لاہور ہائی کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ بار کی ایجوکیشن
کمیٹی کے زیر اہتمام قانون دان، محقق، انسانی حقوق کے علمبردار، کالم نگار
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی قومی زبان اُردو میں پاکستان کے مروجہ
قوانین کی تحقیق کے حوالے سے انتہائی تحقیق پر مبنی اعلی عدلیہ کے فیصلہ
جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ قانون کی حاکمیت کی
تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔دسمبر کی ایک من موہنی دوپہر کو لاہور ہائی کورٹ
کے کراچی شہدا ہال میں خوبصورت محفل میں چیئرپرسن ایجوکیشن اینڈ کلچرل
کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار محترمہ نرگس ناہید صاحبہ کی میزبانی میں منعقد ہ
تقریب میں مہمان جوق در جوق تشریف لا رہے تھے۔ استقلالین لاہور چیپٹر کے
صدر اور ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے ممتاز رہنماء غلام مرتضیٰ ، موٹر رجسٹرنگ
اتھارٹی لاہور ملک محمد نعیم،پیر طریقت حکیم میاں محمد یوسف نوشاہی آف
زاویہ نوشاہی سرگودہا، ممتاز دانشور ، محقق صاحبزادہ پروفیسر ڈاکٹر احمد
ندیم رانجھا، جسٹ ون ٹی وی کے سی او الماس جویندہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ،
ممتاز کالم نگار اینکر پرسن مظہر برلاس، ممتاز شاعر، کالم نگار منصور آفاق
روزنامہ الشرق انٹرنیشنل کے گروپ ایڈیٹر محمد ناصر اقبال خان، الزہرہ گروپ
آف کالجز سرگودہا کے ڈائریکٹر جاوید مصطفائی، ممتاز صحافی ممتاز اعوان،
ورلڈ کالمسٹ کلب ویمن ونگ کی چیئرپرسن ڈاکٹر نبیلہ طارق ایڈووکیٹ، ممتاز
دانشور کامران رفیق، نواب شاہ سٹیزن کونسل کے چیئرمین محمد اسلم نوری،
ممتاز کالم نگار راشد علی، ممتاز صحافی نواب ناظم میوء ، کوئٹہ بار ایسوسی
ایشن کی رہنماء شبانہ عظیم ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، خالد اعوان ڈپٹی اٹارنی
جنرل آف پاکستان،میاں محمود قْصوری ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، رانا سعید
ایڈووکیٹ، رانا جمیل خان ایڈووکیٹ ، قانون دان ناصر چوہان ایڈووکیٹ ،ممتاز
صحافی بدرظہور چشتی، سماجی شخصیت راشد صدیق کھوکھر، شیران اسلام کے صوبائی
امیر شہزادہ بٹ، انجمن طلبہ اسلام کے سابق مرکزی نائب صد ر حافظ محمد اقبال
سیالوی، شالیمار کالج کے پروفیسر نعیم گھمن، قانون دان و شاعر علی احمد
کیانی، احسان الحق رندھاوا ایڈووکیٹ، جیلانی لاء بپلشرز کے سی ای او، محمد
حسن علی، ایم ایچ شاہین ایڈووکیٹ حذیفہ نوشاہی، پیرزادہ عمر نوشاہی، میاں
محمد عبداﷲ اشرف ودیگر اِس تقریب میں شامل ہوئے۔ تقریب کے آغاز میں محترمہ
نرگس ناہید ایڈووکیٹ نے صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب کا تفصیلی
تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں اِس کے باسیوں کے مابین
رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے برتاؤ کے کچھ اصول و ضوبط ہوا
کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے علیحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔ گویا
ہر معاشرے یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا
ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو
لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری
کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر اُمن ماحول، پُرامن ملک۔ اِس لیے
عالمی سطع پر اقوام کے مابین طے پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابظ کی
شکل اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے
کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا ہے۔گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع
تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ
قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف
انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر
وہ معاشرے جہاں لوگوں میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو ۔ علم کی کمی ہو۔
سکولوں میں تعلیم ادھورہ چھوڑنے کا رحجان بہت زیادہ ہو۔ بنیادی انسانی حقوق
سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں کون قانون طلب و رسد کی بات کرے
اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو
آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی
زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر حکمران ممالک کی زبان میں
کاروبار ِ حکومت چلایا رہا ہوتا ہے۔جس کے سبب اِن ممالک کے عوام علوم وفنون
اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا
انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
کوگزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی
ماحول نظر آیا ہے۔ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی
ہے۔کروڑوں افراد صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔
ناخواندگی کی سطع خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و
کالج کی بنیادی تعلیم سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔تو
کون کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی
اور ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ تمام قانون کی کتب غیر ملکی زبان
میں ہونے کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی
نہیں ہوئی یا مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔جی ہاں جب تک ریاست اپنے
شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم نہیں کرتی تو کو ئی کس طرح
ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ یا پُرامن ملک کہ سکتا
ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر کتاب" قانون کی حاکمیت
" خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی ہے۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے
قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ عوام النا س کی زندگی کے
قریب ہیں۔الجیلانی بلشرز کے سی یع یو صاحبزادہ حسن علی نے صاحبزادہ اشرف
عاصمی ایڈووکیٹ کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ صاحبزادہ میاں محمد اشرف
عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا آبائی شہر لاہورہے۔ کشمیری بازاز دہلی گیٹ میں
لاہور کے ممتاز علمی و دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اِن کے والد محترم
صاحبزادہ میاں عمردراز ؒمرحوم اُستاد تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے
زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج
آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں
ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی
کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔
دو دہائیوں سے قانون کی درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔عشق رسول ﷺ کی سرخیل
تنظیم انجمن طلبہء اسلام سے تعلق رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی
بزرگ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل ؒ المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہوری کے
خانوادے سے تعلق ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے دادا حافظ
میاں محمد اسماعیلؒ اور پرداد حضرت حافظ میاں محمد ابراہیمؒ متحدہ ہندوستان
میں پولیس کے محکمہ میں بطور افسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ان کا خاندان
صدیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازے کے بائیں جانب
مسجد ابراہیمؒ اِن کے پرداد اکے نام سے منسوب ہے جو اُنھوں نے تعمیر کروائی
تھی۔ صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ مختلف قومی و بین الا قوامی اخبارات و
جرائدمیں سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔کالم نگاروں کی
عالمگیر تنظیم ورلڈکالمسٹ کلب کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے
سے انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب لاہور ہائی
کورٹ بار کے چیئرمین ہیں اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی لاہور بار ایسوسی
ایشن کے بانی چیئرمین ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سلسلہ
قادریہ نوشاہیہ میں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی ؒ آف زاویہ
نوشاہی سرگودہاکے خلیفہ مجاز ہیں۔ اِس موقع پر ممتاز کالم نگار مظہر برلاس
نے اپنے خطاب میں ملک میں قانون کی حکمرانی کے حوالے سے مسلمہ اصولوں کے
حوالے سے بات کی اور صاحب کتاب اشرف عاصمی کی جانب سے کی گئی کوشش کو سراہا،
ممتاز شاعر و کالم نگار منصور آفاق نے اپنے خطاب میں قانون کی حاکمیت کتاب
کی اشاعت پر مبارکباد دی اور کہا کہ اشرف عاصمی کا میرئے ساتھ تعلق نبی پاک
ﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔ الشرق انٹرنیشنل کے گروپ ایڈیٹر محمد ناصر اقبال
خان نے قانون کی حاکمیت کتاب کو لکھنے پر اشرف عاصمی کو مبارکبادی اور کہا
کہ معاشرئے کو مایوسیوں سے نکالنے کے لیے ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا
ہوگا۔ شبانہ عظیم ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے اپنے خطاب میں معاشرئے میں
لاقانونیت کے خاتمے پر زور دیا اور قانون کی بالادستی کے لیے حکومتی اداروں
کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیں۔ممتاز دانشور محقق یو نیورسٹی
آف گجرات کے پروفیسر ڈاکڑ صاحبزادہ احمد ندیم رانجھا نے اپنے خطاب میں
معاشرئے میں ہر سو پھیلی ہوئی امتیازی پالیسیوں کا ذکر کیا ۔ اُنھوں نے کہا
کہ قانون کی حاکمیت تو تب ہوگی جب سب کے لیے ایک ہی قانون ہوگا خواہ کوئی
کمزورہو یا کوئی طاقتور ہو۔پروفیسر محمد نعیم گھمن نے قانون کی حاکمیت کے
لیے وکلاء کے کردار کو سراہا اور اشرف عاصمی کو کتاب تحریر کرنے پر دلی
مبارکباد دی ممتاز صحافی نواب ناظم میؤ نے بھی قانون کی حکمرانی کی ضرورت
پر زور دیا اور کتاب کے مندرجات پر روشنی دالی، رانا سعید ایڈووکیٹ نے اشرف
عاصمی کی کتاب قانون کی حاکمیت کو وکلاء عام قاری کے لیے موثر کتاب قرار
دیا۔ شہزادہ بٹ نے بھی اپنے خطاب میں صاحب کتاب کو مبارکباد ی۔ محترمہ سدرہ
ایڈووکیٹ نے بھی کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔آخر میں
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب کی بابت اپنے جذبات کا اظہار
کیا اور کہاکہ قانون کی بالا دستی کے لیے ہر ہر فرد کو اپنے اپنے حصہ کا
کام کرنا ہوگا۔صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا
کیا کہ اُنھوں نے اِس تقریب میں شرکت کی۔ اشرف عاصمی نے پروگرام کی میزبان
چیئرپرسن ایجوکیشن اینڈ کلچرل کمیٹی لاہور ہائی کورٹ بار نرگس ناہید
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا جنہوں نے
قانون کی حاکمیت کتاب کی تقریب رونمائی منعقد کروائی۔ |