبہ صحافت سے
وابستہ ہیںتوان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا اوروہ ہم سے بے تکلفی سے گویا ہوئے
۔کئی معصومانہ سوالا ت کیے ۔ایک طالب علم نے کہا کہ کیا میں انٹر ن شپ
کرسکتا ہوں ،ایک نے سوال پوچھا کہ ہم صحافت کے طالب علم ہیں بتائیں اس کا
مستقبل کیاہے ؟۔ایک اورطالب علم نے سوال کیا مجھے جاب مل جائے گی ؟مختلف
سوالات سن کر ہم سوچ میں پڑ گئے ۔اس صورتحال میں ہمارے پاس ایک ہی ٹکا سا
جواب تھا جو موجود صورتحال کے لحاظ سے حقیقت کے قریب ترین تھا کہ اس شعبے
کواختیار نہ کیا جائے ۔لیکن ہم نے ان تمام سوالات کرنے والوں سے یکایک ایک
سوال کرڈالا ،یہ بتائیں کہ آپ یہ شعبہ کیوں اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ایک
طالب علم نے کہا کہ یہ ایک مشنری شعبہ ہے۔میں صحافت کوبطور مشن اپنانا
چاہتا ہوں ۔دوسرے طالب علم نے کہا کہ یہ میڈیا کا دور ہے ،اس میں چارم ہے
اورمواقع ہیں ۔ایک اورطالب علم نے کہا کہ یہ اچھا شعبہ ہے ،اس میں عزت
اورپیسہ بھی ہے ۔میں ان تما م طلبہ کی باتیں غور سے سن رہا تھا اورحیران ہو
رہا تھا کہ یہ چند طالب علموں کے سوالات نہیںہیں بلکہ ملک کی تمام
یونیورسٹیز میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلبہ کے سوالات ہیں
اورتمام طلبہ عین اسی سوچ کے مطابق تعلیم حاصل کررہے ہیں ،لیکن وہ اس تعلیم
کے بعد اس شعبے سے منسلک ہوکرملنے وا لے ثمرات سے لاعلم ہیں ۔ ہم نے ان
تمام طلبہ کو انتہا ئی متانت سے دیکھا اورمخاطب ہوئے ،دیکھیے آج دور بہت
بدل چکا ہے،میری ذائی رائے کے مطابق آج کے دور میں اگرآپ کوئی بھی کام
دیانت داری سے کرتے ہیںتو یہ ازخود مشن بن جاتا ہے اوراگرآپ محض پیسہ کمانے
کے خواہش مند ہیں تو یہ کام ایک پیشہ ہوتاہے ، رہا عزت والے کام کی بات
توآپ کوئی بھی کام کرلیجئے وہاں ایمانداری کو اپنا شعاربنایئے ،آپ کو عزت
ضرور ملے کی ۔آپ اگرکسی بھی شعبے میں محنت اورلگن سے کام کرتے ہیں ،دوسروں
کیلئے آسانیا ں پیدا کرتے ہیں تو یہ بھی آپ براہ راست خدمت کر رہے ہوتے ہیں
۔ ہم ان طلبہ سے کوئی منفی بات نہیں کرناچاہتے تھے کہ کہیں وہ اس شعبے سے
بدگماں نہ ہوں ،کہیں بھٹک نہ جائیں ،کہیں اپنی سمت غلط جانب نہ موڑ لیں ۔حقیت
حال تو بہت دلخراش ہے،کسی زمانے میں یہ شعبہ واقعی مشنری شعبہ تھا ،لوگ بڑے
جذبے سے کام کرتے تھے ۔آج عجیب صورتحال ہے ۔
اس شعبے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ تمام نشریاتی اداروں میں اپنے قواعد
وضوابط موجود ہیں جوکارکنوں پر لاگوکرنے کیلئے ہیں اوروقتاً فوقتاً ادارے
ان کی تجدید کرتے رہتے ہیں ،مگر کارکنان کے حقوق کیلئے آج تک کوئی قاعدہ
نہیں بنایاگیا۔اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ہم ایک مستحکم نجی نشریاتی ادارے
کے ساتھ 5سال سے زائد عرصے تک منسلک رہے ۔ملازمت ترک کرنے سے قبل رائج
طریقہ کارکے مطابق ایک ماہ قبل نوٹس بھی دیا،مگر اس نشریا تی ادارے میں
ہمیں کہا گیا کہ آپ کو ملازمت چھوڑنے سے 3ماہ قبل ادارے کو اطلاع دینا ہوگی
۔یہ بات سن کر ہمیں بہت عجیب سالگا کہ کون سا ادارہ ہے، جہاں تین ماہ کا
نوٹس ہو تا ہے ،کون ساوہ ادارہ ہے جو آپ کا تین ماہ انتظار کرے گا کہ صاحب
آئیں گے یہ اسامی ان کیلئے خالی رکھنی ہے ۔یہ بات تو لیبررولز کے بھی منافی
ہے۔خیر اس ادارے میں ہمیں ڈیڑھ لاکھ کے واجبات چھوڑنا پڑے اور ہم نے
مجبوراًدوسرے ادارے میں ملازمت اختیار کرلی۔
یہاں کو ئی تعلیم کی قید نہیں ہے ہم نے میٹرک پا س صحافی بھی دیکھے اورانٹر
پاس بھی کریجویٹ بھی دیکھے ایم اے بھی ،اگرآپ میٹرک پاس بھی ہیں اورتھوڑ
اکام کا تجربہ ہے توآپ کسی چھوٹے ادارے سے منسلک ہوسکتے ہیں ۔چند بڑے
اداروں میں ایم اے کی شرط پرعمل کیا جارہا ہے۔چھوٹے اخبارات میںصحافی کی
تنخواہ مزدورکے برابر تنخوا ہ ہوتی ہے ۔چند بڑے اخبار میں مناسب تنخوا ہ ہے
مگر آج موجودہ مہنگائی کے لحاظ سے 50ہزارتنخواہ بھی اب 30ہزارکے برابر
ہوگئی ہے، سوکھی تنخواہ ملتی ہے ،مراعات کا نام مت لیجئے ، آپ کو ئی بونس
ملے گا نہ انکریمنٹ ،نہ ہی آپ ہنگامی صورتحال میں کو ئی قرضہ لے سکتے
ہیں۔آپ بیمار پڑجائیں ،بستر مرگ پر پہنچ جائیں ،سوائے چند اداروں کے جو آپ
کو انشورنس کی مد میں صحت کی سہولت دے رہے ہیں اور کسی نشریاتی ادارے میں
یہ سہولت نہیں ہے ۔ وہ بھی اسپتال میں داخلے کی صورت میں ہے۔جب آپ شدید
زخمی ہوں گے۔ دل کا دورہ پڑے یا اس جیسا کوئی اورمسئلہ درپیش ہوگا ۔اصل
مسئلہ تو اوپی ڈی کا ہے ،اس کا نام بھول جائیے ،حالانکہ اوپی ڈی کی مد میں
بچوں والے گھر میں ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہورہے ہوتے ہیں ۔
ہمیں بیشتر اداروں میں نہ تو ملازمت کا لیٹر دیا جاتاہے ،نہ ہمیں مستقل کیا
جاتا ،ایک زمانے میں چند بڑے اخبارات میں صحافتی ملازمین مستقل ہوتے تھے
لیکن ان اداروں نے ان سے بھی جان چھڑالی ہے اوراب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
کہ کسی کو مستقل کیاجائے۔ہمیں پینشن ملتی ہے نہ گریجویٹی ،لیو ان کیشمنٹ ہے
نہ کوئی بونس نام کی چیز،مستقبل کا کوئی پلان ہے نہ کو ئی مالی تحفظ ،اس
کیلئے ہم خود بھی اس کی منصوبہ بندی نہیںکرسکتے کیونکہ تنخواہ ہی اتنی
تھوڑی ہوتی ہے، اس میں یومیہ دال روٹی چل جائے کافی ہے ۔بیوی بچوں کی
خواہشات پوری کرنا ،بچوں کو ہائی لیول اسکولز میں پڑھا نا تو بہت دور کی
بات ہے ۔ایک زمانے میںکہا جاتا تھا پاکستان صحافیوں کے قتل کے لحاظ سے
خطرناک ملکوں کی فہرست میں ہے ،کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ صحافیوں کے حقوق
کوسلب کرنے اورمعاشی قتل میں بھی سر فہرست ہے۔
صحافی برادری کیلئے آج مخدوش صورتحال ہے،بڑے چینلز بڑے بڑے کاروباری ہیں ۔اداروں
میں پہلے لوگوں کو بھرلیا جاتا ہے ،پھر چھانٹی کی جاتی ہے جو سنگین مذاق ہے
۔ریاست کے چوتھے ستون کا آج کوئی پرسان حال نہیں،شدید غیر یقینی اوراصطراب
کی کیفیت ہے ، جس کے باعث شعبے میں آجر اوراجیر کا تعلق میاں بیوی کے تعلق
کی طرح نازک ہوچکا ہے جو دکھنے میں انتہائی مضبوط مگر ختم ہونے میں لمحوں
کی مسافت پر ہے ۔
صحافیوں کی کوئی سوشل لائف نہیں ہوتی ،آپ کے یہاں شادی ہے ،کوئی تقریب
ہے،بچوں کی تفریح ،آپ اپنے رشتہ داروں میں موت میت میں شریک ہونے سے قاصر
ہوتے ہیں ۔ڈیسک پر کام کرنے والے لوگ اپنی راتیں کالی کرتے ہیں پرتنخواہ کے
سواکوئی انسینٹو نہیں دیا جاتا۔یہ لوگ نیند کی کمی اورغیر معتدل معمولات سے
اپنی زندگی کے ایام کو کم کرنے میں مصروف ہیں ،بہت سے لوگ شوگر اورہارٹ کے
مریض بن جاتے ہیں ۔یہ ساری صورتحال ایک صحافی کیلئے تکلیف کا باعث ہے ۔
گزشتہ چند سال میں چند بڑے اخبارات آنے سے کچھ امید بندھی تھی ، نئے اداروں
میں صحافیوں کی تنخواہوں کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا مگر اب اچانک غیریقینی
کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ایک بڑے اورمضبوط نشریاتی ادارے کے شام کے
اخبارمیں ملازمین کام کرنے پہنچے توان کے ہاتھوں میں لیٹرتھما دیئے گئے جن
میں اخبارکومکمل بند کرنے اورمالی خسارے سے متعلق چند نکات درج تھے اورساتھ
ہی ان کی ملازمتوں کیلئے بھی انہیں ٹاٹابائے بائے کہا گیا،اس ادارے نے
لاہوراورکراچی میں اخبارات بندکرکے500ملازمین کوبیک جنبش قلم فارغ
کردیا،جبکہ مختلف اخبارات وٹی وی چینلز میں گزشتہ دوماہ ہے چھانٹیوں کا عمل
جاری تھا اوروہاں سے بھی سیکڑوں ملازمین فارغ کیے جا چکے ہیں ۔
کسی بھی شعبے اورمحکمے میں کچھ یونینز ہوتی ہیں کچھ کو پاکٹ یونین بھی کہا
جاتا ہے ۔ہمارے یہاں نشریاتی اداروں میں تو کوئی یونین نہیں ہے مگر علیحدہ
سے صحافتی تنظیمیں موجود ہیں ۔ان کا کردار ہمیں آج تک سمجھ نہیں آیا ،سوائے
ایک آدھ مظاہرے یا بیان کے کبھی انہوں نے صحافیو ں کے ان مسائل پر کام نہیں
کیا جن کا اس کالم میں تذکرہ کیا گیاہے ،جس سے ہمیںان کے اخباری مالکان کے
ساتھ گٹھ جوڑکاشائبہ گزرتا ہے ،وہ ہمیں آجر کی زیادہ ہمدرد نظرآتی ہیں
،اجیر کی ہمددر ہوتیں تو ملازمتیں چھن جانے پر احتجاج کے اور بھی کئی طریقے
تھے جو اختیار کیے جاسکتے تھے۔ان طریقوں سے ملازمتیں بے شک بحال نہ ہوتیں
کم از کم ان کا اپنا کردار توواضح ہو کرسامنے آجاتاکہ وہ اپنے پیٹی بھائیوں
سے مخلص ہیں ۔ان تنظیموں نے مایوسی کے سواکچھ دیا بھی نہیں ۔اپنے اسی
طرزعمل کی وجہ سے وہ آجر کے مفادات کی محافظ نظرآتی ہیں ،وہ تو صحافیوں
کیلئے ویج بورڈ ایوارڈ پر بھی آج تک عملدرآمد نہیں کراسکیں ۔
محکمہ اطلاعات حکومت نے پاکستان 360اخبارات وجرائد بند کردیئے ہیں ۔ان میں
اکثیریتی اخبارات ڈمی تھے ،یہ اچھی بات ہے ۔وہ اخبارات ورسائل نہیں چلنے
چاہئیںجو خالی نام کے ہوں ،لیکن بڑے اورمضبوط اداروں کا اپنے ذیلی اداروں
کو بند کرنااورکے ملازمین کو بیک جنبش قلم نکالنا اوران کی تنخواہوں سے یہ
کہہ کر کٹوتی کرنا کہ انہیں نکالا نہیں جارہا تنخواہوں سے کچھ کٹوتی کی
جارہی ہے ،سراسرظلم ہے۔یہ ان مخلص صحافی ملازمین سے ناانصافی ہے جو تنخواہ
کے سواکسی سہولت کے بغیر سال ہا سال سے بڑے اخلاص کے ساتھ کام کررہے ہیں
۔یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ چند اداروں سے کسی ملازم کو فارغ نہیں کیا گیا
،یہ خوش آئند بات ہے پر وہاں بھی خاص قسم کا اصطراب اور غیریقینی کی کیفیت
موجود ہے ۔
ہم جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ظلم ہوتا دیکھ رہے تھے، وہاںآج دوسروں
کیلئے حق کی آواز بلند کرنے والے خودعتاب کا شکار ہیں ۔25سال سے صحافتی
تنظیموں کا کرداردیکھ رہا ہوں۔صحافیوں کو اپنا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے
خود کچھ کرنا ہوگا ۔دنیا کا آغاز نہ صحافت سے ہوتا ہے نہ اختتام اس پر
ہے،اللہ کی زمین وسیع ہے ،انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ،اللہ نے پیدا
کیا وہی پالنے والا بھی ہے ،بحیثیت مسلم ہماراس پر مکمل یقین ہونا چاہیے ۔
نئی حکومت کے آنے کے بعد یہ پہلی بار براوقت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر
نکالا گیا ہے۔ 17اکتوبر 2018کو نشریائی اداروں کے ایڈیٹرزومالکان نے
وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں اپنے اداروں کو درپیش مشکلات سے
آگا ہ کیا جبکہ نیوز پرنٹ پر عائد 5فیصد ڈیوٹی ختم کرنے کا مطالبہ کیا
۔وزیراعظم نے اخبارات کو سابقہ حکومت میں رکے ہوئے بلز کی ادائیگیوں کے
احکام دیئے اوراشتہارات جاری کرنے کا نیا طریقہ کار بھی بتادیا،اس کے بعد
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بیان بھی سامنے آیا کہ نشریاتی ادارے اپنے
مسائل خود حل کریں ۔اس سارے عمل کے بعد صورتحال خراب ہوگئی ۔ اخبار کی
قیمتیں بڑھادی گئیں ۔4 صفحات کم کردیئے گئے اوراداروں سے صحافی نکالے جانے
لگے ۔ریاست کے چوتھے ستون کو سنبھالا دینے والے سیکڑوں صحافیوں کے گھروں کے
چولہے ٹھنڈے کردیئے گئے ۔بہت سے نشریاتی اداروں میں بڑے اینکر وصحافی بھاری
بھرکم تنخواہیں حاصل کررہے ہیں مگر محنت ودیانت داری سے کام کرنے چھوٹے
صحافیوں کامستقبل تاریک ہورہا ہے۔
صحافی اورصحافت کی موجودہ صورتحال سے صحافت کے ان ہزاروں طلبہ وطالبات کا
مستقبل بھی مخدوش ہو گیاہے جو اس شعبے میں آکر ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتے
ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ اخباری صنعت اورنجی نشریاتی اداروں کو مسائل حل ہوں
،مسائل آتے ہیںتو ان کے حل کے بھی طریقے بھی موجودہوتے ہیں ،اگروہ
طریقے اختیار کرلیے جائیں تو غیریقینی کیفیت کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔صحافیوں
کے حقوق کیلئے بھی قانون ہونے چاہئیں ،کوئی نصاب ہونا چاہیے،ان کی انشورنس
ہونی چاہیے ،بچوں کی تعلیم کی سہولتیں ہونی چاہئیں ،بونس اوردیگر مراعات
ہونی چاہئیں ،جس سے وہ کوسوں دور کولہو کے بیل کی طرح زندگی کی جنگ لڑرہے
ہیں ۔اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے وہ ان معاملات کودیکھے اورمیڈیا ہاوسز کی
مشکلات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے اورانہیں فوری حل کرے کیونکہ میڈیا ہاؤس کی
پریشانیوں کا نزلہ صحافیو ں پرگرتا ہے اوران کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوتے
ہیںاوروہ بھی دوسرے شعبہ جات کے لوگوں کی طرح مطمئن زندگی گزارسکیں ۔ |