امریکی مورخ ’’سٹینلے والرٹ‘‘ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’جناح
آف پاکستان‘‘ کی ابتداء ان الفاظ سے کرتا ہے ’’بہت کم شخصیات تاریخ کے
دھارے کو قابل ذکر انداز سے موڑتی ہیں اس سے کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا
نقشہ بدلتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جیسے ایک قومی ریاست تخلیق
کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے۔‘‘
ایسے تمام افراد جنہوں نے دنیا میں کچھ بڑے کام کیے ہوتے ہیں، ان میں کچھ
ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو انہیں باقی لوگوں سے ممتاز رکھتی ہیں ۔ بانی
پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں
نے تاریخ کو ایک نیا رخ دیا۔ ظاہری طور پر دبلے پتلے اورکمزور، لیکن اصول
پسندی، پختہ عزم و یقین، صاف گوئی، انصاف پسندی، خوش مزاجی اور پابندی وقت
جیسی عظیم خوبیاں ان کی زندگی کا حصہ تھیں۔ یہی وہ خوبیاں تھیں کہ جن کا
اعتراف دشمن بھی کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریزوں اور ہندوؤں کے بڑے
بڑے کردار بھی آپ کے سامنے نظریں جھکا لیا کرتے تھے کہ ایک اصول پسند آدمی
کے سامنے آپ کو کس طرح بڑا بنا کر پیش کریں کیونکہ بڑا آدمی وہ نہیں جس کے
پاس سلطنت یا پیسہ زیادہ ہو بلکہ بڑا آدمی وہ ہے جو اصول پسند اور وقت کا
پابند ہو۔ قائداعظم محمد علی جناح کے اصول ان کی زندگی کی سب سے قابل قدر
چیز تھی۔ ان کی زندگی کے رہنما اصول ہمارے لیے واضح پیغام ہیں۔ ان کی اصول
پسندی کا ہی نتیجہ تھا کہ برٹش انتظامیہ کا اورکانگرس پارٹی کی راہ میں ایک
یہی شخص سب سے بڑی رکاوٹ تھا، جس کا آ ہنی حوصلہ اور صبر و استقلال سب کے
لیے باعث حیرت اور باعث تشویش تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی اصول پسند زندگی کے چند ایک واقعات آپ کی خدمت
میں گوش گزار ہیں۔
23 مارچ 1941ء کی بات ہے کہ قائداعظم کو لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی
مسجد میں نماز عصر ادا کرنا تھی ۔ جب وہ تشریف لائے تو مرزا عبدالمجید
تقریر کر رہے تھے۔ قائداعظم کو داخل ہوتے دیکھ کر لوگوں نے اگلیصف تک راستہ
بنانا شروع کر دیا۔ اتنے میں ایک لیگی کارکن نے کہا :
’’سر ادھر سے آگے بڑھیے‘‘ تو قائداعظم نے جواب دیا: ’’میں آخر میں آیا ہوں
اس لیے یہاں آخر میں ہی بیٹھوں گا۔‘‘
قائداعظم چاہتے تو آگے بڑھ سکتے تھے لیکن انہوں نے آخر میں بیٹھنے کو ترجیح
دی۔
اسی طرح ایک بار قائداعظم گورنر جنرل ہاؤس کے جنوبی صحنمیں چہل قدمی کر رہے
تھے اور نیوی کے اے ڈی سی لیفٹیننٹ ایس ایم حسن تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے
پیچھے چل رہے تھے۔ سیر کے دوران وہ خلاف معمول ذرا آگے بڑھ گئے اور گورنر
جنرل ہاؤس کے جنوبی گیٹ کے بالکل قریب جا نکلے جہاں ایک ایسا نیا سنتری
کھڑا تھا جس نے قائداعظم کو روبرو نہیں دیکھا تھا۔ سنتری نے کہا یہیں رک
جائیے جناب! آپ آگے نہیں جا سکتے، اجازت نہیں ہے۔ قائداعظم نے کہا ٹھیک ہے،
ٹھیک ہے۔ سنتری نے کہا نہیں جناب! یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ کسی شخص کو اس نشان
سے آگے جانے کی اجازت نہیں، یہی آرڈر مجھے ملا ہے اور اس کی پابندی کروانا
میرا فرض ہے، اس پر قائداعظم نے ہاں میں سرہلا دیا۔
پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کو سالگرہ کے موقع پر بے شمار خطوط موصول
ہوئے، ان میں سے ایک خط پنجاب کے ایک پرانے مسلم لیگی خان بہادر کا بھی تھا۔
سیکرٹری نے یہ خط آپ کو پیش کیا اور کہا کہ جناب یہ خط پنجاب سے خان بہادر
نے بھیجا ہے، لکھا ہے آپ میرے مرشد ہیں اور مسلم لیگ میرا مذہب ہے، میں
مسلم لیگ کے لیے ہر قربانی دینے لیے تیار ہوں، انہوں نے سالگرہ کا تحفہ بھی
بھیجا ہے۔ اتفاق سے اس خط پر ٹکٹ نہیں لگے تھے۔۔ قائداعظم نے خط کے مندرجات
کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ جواب میں لکھو کہ آپ کے خط پر ٹکٹ نہیں تھا،
بغیر ٹکٹ کے خط وصول نہیں کیے جاتے، سیکرٹری نے غلطی سے آپ کا خط لے لیا،
ہر روز بے شمار بے رنگ خط وصول کیے جائیں تو مسلم لیگ کے پیسے کا ضیاع ہو
گا۔
1947ء کے اواخر کی بات ہے کہ قائداعظم کے بھائی احمد علی گورنر جنرل ہاؤس
میں ان سے ملنے کے لیے آئے اور بڑے فخر سے اپنے ملاقاتی کارڈ پر اپنے نام
کے ساتھ قائداعظم گورنر جنرل کا بھائی کے الفاظ لکھ کر کارڈ قائداعظم کے اے
ڈی سی گل حسن کو دیا اور کہا کہ قائداعظم کا بھائی ہوں۔
بھائی اور قائداعظم کا۔۔۔ اے ڈی سی کو کچھ لحاظ تو کرنا ہی تھا، انہوں نے
کارڈ فوراً قائداعظم کو پیش کیا۔۔۔ اس کو توقع تھی کہ قائداعظم دیکھ کر بہت
خوش ہوں گے لیکن قائداعظم نے اے ڈی سی سے پوچھا یہ ملاقاتی کون ہیں؟ انہوں
نے جواب دیا سر آپ کے بھائی ہیں۔ قائداعظم نے پوچھا کیا انہوں نے وقت لیا
تھا؟ جس پر گل حسن نے جواب دیا کہ انہوں نے سر وقت تو نہیں لیا تھا۔
قائداعظم نے سرخ پنسل سے ’’قائداعظم گورنر جنرل کا بھائی‘‘ کے الفاظ کاٹنے
کے بعد کہا ان سے کہوکہ کارڈ پر صرف اپنا نام لکھے۔ انہوں نے یہ کارڈ لے جا
کر قائداعظم کے بھائی کو دیا اور کہا کہ یہ الفاظ قائداعظم نے خود کاٹے ہیں،
وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں صرف اپنا نام لکھیں پھر ممکن ہے قائداعظم سے
ملاقات کر لیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک پرجوش مسلم لیگی کارکن عبدالستار خیری کو
حکومت نے گرفتار کر لیا۔ دوران قید قائداعظم کو بارہاخط بھی لکھتے رہے۔ جب
رہا ہوئے تو قائداعظم کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے میری رہائی کے لیے بہت
کوششیں کی، جس پر قائداعظم فرمانے لگے کہ میں اصولاً یہ بات گوارا نہیں کر
سکتا کہ بغیر مقدمہ چلائے اور بغیر عدالتی کاروائی کے کسی شخص کی آزادی صلب
کرلی جائے۔
جب کوئی فرد یا قوم اپنے وقت کی صحیح معنوں میں قدر کرنا جان جاتی ہے تو
دنیا کی تمام کامیابیاں ان کے قدموں کی خاک بن جاتی ہیں۔ پہلے وہ وقت کو
اپنے لیے اہم بناتے ہیں، پھر وقت ان کو لوگوں کے لیے اہم بنا دیتا ہے۔ وقت
بڑی تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے اور جو شخص وقت کی اس تیزی سے فائدہ نہیں
اٹھاتا وقت اس کو اٹھا کر کامیابیوں سے دور پھینک دیتا ہے۔ قائداعظم محمد
علی جناح کی سب سے بڑی خوبی جس نے انہیں کامیاب کیا وہ وقت کی پابندی تھی۔
اس بارے میں قائداعظم کے کئی واقعات بہت مشہور ہیں۔ سب سے دلچسپ اور انوکھا
واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان بننے کے بعد سٹیٹ بنک آف پاکستان کا
افتتاح کیا گیا۔
قائداعظم اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ وہ ٹھیک وقت پر تشریف لائے لیکن کئی
وزراء اور سرکاری افسران اس تقریب میں نہیں پہنچے تھے، جن میں وزیر اعظم
لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ اگلی قطار کی کرسیاں جو افسران اور وزراء کرام
کے لیے مخصوص تھیں، خالی پڑی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر قائداعظم غصے میں آگئے
اور حکم کیا کہ پنڈال سے تمام خالی کرسیاں اٹھا دی جائیں تا کہ جو حضرات
بعد میں آئیں، انہیں کھڑا رہنا پڑے۔ اس طرح انہیں احساس ہو گا کہ پابندی
وقت کتنا ضروری ہے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ پروگرام شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد
ہی جناب وزیر اعظم لیاقت علی خان تشریف لائے تو ان کے ساتھ چند وزرا ء بھی
تھے۔ پنڈال میں موجود کسی شخص کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے لیے کرسی لائے یا
پنی نشست پر انہیں بٹھائے۔ تقریب کے دوران لیاقت علی خان اور ان کے ساتھ
آنے والے وزرا کھڑے رہے۔ ان کا مارے شرمندگی برا حال تھا۔ اس واقعہ کے بعد
کسی اعلیٰ افسر کو جرأت نہ ہوئی کی تقریب میں دیر سے آئے۔
دسمبر1941 ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا اجلاس منعقد ہوا۔ سیشن
کے آخری روز مقامی طلبا نے قائداعظم سے ملنے کا وقت لیا اور کسی وجہ سے
پندرہ منٹ لیٹ ہو گئے۔ قائداعظم نے اپنے سیکرٹری سے کہا ’’مطلوب الحسن! ان
سے کہہ دو کہ تم لیٹ ہو گئے ہو۔ اب میں تم سے نہیں مل سکتا، کل وقت لے کر
آؤ۔‘‘ اگلے روز جب وہ طلبا حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی
بہتری کے لیے ایسا کیا، آپ نوجوان ہیں، آپ کو وقت کی قیمت کا احساس ہونا
چاہیے۔
عزیز طلبا! آج ہم بھی نوجوان ہیں، کیا ہمیں وقت کی قیمت کا احساس ہے؟
’’آج ہمارے پاس وقت جیسی عظیم نعمت موجود ہے ہم اس کی قدر کر لیں گے تو یہ
وقت آنے والے دنوں میں ہمیں عظیم بنا دے گا اور اگر آج وقت کی اہمیت کو نہ
جانا تو کل میں بھی دنیا میں کوئی پہچاننے والا نہ ہو گا۔‘‘
لیڈر کبھی بھی آسمانوں سے نہیں اترتے بلکہ روئے زمین پر بسنے والے انسانوں
میں سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جو اپنے اندر خدمت انسانیت کا جذبہ
رکھتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ ان کے دلوں کو غنی کر دیتے ہیں اور امت کی آسانی کے
لیے ان کی راہیں ہموار کر دیتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحaکی زندگی کو
اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے وہ کس قدر، نڈر، بے باک، بے لوث، سچائی کے
پیکر، نظم و ضبط کی اعلیٰ مثال، مخلص، اصول پسند، محنتی اور عوام دوست تھے۔
جب کسی انسان میں اتنی ساری خوبیاں اکھٹی ہو جائیں تو بلاشبہ وہ انسان کو
انسانیت کے اعلیٰ درجے پر پہنچا دیتی ہیں۔ اسی لیے شاعر مشرق علامہ محمد
اقبال نے فرمایا تھا کہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
|