وہ اس امید کے ساتھ افغانستان کے اسلامی حکومت پر چڑھ
دوڑے تھے ، کہ یہ ــ’’اجڈ اور جاہل‘‘ قسم کے لوگ کب تک دنیا کے واحد سپر
پاورکے سامنے ٹہر سکیں گے۔ ان کے خیال میں دنیاوی معاملات سے بے خبر یہ لوگ
چند میزائل مارنے اور کچھ تباہ کن قسم کے بم گرانے سے خوف کھاکر امریکی ’’خدائی‘‘
قبول کرلیں گے۔ لیکن جب جارح امریکہ کا غیور افغانوں سے میدان میں سامنا
ہواتو ان کو پتہ چلا کہ جن کو وہ گاجر کا گرم حلوہ سمجھ رہے تھے وہ لوہے کی
چنے کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئے۔ خیر امریکا نے حوصلہ نا
ہارا اور دنیا کے تمام طاقتوں کو ساتھ ملا کر تباہ کن ہتھیاروں سے
افغانستان کو تباہ برباد کر ڈالا۔ افغانوں کے جنازے محفوظ رہے، نہ ان کے
شادی کی تقریبات۔ جرگے محفوظ رہے نہ کھیل کے میدان۔ ہسپتال تباہی ہے بچے نہ
مساجد و مدارس۔ آئے روز ایک سے ایک جدید ہتھیار افغانوں پر آزمایا گیا لیکن
افغانوں کے پائے استقامت میں ذرہ بھی لغزش نہ آئی۔
یہ اﷲ کی مدد نہیں تو او ر کیا ہے کہ امریکا اپنے حواریوں کے ساتھ طالبان
کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا جو خواب لے کر افغانستان میں آدھمکا تھا، وہ خواب
بری طرح بکھر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل دنیا کو طالبان کے ’’ دہشت گردی‘‘
سے محفوظ بنانے کے لیے افغانستان پر قابض ہونے والاآج انہی طالبان سے محفوظ
راستہ مانگ رہے ہیں۔میں کبھی سوچتا ہوں کہ آخر کیا وجہ رہی کہ امریکہ ،
ناٹو اور غیر نیٹو ممالک کو ملاکر بھی ان چند لوگوں کو شکست نہ دے سکا جن
کے پاس سر چھپانے کے لیے جگہ بھی میسر نہ تھی۔ اس سوال کا جواب جب میں
پرویزی فکروفلسفے کی روشنی میں ڈھونڈنے کا کوشش کرتا ہوں تو جواب کہیں سے
نہیں ملتا۔ کیونکہ پرویز مشرف نے وطن عزیز کے اجتماعی ضمیر کے خلاف فیصلہ
دے کر امریکا کے اتحادی بننے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ موصوف کا خیال تھا
کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ امریکہ سے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس میں جب تاریخ
اسلامی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ذہن میں پیدا شدہ کسی بھی سوال کا کافی و شافی
جواب مل جاتا ہے۔ کیونکہ تعلیمات اسلامی سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب
بھی کسی نے ذاتی یا گروہی مفاد کے مقابلے میں اﷲ کے دین کو فوقیت دی۔ اﷲ
پاک نے اسے اس جہان میں بھی سرخرو فرمایا اور اخروی زندگی میں بھی وہ
کامیاب ہوگا۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے اﷲ کے بجائے دنیاوی طاقتوں سے خوف
کھایا ۔ ذاتی و گروہی مفاد کو اﷲ کے دین پر مقدم رکھا۔ اﷲ پاک نے اسے دنیا
میں بھی ذلیل و رسوا کر دکھایا اور روز محشر بھی وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
آج سے سترہ بر قبل افغانوں نے جو قدم اٹھایا ، جدید ٹیکنالوجی اور امریکی
رعونیت سے مرعوب بعض لوگوں کو ان کا یہ فیصلہ بیوقوفانہ لگا۔ وہ دور کی
کوڑیاں لاکر دنیا کو یہ باور کراتے رہے کہ زبردست تباہی والے اسلحے کے
حاممالک سے بے سروسامانی کے عامل میں ٹھکرانا خودکشی کے مترادف ہیں۔ لیکن
افغانو ں کو معلوم تھاکہ آج اگر انہوں مصلحت سے کام لیا ۔ آج اگر حکومت بچا
نے کی فکر میں امریکا کے آگے ڈھیر ہوگئے، آج اگر ڈر اور خوف کھاکر عالمی
طاقتوں سے مرعوب ہوئے ،تو کل کلاں صحیح معنوں میں اسلام کا جان لیوا کوئی
بھی نہ ہوگا۔ ایسے میں امریکہ اپنے زر خرید غلاموں سے اسلام کی من مانی
تشریح سے ہرگز دریغ نہیں کرے گا۔لہٰذا انہوں نے حکومت ،اختیار اور بال بچے
الغرض سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے دین پر قربان کرنے کا عزم کردیا۔ آج ہم دیکھتے
ہیں کہ سترہ سالہ جنگ میں کوئی بھی لمحہ ایسا نہ آیا جب امریکا کا پلڑہ
بھاری محسوس ہوا ہو۔ بلکہ ہر نیا دن ان کے لیے گزرے ہوئے کل سے زیادہ سخت
ثابت ہوا۔ اس کے جواب میں مجاہدین اسلام کے لیے ہر نیا دن فتح کو مزید قریب
آنے کی نئی نوید لے کرآیا۔ افغانستان میں مجاہدین نے جو تاریخ اﷲ پاک کے
رحم و کرم سے رقم کردی ،اس سے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو امید کی نئی
کرن نظر آنے لگی ہیں۔
آج کے تاریخ میں مغربی مفکرین شائد سر جوڑ کر یہ سوچ رہے ہوں کہ آخر کیا
وجہ رہی کہ ساڑھے پانچ لاکھ افراد کو شہید کرنے ، ہزاروں کو عقوبے خانوں
میں بند کرکے،لاکھوں کو اپاہج اور کھربوں کے نقصانات پہنچانے کے باوجود
امریکہ اپنے افغانی کارندوں اور مغربی حواریوں جو کہ تعداد میں چار لاکھ سے
زائد تھے، کیوں چند ہزار ’’دہشت گردوں‘‘ سے شکست کھا گئے۔ان مفکرین کی خدمت
میں عرض ہے کہ اﷲ ایسے ہی اپنے پاکیزہ بندوں کی مدد کیا کرتے ہیں ۔ ان کو
شائد معلوم ہو کہ کل بدر کے میدان میں بھی اﷲ نے ایسے ہی 313کو 1000ہزار کے
مقابلے میں فتح عظیم سے نوازا تھا۔ ان کے علم میں شائد یہ بھی ہو کہ کل
مجاہد اسلام صلاح الدین ایوبی نے بھی اﷲ کی مددکے سہارے لاکھوں صلیبیوں کو
ناکوں چنے چبوائے تھے۔ لہٰذا ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آج افغان مجاہدین
کے فتح یاب ہونے پر انکو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اﷲ ایسے ہی اپنے
بندوں کی نصرت فرماتے ہیں۔ پس ان مفکرین کو چاہیے کو وہ صدر امریکہ مسٹر
ٹرمپ پر دباؤ بڑھائے کہ وہ سات ہزار فوجیوں کی انخلاء کے بجائے افغان
سرزمین سے امریکی فوج کا مکمل انخلاء کا اعلان کردیں۔ کیونکہ سچ بہر حال
یہی ہے کہ امریکہ یہ جنگ بری طرح ہار چکا ہے۔ چنانچہ ایک ہاری ہوئی جنگ میں
امریکی ٹیکس دہندگان کا مزید پیسہ اور مزید امریکی سپاہ جھونکنا کسی طور
بھی دانشمندی نہیں۔
|