وہ تھے تو مختار خاندان سے مگر گردش ایام نے ان کی قسمت
میں مختاری آنے نہ دی۔ دولت،شہرت اور وجاہت کچھ بھی ان کے حصہ میں نہ
تھا۔کم سنی کے عالم میں جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیاتو صرف بیوہ ماں کی
بیساکھی کے سہارے اپنے مستقبل کو جتنا بھی انھوں نے روشن کیا، وہ بہت تھا۔
رہوا، رامپور گاؤں میں وہ ایک ایماندار،محنتی اور جفاکش کسان کے نام سے
پہچانے جاتے تھے اور بس۔ ۱۳؍ ۱۴؍ سال کی عمر میں ہی ان کے والد جناب
عبدالاحد صاحب بن عبدالحمید مختار بن امانت علی مختار بن جواد علی کے
انتقال کے بعد ان کی والدہ بی بی کلثوم نے اپنے تینوں یتیم بیٹوں اور ایک
بیٹی کو بڑی جانفشانی سے پالا پوسا اور جہاں تک بس میں تھاتعلیم دلوائی۔
اس بے چارگی کے عالم میں محترم جناب محمد ریاض الدین صاحب نے خود کو اور
اپنی بیوہ ماں اور بھائی بہن کو کس طرح سنبھالااور اپنے مستقبل کی تابناکی
کے لیے کیاکیا تگ و دَو کی، وہ سب آج رہوا،رامپور،وارث نگر،سمستی پورکے
باشندوں کی زبان پر اس طرح ہے کہ راجہ بھائی نے کچھ نہ رہتے ہوئے بھی بہت
کچھ حاصل کرلیا۔غربت وافلاس کے باوجود اپنے چھ بیٹوں اور دوبیٹیوں کو عمدہ
تعلیم اور اچھی تربیت سے آراستہ کرکے دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل کرکے صحیح
معنوں میں وہ راجہ کہلائے۔
جناب محمد ریاض الدین عرف راجہ صاحب ایک ہمت وَر اور شریف انسان تھے۔ پیشہ
سے تو وہ کاشتکار تھے مگر حصول رزق کے لیے مزدوری کرنے سے بھی نہ
ہچکچاتے۔دن میں اگر مزدوری کرتے تو رات کے سہ پہر کو اپنی کھیتی کا کام
نبٹاتے۔ان کے والد عبدالاحدصاحب حمید مختار کے بیٹے تھے اور رامپور کے
لوگوں نے میٹھاپلاؤ کھانا مختار خاندان سے ہی سیکھا ہے۔ان کی شادی جناب
عیسیٰ صاحب ولد حاجی اکلومرحوم کی بڑی لڑکی لعل بی بی سے ہوئی۔ اس طرح ریاض
الدین صاحب کا سسرال بھی گاؤں میں ہی ہوا۔ شادی کے بعدمحترمہ لعل بی بی نے
گھر سنبھالاجب کہ خارجی انتظام خود ان کے ذمہ تھا۔بچوں کی پرورش وپرداخت
میں اپنی جان کھپادینے کو ان حضرات نے اپنی سعادت سمجھ رکھا تھا۔اپنا سکھ
چین سب قربان کردیا مگر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہ
چھوڑی۔آج ان کی اولادوں کی زندگی میں خوشحالی ان دونوں بزرگوں کی کاوشوں
کاہی ثمرہ ہے۔
جناب ریاض الدین صاحب سیدھے دل کے آدمی تھے۔ دوسروں کے کام آجانا ان کے
اخلاص کی دلیل ہے۔ گو اس سیدھے پن نے کبھی کبھاڑ انھیں نقصان بھی
پہنچایا،کسی نے ظلم ڈھایاتو کئی اہل ثروت اور زمینداروں نے ان کا کمایا ہوا
مال بھی ہڑپ لیا؛ مگر انھوں نے سب کو در گزر کردیا۔ بے ایمانی، جھوٹ اور
دھوکہ دھری سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو فائدہ
نہ پہنچا سکو تو اس کا نقصان بھی نہ کرو۔ وہ خوش اخلاق اور ملنسار تھے۔
رشتوں کو نبھانا انھیں خوب آتا تھا۔ ہندو، مسلم، امیر، غریب، بوڑھے اور بچے
سب کے وہ چہیتے تھے۔ اولادوں کی پرورش، تعلیم اور ان کے مستقبل کو بنا دینا
ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا جس میں وہ بہ خوبی کامیاب ہوئے۔
وہ بہت خوش قسمت تھے کہ محترمہ لعل بی بی جیسی دیندار، خدا ترس اور
فرمانبردار خاتون ان کے نکاح میں آئیں۔ ان کی اہلیہ بھی صرف گھریلو تعلیم
یافتہ تھیں۔ رہوا گاؤں کی استانی (جو ریاض الدین صاحب کی پھوپھی بھی تھیں)
سے پورے علاقہ کی لڑکیوں نے جہاں تعلیم حاصل کی، وہیں وہ بھی استانی جی کی
خاص شاگردہ تھیں۔
محترمہ لعل بی بی نے اپنے گھر کو جنت بنایا۔ اپنے شوہر کو مزاجی خدا مانا
اور اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی خیرخواہی میں اپنی زندگی صرف کردیں۔ گھر
کے کام کاج میں ہی لگے رہنا ان کی خاص صفت تھی۔ عورتوں کے بیچ بیٹھ کر چغلی
اور بے کار کی باتیں کرنے سے انھیں سخت نفرت تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ وقت
ضائع کرنے سے کبھی بھلا نہیں ہوتا۔ گھر کے سارے کام وہ خوش دلی سے انجام
دیتیں۔علاقہ بھر میں ان کے کام کی پذیرائی ہوا کرتی تھی۔ شوہر اور بچوں سے
اس قدر محبت کرتیں کہ ان پر جان بھی نچھاور کرنے کو تیار۔ اپنی عمر بھی
شوہر یا بچوں کے لیے ان کی بیماری کے موقع پر وقف کردینا ان کے لیے معمولی
بات تھی۔ ساری ذمہ داریوں کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد تلاوت کے معمول میں
شاید ہی کبھی فرق آتا، یہاں تک کہ رمضان میں پانچ سات ختم قرآن کرنا ان کے
لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ہر نماز میں اپنے شوہر اور بچوں کی فلاح وبہبود
کے لیے دعائیں مانگنا ان کی عبادت کا حصہ تھا۔
الغرض ایسی نیک اور خداترس اہلیہ کا جب ۷۵سال کی عمر میں ۱۶؍نومبر۲۰۱۶ء
بروز بدھ بہ شب ۳؍بجے انتقال ہوگیا تو جناب ریاض الدین صاحب سے ان کی جدائی
کا غم برداشت نہ ہوسکا۔ وہ اکثر گھر کے لوگوں سے چھپ چھپ کر اہلیہ کی یاد
میں رویا کرتے،ختم قرآن کرکے ان کے لیے دعایں کرتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وہ
خوش قسمت اور جنتی عورت تھی۔
وہ بہت زیادہ عبادت گزار تو نہ تھے؛ البتہ پانچوں وقت کی نماز اور رمضان کا
روزہ کسی بھی حالت میں فوت نہ ہونے دیتے۔ ہاں کاشتکاری وغیرہ سے فراغت کے
بعد اپنی عمر کے اخیر کے تقریباً پانچ سال صرف عبادت الہی میں گزارا۔ امراض
قلب اور گھٹنوں کے درد کے مریض ہونے کے باوجود رمضان کا روزہ، دس دن پھر
ستائیس دن کی تراویح، پورے سال تہجد کی پابندی، روزانہ کی تلاوت اور رمضان
کے اخیر عشرہ کا اعتکاف یہ سب گویا ان کی نس نس میں بسا ہوا تھا۔
محترم جناب محمدریاض الدین صاحب کی زندگی کے اخیر کا ایک سوا مہینہ عجیب
سبق آموز تھا کہ دل کے مرض کی شدت کی وجہ سے جب وہ پٹنہ ہارٹ ہاسپیٹل میں
بغرض علاج داخل تھے تو اس پریشانی کے عالم میں بھی ان کی زبان پر ہر وقت
اَللّٰہُ، اَستغفراللّٰہ اور لا اِلہَ الا اللّٰہ کا ورد جاری رہتا۔ بالآخر
ایسے جفاکش دیندار انسان کے ساتھ زندگی نے وفانہ کی اور ۸۳؍سال کی عمر میں
یہ مرد مجاہد اپنی دنیا وآخرت سنوار کر اپنے چھ بیٹوں، دوبیٹیوں، بارہ
پوتوں اور گیارہ پوتیوں کی موجودگی میں ۲۲؍جولائی ۲۰۱۸ء بروز جمعہ بہ شب
ایک بجے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے۔
اخیر میں رب کریم کی اس عنایت کا میں بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے
مذکورہ بالا دو بے مثال ہستیوں کی شکل میں باپ اور ماں جیسی عظیم نعمت عطا
کیا جن کا بیٹا ہونے پر مجھے فخر ہے۔ |