سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ
گھنٹی بجی ۔ یہ میرے لیے بالکل انہونی بات تھی۔کیونکہ اس سے پہلے ایسا
اتفاق نہیں ہوا تھا۔اگرچہ گزشتہ کچھ عرصہ سے یہ روایت ہمارے ہاں بھی چل پڑی
تھی اور ایسی جگہوں پر جانے کا اتفاق بھی ہو چکا تھا۔مگر ہر ہی بار بھوکے
واپس آنا پڑا، کیوں کہ قطار میں لگنے کی خواہش تو یوٹیلٹی سٹور کے سامنے
کھڑے ہو کرپوری ہو چکی تھی، اور کھانے کا شوق بھی خیر سے نہیں تھا ۔ سو ہر
ہی بار وہیں بیتھ کے تماش بین بنتا اور دیکھتے ہی دیکھتے کھانا ختم ہوجاتا۔
مگر یہ گھنٹی کی آواز پہلی بار سنائی دی تھی۔ گھنٹی کی آواز کے ساتھ ہی جو
اودھم مچا ’’الامان الحفیظ‘‘، شرفاء کھانے پر ایسے ٹوٹے کہ کئی پلیٹیں بھی
ٹوٹیں،جام بھی چھلکے، دیگوں کے ڈھکن بھی اڑے۔خوشبو تو وہ لوگ انڈیل کے ہی
آئے تھے، سوٹڈ بوٹڈ بھی تھے ؛کمی تھی تو کپڑوں پر بیل بوٹوں کی، اور یہ کمی
سالن کے گرنے نے پوری کر دی ۔ جو بھی پلیٹ لے کر جم غفیر میں گھستا؛ جب وہ
نکلتا تو بیل بوٹو ں سے سجا نکلتا۔
یہ ایک پڑھے لکھے گھرانے کے چشم و چراغ کا ولیمہ تھا۔جہان کسی دور پار کی
نسبت سے میں بھی حاضر تھا۔ یہاں آکر میں پریشان تو تھا ہی، پشیمان بھی
تھا۔شرفاء کھانے پر ایسے ٹوٹے ہوئے تھے گویا کئی دن کے بھوکے ہوں۔بروسٹ ختم
ہو چکا تھا اور سب کی عقابی نظریں تعاقب میں تھیں کہ کب ویٹر روسٹ کی ٹرے
لے کر آئے اور سب اس پر جھپٹ پڑیں۔ ہال میں جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے
ہوئے تھے۔ شایدہوٹل انتظامیہ حالات بھانپتے ہوئے سمجھ گئی تھی سو ،ٹرے
دروازے سے اندر کیا اور خود سی سی ٹی وی فوٹیج میں شرفاء کا ڈرامہ دیکھنے
لگی۔لوگ اس جھپٹاجھپٹی اور دھکم پیل میں ایک دوسرے پر خود کو ترجیح دے رہے
تھے۔ اس شور شرابے میں باریک سی آوازیں کان کے پردوں سے تکرائیں ، دیکھنے
پر معلوم ہوا کہ یہاں تو صنف نازک اور بہت سی اصناف کو ساتھ لئے ہوئے ہے۔
کسی نے اسکرٹ پہن رکھا تھا تو کسی نے جینس کرتہ، کسی نے ٹی شرٹ پہن رکھی
تھی تو کوئی ساڑھی میں ملبوس تھی، اور بیک لیس و سیلولیس بلاؤزر میں سے نظر
آتے جسم کو لوگوں کی مقناطیسی نگاہیں گھور رہی تھیں۔کسی کا دوپٹہ کہاں جا
رہا تھا کسی کا کہاں ، پھندا نما کوئی چیز گلے میں لٹک رہی تھی، جس کا کچھ
حصہ فرش پر پوچے کا کام کر رہا تھا۔چھ انچ اونچی ہیل پہنے گھو ڑوں کی سی
ٹاپوں کی ٹکا ٹک قریب تر سنائی دے رہی تھی۔ہوگیوباس، اور ایسٹی لارڈ کی مہک
پورے ہال میں پھیلی ہوئی تھی۔
یہ ایک مخلوط ولیمہ شہر کے فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد تھا۔ میرے ساتھ والے
احباب نے کچھ سمجھتے ہوئے اپنی پلیٹیں تو پیش کیں مگر میں نے یہ مسکراتے
ہوئے دل پر پتھر رکھ کے ٹال دیا کہ نہیں جناب ! شکریہ آپ کھائیے ،میں
پرہیزی کھانا کھاتا ہوں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ خود انہوں نے شیر کے منہ میں
ہاتھ ڈال کے کھانا حاصل کیا ہے میں لے لوں اچھا نہیں لگتا اب، حالاں کہ
بھوک سے پیٹ میں آنتیں کروٹیں لے رہیں تھیں۔ چوہوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔
ہم آپس میں ہم کلام تھے کہ دو مٹکتی ہوئی لڑکیاں ہماری نشستوں کے قریب آکر
گویا ہوئیں: ایکسکیوز می؟ ان کی ایسکیوز سے پہلے ہی ان کی قربت کاا حساس
خوشبو کے جھونکے سے ہوا تھا جو بھنبھناتا ہوا ن ناک کے نتھنوں میں گھسا تھا۔
جی فرمائیں؟ یہ سامنے والی چئیر پر ہم بیٹھ جائیں، وہ ہماری جگہ پررر۔۔۔ جی
جی کیوں نہیں ، بیٹھ جائیے ۔ قریب کی نشست پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے
چہچہاتے ہوئے کہا۔ اور وہ دونوں بھی مزے سے اپنی پرواہ کیئے بغیر براجمان
ہوگئیں۔ان جیسے کچھ اور کپلز کھانے کی پلیٹیں ہاتھ میں لیے آجا رہے تھے تو
کچھ کھڑے کھڑے کھا رہے تھے۔
اسی اثناء ایک صاحب پر نظر پڑی جو کسی بچی کو دھتکار رہے تھے ۔ غالبا وہ
کوئی سوالی تھی اور بھوک کی شدت نے اسے سوال کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
انہوں نے ویٹر پر آواز دی: ویٹرررر! ،اس سے پہلے کہ ویٹر آتا ایک سفید ریش
بزرگ اپنی جگہ سے اٹھے اور ایک پلیٹ میں کچھ چاول وغیرہ ڈال کے لائے اور اس
بچی کو دے دیئے۔اس بچی نے سفید ریش بزرگ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کی
آنکھیں چمک سی گئیں اور وہ ایسی ہوگئی جیسے کسی نے گہرے زخم پر پھاہا رکھ
دیا ہو۔ اس نے ایک ہاتھ میں پلیٹ پکڑی دوسرے سے دوپٹہ ٹھیک کیا اور ساتھ ہی
بیٹھنے کے لیے جگہ تلاشنے لگی۔یکایک اس کے قدم ایک طرف کو اٹھنے لگے۔میری
نظریں اس کے تعاقب میں تھیں۔ جلد ہی وہ مجھے ایک کونے میں بیٹھی نظر آئی۔
وہ پرسکون و مطمئن انداز میں بغیر اوپر دیکھے نان سٹاپ کھا رہی تھی۔یقینا
کافی وقت کی بھوکی تھی یا پھر اسے ڈر تھا کی آٹے میں سے بال کی طرح کوئی اس
کو ہال سے نہ نکال دے۔
انہی سوچوں میں میری نگاہ چند لڑکیوں پر پڑی جو اس بچی سے قریب والی دیوار
کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑی تھیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں چاول کی پلیٹ تھی تو
دوسرے ہاتھ میں مرغے کی ران جسے وہ دانتوں سے نوچنے میں مصروف تھیں ۔بچی نے
کھانا کھا چکنے کے بعد پھٹا ہوا دوپٹہ سر پر کھینچا جو تھوڑا سا سرک گیا
تھا۔ اس نے پلیٹ صاف کی ، انگلیاں چاٹیں ۔ ان لڑکیوں میں سے ایک نے اسے
دیکھتے ہوئے ٹیڑھا سا منہ بنایا اور دوسری کو ٹہوکا ، اور میں نے دوسری کے
منہ سے ’’بدتہذیب‘‘ کے الفاظ کا ہیولا نکل کے اڑتے دیکھا۔مجھ پر سوچوں کے
دریچے وا ہوتے گئے ۔ میں سوچوں کو جھٹک کے حقیقت میں واپس ہوا تو وہ بچی جا
چکی تھی۔ذہن کی تختی پر بہت سے سوال نقش ہوچکے تھے۔ ایک طرف بامہذب لڑکیاں
جینس، کرتہ ،اسکرٹ،ٹی شرٹ ، ساڑھیاں ا ور تنگ تنگ پاجامے گھٹنوں تک
چڑھائے،چڑیل جیسے ناخنوں والے ہاتھ میں پلیٹ ، اورچہرے پہ میک اپ سجائے گلے
میں پھندے لٹکائے ادھر ادھر ٹہل ٹہل کر مسکراہٹیں بکھیر رہیں تھیں تو دوسری
طرف وہ معصوم سی غریب بچی پھٹا پرانا دوپٹہ سر پہ اوڑھے انتہائی معصومیت سے
بیٹھی ہوئی کھانا کھا رہی تھی۔میرے ذہن کی تختی پہ یہی الفاظ ابھر رہے تھے
کہ’’ مہذب کون ہے؟؟‘‘ |