منچھر جھیل کی فریاد۔میں نے کیا دیکھا۔؟

دریائے سندھ کے مغرب ضلع دادو میں واقع منچھر جھیل ایشیا میں میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے یہ کراچی سے تقریباً280کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،یہ جھیل اس قدرقدیم ہے کہ جس کی تاریخ معلوم ہی نہیں ہوپاتی کچھ تاریخوں میں اسے اس طرح بھی جوڑا جاتاہے کہ اسے 1930میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت بنایا گیا تھامگر بعض تاریخ دان اسے قدرتی جھیل کا نام بھی دیتے ہیں یہ جھیل پاکستان میں میٹھے پانی کا سب سے بڑازخیرہ مانا جاتاتھا جو فی الحال اب نہیں ہے۔۔۔۔ لوگوں کو یہ جان کر بہت حیرانگی ہونگی کہ یہ جھیل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حلقے میں موجود ہے،جس کا رقبہ مختلف صورتحال میں 350مربع کلومیٹر سے 520مربع کلومیٹر تک ہونے کے باوجود وقت کے وزیراعلیٰ سندھ کو دکھائی ہی نہیں دیتا۔یہ تو ہر کوئی جانتاہے کہ پانی اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے پانی کے بغیر انسانی زندگی تو کیاکسی بھی حیوانی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاہے ،بھلا کوئی ایسا شخص بھی ہوسکتاہے کہ وہ اپنے جینے کا آسرا اپنے ہی ہاتھوں سے خود ہی چھین لے ؟ مگر سندھ میں ایسے حکمرانوں کی کوئی کمی نہیں ہے قدرت کے اس انمول اور بے مثال تحفے کی بے قدری کرنے والے یہ سب کے سب صاحب اقتدار اور اختیار ہیں جو اس خداوند کریم کی نعمت کو غریب عوام سے صرف اس لیے چھین لینا چاہتے ہیں کہ ان کو اور ان کے بچوں کو پینے کے لیے ہی نہیں بلکہ نہانے کے لیے بھی منرل واٹر کا پانی میسر ہے ، ایک وقت تھا جب یہاں کے ماہی گیر بہت خوشحال ہواکرتے تھے یہاں کا پانی شیشے کی طرح صاف اور بہت ہی میٹھا ہوا کرتا تھامیٹھے پانی کی مچھلیوں کا شکار مقامی ماہی گیروں کے لیے سب سے بڑاروزگار تھاایسا لگتا تھا اس قدرتی جھیل میں چھپاقدرتی روزگاریہاں کی عوام کے لیے اﷲ کی طرف سے خاص عنایت تھی یہاں پر ہزاروں کی تعداد میں پرندوں کا آنا جانا رہتاتھاجبکہ سردیوں میں تو سائبریاسے بھی مہاجر پرندے سردیاں گزارنے آجاتے ہیں اس لیے جہاں یہاں کے ماہی گیروں کے لیے مچھلیوں کا شکار خوشحالی کا باعث ہواکرتاتھا ویسے ہی یہاں کے لوگوں کے لیے پرندوں کا شکار بھی ایک خاصہ دلچسپی کا باعث ہواکرتاتھا ایسا لگتا تھا کہ فقط ایک جھیل کی وجہ سے پوراسندھ ہی اپنی مثال آپ بنا ہواتھا مگر۔۔۔۔۔۔۔اب یہاں ۔۔۔۔۔کوئی نہیں آتا نہ ہی یہاں کے ماہی گیر ۔۔۔نہ ہی سیاح،،،،، اور نہ ہی پرندے ۔۔۔۔سب کے سب سندھ کے حکمرانوں کی کم علمی نااہلی کی نظر ہوگئے،اس جھیل میں اب ایک سازش کے تحت ایم این وی ڈرین کے زریعے گندااور زہریلہ پانی گرایا جانے لگاہے ،تین دہائیوں سے راج پاٹ کرنے والے سندھ کے حکمران شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے علاوہ سندھ میں کوئی خوشحال ہوگیا تو ان کی امیری کے ناز نخرے کون اٹھائے گا؟۔یہ سندھ کی عوام کو بے روزگار اور بھوکا رکھنے کی پالیسی نہیں بلکہ ایک جاگیر دار اور ملازم کے فرق کو جاری رکھنے کا منصوبہ ہے جس کی وجہ سے سندھ میں بے شمار قدرتی وسائل کے دروازے صرف اور صرف یہاں کے وزیروں کے گھروں میں ہی جاکر کھلتے ہیں اگر کوئی دروازہ ان وسائل کا ان وزیروں کی بجائے یہاں کے غریبوں ،مزدوروں اور ہاریوں کے گھرو ں میں جاکر کھلتاہو تو وہ اس قدرتی وسیلے کو بند کردیتے ہیں یا پھر اس کا وہ حال کردیتے ہیں جو اس وقت منچھر جھیل کا قوم کے سامنے ہے ،آج سے تقریباً بارہ سال قبل اس جھیل کو آلودگی سے بچانے کے لیے آربی او ڈی کا منصوبہ شروع کیا گیاجو جھیل میں گندہ پانی آنے سے روکنے کے لیے تھا مگرتاریخ گواہ ہے کہ منصوبے کو جان بوجھ کر لٹکایا جانے لگا سندھ کے حکمران تو کیا ان کے ساتھ جڑے ا نتظامیہ کے لوگوں پر بھی اس قدررشوت ستانی کی لعنت پڑ چکی تھی کہ اس منصوبے کی رقم کو دونوں ہاتھوں سے کھایا جانے لگا یہ منصوبہ 14ارب سے شروع کیا گیا مگر مسلسل اور جان بوجھ کر تاخیر کے با عث اب یہ منصوبہ 35ارب سے تجاوز کرچکاہے اس کے باوجود یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہ ہوپایاہے شاید اس 35ارب کی رقم سے بھی ان سیاسی مگرمچھوں کے پیٹ نہ بھرسکیں ہیں جنھیں کر پشن کے لکڑ پتھر سب باآسانی ہضم ہوجاتے ہیں کیونکہ توقع یہ کی جارہی ہے کہ اس منصوبے کی لاگت مزیداوپر کی طرف جارہی ہے مگر مجال ہے جو اس کی بہتری کے لیے بھی کوئی بات کی جاتی ہو ۔
بقول عبدالحمید عدم۔
گر کنارہ نہیں مقدر میں ۔ قصر دریا میں کیا خرابی ہے ۔

یہاں تک یہ قدرتی جھیل اب خونی جھیل میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے جو کبھی انسانوں کی جان بچایا کرتی تھی آج وہ ہی جھیل لوگوں کی جان لینے لگی ہے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کاخود کا آبائی حلقہ ہونے کے باوجود یہاں نہ تو کوئی ہستپال دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کوئی اسکول ایسا ہے جسے دیکھ کر ایسا لگے کہ سندھ کی عوام اور ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے کیونکہ منچھر جھیل کی طرح یہاں کے ہسپتالوں اور اسکولوں کی بھی ایسی دکھ بھری داستانیں موجود ہے جسے آئندہ کسی تحر یر میں تفصیلی بیان کرونگا جن پر ہرسال اربوں روپے کابجٹ وصول تو کرلیا جاتاہے مگر لگتا وہ صرف ان ہی حکمرانوں کی جانوں اور محلوں پر ہے ، منچھر جھیل اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے جنت کا ٹکڑا تھا جواب ویرانے میں تبدیل ہوچکاہے یہاں کا میٹھاپانی اب زہریلا اور کڑواہوچکاہے انسان تو انسان اب اس پانی کو پی کر مچھلیاں بھی مرنے لگی ہیں ۔سپریم کورٹ نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے 2010میں ایک بار پھر سے اس جھیل کی بحالی کے لیے احکامات جاری کیئے تھے مگر سندھ کے حکمرانوں نے شاید اس بات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے نکال دینا ہی بہتر سمجھا تھا بے روزگاری کے شکار ماہی گیر اور وہاں کے مکینوں کے لوگ اب جہاں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے وہاں اب اس پانی کو پینے سے مختلف امراض کا شکار بھی ہوچکے تھے ،یہاں تک کے ایک نوبت یہ بھی آئی کہ اس کا پانی جب دریائے سندھ میں چھوڑا جانے لگاتو اس کے استعمال سے اور مقامات کے بھی سینکڑوں لوگ پیٹ اور دیگر امراض کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں جاپہنچے کیونکہ دریائے سندھ کے کنارے آباد تعلقہ مانجھد کے دیہات اور شہر وبائی امراض کا شکار ہوچکے تھے جبکہ آمری سے لیکر جامشورو سمیت دیگراضلاع میں مختلف واٹر سپلائی سے مہیا کیا جانے والا پانی اس قدر مہلک اور نقصان دہ بن چکا تھا کہ اس کے ایک بار کے استعمال سے ہی سندھ کے بڑے اور بوڑھے ہسپتالوں میں جاپہنچے تھے جس سے نہ صرف وبائی امراض بلکہ جلد کے امراض بھی پھوٹ پڑے تھے یہ معاملہ جب میں نہ کچھ عرصہ قبل یہاں کا دورہ کیا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لوگوں کو سسکتے ہوئے دیکھا تو دل بھرآیا تھا مگر افسوس ایک طویل عرصے کے بعد بھی سندھ حکومت کو کوئی رحم نہ آیاہے حالات اب بھی ویسے کے ویسے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر ہوچکے ہیں حکمرانوں نے جہاں سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑادیئے تھے وہاں ان لوگوں نے اب اس بات کا مکمل ارادرہ فیصلہ کرلیا تھا کہ جس طرح سے تھرپارکر میں غربت اور افلاس سے وہاں کے بچوں اور بڑوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے بلکل اسی طرح سندھ کی عوام کو پانی کے ایک ایک قطرے سے بھی محروم کردیا جائے،زیراعظم عمران خان جب سے اس ملک کے وزیراعظم بنے ہیں قوم کی ڈھارس بندھی ہے لوگوں کے دلوں میں پھر سے جینے کی امنگ جاگ اٹھی ہے وزیراعظم عمرا ن خان خود بھی سندھ بھر کا دورہ کرچکے ہیں اور اپنی آنکھوں سے یہ سب مناظر دیکھ بھی چکے ہیں لہذا اب امید ہوچلی ہے کہ ملک کے دیگر مسائل کے ساتھ سندھ کے بھی مسائل مثبت انداز میں حل ہونگے ۔

Haleem Adil Shaikh
About the Author: Haleem Adil Shaikh Read More Articles by Haleem Adil Shaikh: 59 Articles with 44174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.