صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔
بات وکالت کی ہو، صحافت کی ہو یا خطابت کی عاصمی صاحب ہر افق پر ایک تابندہ
ستارے کی طرح جگمگاتے ہوئے نظر آتے ہیں"قانون کی حاکمیت "ان کی ایک شاہکار
کتاب ہے جس میں انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں اور قانون کی موشگافیوں کو
عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔
اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ عاصمی صاحب نے کتنی
محنت، مشقت اور عرق ریزی سے اس کتاب کے لیے مواد اکٹھا کیا اور وہ تحقیق و
تفکر کے کن دشوار گزار مراحل سے گزر کر قانون کی حاکمیت جیسی شاندار کتاب
منظر عام پر لے آئے۔
یہ کتاب وکلاء حضرات، جج صاحبان اور قانون کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ عام
لوگوں کے لیے بھی یکساں طور پر اہمیت و افادیت رکھتی ہے ۔ کیوں کہ ہمارے
ہاں قانون کی جتنی بھی کتابیں دستیاب ہیں وہ زیادہ تر انگریزی زبان میں ہیں۔
جس کی وجہ سے ایک عام آدمی جو انگریز ی زبان سے واقفیت نہیں رکھتا وہ قانون
کی کتب سے استفادہ نہیں کرپاتا لیکن جناب اشرف عاصمی صاحب نے اس کتاب کو
اردو میں تحریر کر کے ایک عام آدمی کے لیے قانون کی فہم و فراست کو یقینی
بنادیا ہے جو ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
قانون کی حاکمیت محض ایک کتاب کا نا م نہیں ہے۔ ایک وکیل ہونے کے ناطے
قانون کی حاکمیت عاصمی صاحب کی زندگی کا نصب العین بھی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ
آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدو جہد کی ہے۔ قانون کی
حاکمیت تبھی ممکن ہے جب عوام الناس بھی مروجہ قوانین اور ان کے تحت حاصل
ہونے والے حقوق و فرائض سے مکمل آگہی حاصل کریں گے۔ عاصمی صاحب کی کتاب
قانون کی حاکمیت اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور اس کتاب کو اردو زبان میں
لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ عام لوگ بھی ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ حاصل
کریں اور پھر قوانین کی روشنی میں اپنے حقو ق کا مطالبہ کریں اور اپنی ذمہ
داریوں کا احساس کرتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا
کریں۔
عاصمی صاحب کی کتاب، قانون کی حاکمیت کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں
نہایت، شستہ، شائستہ اور برجستہ جملے پڑھنے کو ملتے ہیں اور پڑھنے والا
انہیں ان کے دلکش اسلوب نگارش کی بھی بھرپور داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
اس کتاب میں عاصمی صاحب نے جو منفرد طرز تحریر اپنایا ہے اس نے عہد حاضر کے
بڑے بڑے صاحب طرز انشاء پردازوں اور نثر نگاروں کی اولین صف میں لاکھڑا کیا
ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ عاصمی صاحب کے دلکش اسلوب نے قانون کی اس
کتاب کو ادب کی کتاب بنادیا ہے۔
گزشتہ دنوں عاصمی صاحب کی مذکورہ کتاب کی تقریب رونمائی لاہور ہائی کورٹ
بار کے کراچی شہدا ء ہال میں انعقاد پذیر ہوئی جس میں وکلاء صاحبان کے
علاوہ ملک کے نامور شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں اور روحانی شخصیات
کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ تقریب لاہو رہائی کورٹ کی ایجوکیشن اینڈ کلچرل
کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد کی گئی تھی جس کی چئیرپرسن ڈاکٹر نرگس ناہید
ہیں۔ کتاب کے مصنف صاحبزادہ اشرف عاصمی صاحب نے راقم کو بھی بطور خاص شرکت
کی دعوت دے رکھی تھی۔ تقریب کا آغاز دوپہر ساڑھے بارہ بجے ہونا تھا لیکن
راقم (علی احمد کیانی ) او ر محمد احسان الحق رندھاوا صبح 9 بجے ہی ہائی
کورٹ آپہنچے۔ عاصمی صاحب سے رابطہ کیا تو کہنے لگے کہ تقریب کے انتظامی
معاملات میں مصروف ہوں آپ بار میں تشریف رکھیں۔چنانچہ ہم اقبال لاؤنج میں
چائے پینے بیٹھ گئے۔ ہم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے آپس میں تبصرہ کر رہے تھے
کہ آج خواجہ برادران کو نیب عدالت میں پیش کیا جائے گا جس کی وجہ سے ہائی
کورٹ کے اطراف میں ٹریفک کا شدید دباؤ رہے گا ۔ علاوہ ازیں ٹی وی پر یہ
خبریں بھی آرہی تھیں کہ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث شہر کی کچھ اہم
شاہراؤں پر ٹریفک جام ہے۔ لہذا ہم اندازہ لگا رہے تھے کہ ایسی صورت حال میں
عاصمی صاحب کی کتاب قانون کی حاکمیت کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے والوں
کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوگی۔ لیکن جب اس پروقار تقریب کا آغاز ہوا تو
ہمیں خوشگوار حیرت ہوئی کہ ٹریفک جام کے باوجود لوگ جوق در جوق چلے آئے اور
کراچی شہدا ہال کھچا کھچ بھر گیا۔اسٹیج پر نامور علمی اور ادبی شخصیات کی
ایک پوری کہکشاں تشریف فرما تھی ۔ جب میں ڈائس پر پہنچا تو پہلی نظر معروف
شاعر کامران ناشط پر پڑی جو پچھلی نشست پر حاضرین میں گھل مل کر بیٹھے ہوئے
تھے ۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ اسٹیج پر ہی نہیں بلکہ پنڈال میں بھی نامور
شاعر ، ادیب اور کالم نگار حضرات کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لاہور شہر کے
علاوہ دوسرے شہروں سے بھی اہم شخصیات نے اس تقریب میں شرکت کی روزنامہ جنگ
کے مشہور کالم نگار جناب مظہر برلاس صاحب اسلام آباد سے تشریف لائے۔ اس کے
علاوہ گجرانوالہ اور سیالکوٹ سے بھی بہت سے علم دوست احباب اس تقریب کا حصہ
بنے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئٹہ جیسے دور دراز مقام سے ایک خاتون وکیل
شبانہ عظیم بھی عاصمی صاحب کی کتاب کی تقریب میں رونمائی میں شرکت کیلئے
آپہنچیں ان کی شرکت اور تقریر کو بطور خاص سراہا گیا۔ علاوہ ازیں تقریب کے
آغاز میں اشر ف عاصمی صاحب کے صاحبزادے محمد حذیفہ نے کلام اقبال کو سحر
انگیز ترنم میں پڑھ کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی۔ اس تقریب میں جن اہم
شخصیات نے شرکت کی ان کی فہرست بہت طویل ہے تاہم استقلالین لاہور چیپٹر کے
صدر اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے ممتاز رہنماء غلام مرتضیٰ ، موٹر رجسٹرنگ
اتھارٹی لاہور ملک محمد نعیم،پیر طریقت حکیم میاں محمد یوسف نوشاہی آف
زاویہ نوشاہی سرگودہا، ممتاز دانشور ، محقق صاحبزادہ پروفیسر ڈاکٹر احمد
ندیم رانجھا، جسٹ ون ٹی وی کے سی او الماس جویندہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ،
ممتاز شاعر، کالم نگار منصور آفاق، کالم نگار محمد ناصر اقبال خان الزہرہ
گروپ آف کالجز سرگودہا کے ڈائریکٹر جاوید مصطفائی، ممتازکالم نگارممتاز
اعوان، ورلڈ کالمسٹ کلب ویمن ونگ کی چیئرپرسن ڈاکٹر نبیلہ طارق ایڈووکیٹ،
ممتاز دانشور کامران رفیق، نواب شاہ سٹیزن کونسل کے چیئرمین محمد اسلم
نوری، ممتاز کالم نگار راشد علی، ممتاز صحافی نواب ناظم میوء ، کوئٹہ بار
ایسوسی ایشن کی رہنماء خالد اعوان ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان،میاں محمود
قْصوری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، رانا سعید ایڈووکیٹ، رانا جمیل خان ایڈووکیٹ ،
قانون دان ناصر چوہان ایڈووکیٹ ،ممتاز صحافی بدرظہور چشتی، سماجی شخصیت
راشد صدیق کھوکھر، شیران اسلام کے صوبائی امیر شہزادہ بٹ، انجمن طلبہ اسلام
کے سابق مرکزی نائب صدر حافظ محمد اقبال سیالوی، شالیمار کالج کے پروفیسر
نعیم گھمن،، جیلانی لاء بپلشرز کے سی ای او، محمد حسن علی، ایم ایچ شاہین
ایڈووکیٹ حذیفہ نوشاہی، پیرزادہ عمر نوشاہی اور میاں محمد عبداﷲ بطور خاص
قابل ذکر ہیں۔ |