جمہوریت ناکام ہو چکی خلافت راشدہ کا قیام ناگزیر ہو چکا!

نوٹ :قاری کا میرے خیالات اور آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 معرف مذہبی اسکالر ڈاکٹر اسرار صاحب نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے معالج ڈاکٹر ریاض شاہ کے چند واقعات کا ذکر کر کت حصول پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کا ذکر کیا ہے ، معالج جناح ڈاکٹر ریاض شاہ میو ہسپتال میں ٹی بی اسپیشلٹ تھے ، ان کی ڈائری میں انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے قائداعظم کے بارے میں:
''جب قائداعظم اعظم محمد علی جناح بیمار تھے ٹی بی تیسری اسیٹج پر پہنچ ہوئی تھی بستر مرگ پر تھے اور میں بانی پاکستان کے علاج کے لیے لاہور سے زیارت تک کا سفر کر کے شدید بیماری میں مبتلا تھا جیسے میں زیارت پہنچا تو یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی کہ قائداعظم کے کمرے میں داخل ہوا اس کے باوجود جو انتہائی کمزرو ہو چکے تھے انکا جسم کمبل میں لپٹا ہوا تھا انہوں نے اپنا ہاتھ باہر نکالتے ہوئے نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پوچھا راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی، مرض الموت میں مبتلا اس عظیم انسان کے اخلاق و تواضع اور اسکی انکساری کی یہ بہترین مثال تھی حالانکہ مجھ سے ہاتھ ملانےاور مزاج پرسی کرنے سے ہی وہ ہنپنے لگے تھے جس سے انہیں بعد میں کہیں منٹ تک آنکھیں بند کر کے لیٹے رہنا پڑا تھا۔ایک بار ہم خوف زادہ ہوچکے تھے کہ خون اور تھوک کی تحقیق کے نتائج آئے ہیں انہیں ہم قائداعظم تک کیسے پہنچائیں، انہوں نے ازخود ہماری پریشانی محسوس کر لی اور بولے آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کھل کر بیان کریں کیونکہ میں بیماری کی نوعیت معلوم ہونے کے بعد آپ سے زیادہ تعاون کر سکوں گا گھبرائیں نہیں، میں موت سے نہیں ڈرتا کیونکہ موت نے برحال آنا ہے البتہ آپ کے پیشے کے اصول راستے میں حائل ہیں تو میں آپکو مجبور نہیں کروں گا، برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وطن سے روشناس کرانے والے قائداعظم کا خدا پر ایمان اور اصولوں پر یقین ہمارے لیے خوشگوار حقائق کا باعث تھا قائداعظم بظاہر ان مذہبی رہنماؤں میں نہ تھے جنکے لیے ہم مذہبی رہنماء کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن ان پر مذہب کا یقین کامل تھاایک بار دوا کا اثر دیکھنے کے لیے ہم ان کے پاس بیٹھے تھے میں نے دیکھا کے وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن ہم نے بات چیت سے منا کیا تھا اس لیے الفاظ لبوں پر آ کر رک جاتے اس ذاتی کشمکش سے نجات دلانے کے لیے ہم نے خود اجازت دی تو وہ خود بولے'تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہےکہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔یہ مشکل کام تھااور میں اکیلا کبھی اسکو نہیں کر سکتا تھا میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا کا فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا، اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ اسے ''خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے'' اور مسلمانوں کو اللہ تعالی زمین پر بادشاہت عطا فرمائے،
اگر پاکستان میں خلافت راشدہ کا نظام قائم کر دیا جائے، پاکستان میں سب کچھ ہے اسکی پہاڑیوں، ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی انہیں تسحیر کرنا پاکستانی قوم کافرض ہے،قوم نیک نیتی، دیانت داری،اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہےاور اخلاقی برائی، منافقت ، زرپرستی اور خود پسندی سے تباہ ہو جاتی ہے''

اوپر بیان کیے گئے ڈاکٹر اسرار کے خطاب کا کلپ کچھ دن پہلے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹیوٹر اکاؤنٹ پر شئیر کیا لیکن اس کلپ کا تبصرہ کسیTVچینل یا نیوز ایجنسی نے صیح معنوں میں پیش نہیں کیا، آخر یہودی ایجنٹ کہلانے والا وقت کا موجودہ حکمران مذہبی رہنماء تو ہے نہیں لیکن ایک مذہبی اسکالر کی ویڈیو کلپ کس سوچ، فکر اور مقصد کے تحت شییئر کرتا ہے ؟ کچھ لوگوں کو اس ویڈیوکے بارے میں معلوم نہیں ہو گا لیکن جنہوں نے وہ ویڈیو دیکھی ہے انہوں نے بھی کم ظرفی مظاہرہ کیا اور حاکم وقت کی سوچ و فکر کو نہیں سراہا۔کیا چاہتا ہے وزیراعظم پاکستان ؟ یاد رہے جس نظام حکومت کا ذکر قائداعظم نے کیا تھا اس کے برعکس پاکستان میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے، کیا جمہوری نظام حکومت ہے وہ اسلامی نطام ہے جس کو رائج کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسی ریاست معرض وجود میں آئی تھی ؟ کیا جمہوری سسٹم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی کا خواب تھا ؟ کیا جمہوری سسٹم بحرانوں سے جھکڑی ریاست پاکستان کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے ؟ کیا موجودہ پارلیمان کا چیف اگزیکٹیو جو ریاست مدینہ کا خواب دیکھا رہا ہے اس نظام حکمرانی کے تحت ریاست مدینہ کے اصول و قوانین لاگو کروا سکتا ہے؟

مندرجہ بالا تمام سوالات کا جواب '' ہاں'' میں صرف موجودہ میڈیا یا موجودہ بدمعاشیہ جس نے پورے ملکی نظام کو کنٹرول کر رکھا ہے دیں گے۔ لیکن میرے جیسا ایک عام شخص اس بددیانت،استحصالی نظام حکمرانی سے بیزار آچکا، اور میرے کپتان جیسا دانشور، دور اندیش محب وطن حکمران بھی اس استحصالی نظام کے ہوتے ہوئے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا، اور اللہ تعالی مسلمانوں کو زمین پر حکمرانی عطا کر کے اپنا وعدہ تب ہی پورا کریں جب اللہ کی ہدایت کےمطابق نظام حکومت قائم کریں گے شاید وقت آچکا ہم اس استحصالی، فرسودہ نظام حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کریں موجودہ نظام حکومت ریاست کے مسائل کا حل نہیں پیش کر سکتا، 1860ء میں انگریز کا بنا ہوا عدل و انصاف کا قانون 22 کروڑ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر فراہم کرنے سے قاصر ہے، ریاست مدینےکے اصول و قوانین لاگو کرنے کے لیے ایک ایسا نظام حکومت چاہے جس میں پارلیمان کا چیف ایگزیکٹو قوانین کی ترامیم اور نئے قوانین کو رائج کرنے کے لیے اپنوں ہی کے ہاتھوں میں بلیک میل نہ ہو۔

عمران خان اس بوسیدہ نظام کے خلاف پچھلے 22 سالوں سے لڑ رہے ہیں۔ اپنی 22 سالہ محنت شاقہ اور جہدمسلسل سے اس بوسیدہ سامراجی نظام حکومت کے بانیوں اور رکھوالوں کو کچلنے میں اب کامیاب تو ہو چکے لیکن 120 دن کی قلیل اقتدار کی مدت میں عمران خان یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں یہ نظام ستر سالہ جمہوریت کے گند کو ختم کرنے کے لیے موثر نہیں ہے نہ ہی اس نظام حکومت کے ذریعے ہم کامیابی کے ان بلندیوں کو چھو سکتے ہیں جن کا وعدہ اللہ پاک نے کیا ہے۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کے لیے خلافت راشدہ قائم کی جائے، جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شدید خواہش تھی۔ خلافت راشدہ جیسا نظام حکومت قائم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے کیونکہ نہ وہ رعایا ہے اور نہ ہی وہ حکمران جہنوں نے خلافت راشدہ قائم کی تھی برحال اس نظام حکمرانی سے مشابہت رکھنے والا ایک نظام خلافت قائم کیا جا سکتا ہے جسے صدارتی نظام حکومت کہتے ہیں۔ برصغیر میں انگریز نے جاتے وقت کچھ مخصوص دو ،ڈھائی سو خاندانوں کو مختلف مراعات، جائیدادوں اور ملکی اقتدار و اختیارات سے نواز دیا تھا جو گزشتہ 70 برسوں سے مملکت خدادا پر قابض ہیں انکی تیسری نسل اب اس مملکت پاکستان کے باسیوں کو غلام بنانے کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اور ستر سالوں سے قومی خزانے کو لوٹ لوٹ کر دنیا کے ملکوں ملکوں میں اپنی جائیدادیں بنا چکے ہیں اور میرا پاکستان غریب سے غریب تر ہو رہا ہے، قرضوں میں ڈوبا میرا وطن دیوالیہ ہونے کو پہنچ چکا ہے۔ غربت، بھوک و ننگ اور افلاس کا یہ عالم ہے 70 فیصد خلق خدا غربت کی لیکر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے 7 عشرے پہلے آزاد ہونے والا ملک بظاہر تو انگریز کے تسلط سے آزاد ہو چکا لیکن حقیقیت یہ اس میں بسنے والے 220 ملین لوگ ابھی تک ان دو، ڈھائی سو خاندانوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے، جیسے23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاکستان پیش کر کے ایک آزاد وطن کا تصور تو پیش کر دیا گیا تھا لیکن زمین کا آزاد خطے کےو حاصل کرنے کے لیے مزید سات مسلسل جدوجہد کی گئی تھی حالات اس وقت سے آج بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ انگریز کی پشت پناہی پر قائم دو سو بادشاہی خاندانوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر عوام نے 25 جولائی 2018ء کو کپتان کو واضح اکثریت سے جتوا کر'' نئے پاکستان'' کی قرار داد تو پیش کر دی جو موجودہ قابض بدمعاشیہ کو ہضم نہیں ہو رہی تھی، وہ ذہنی طور پر ابھی تک اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کے ریاست پاکستان سے ان کا تسلط ختم ہو چکا ہے اس لیے آئے دن کپتان کی حکومت کو متنازعہ بنانے کے لیے نئے نئے پروپیگنڈے کر رہے ہیں لیکن جب سے کپتان نے خلافت راشدہ کے قیام کے لیے ایک واضح پیغام دیا تو لوکل بدمعاشیہ کی سمجھ میں یہ بات تو آئی نہیں، یا مالک ملک کے وعدے کے بارے میں معلومات نہیں کہ خلافت راشدہ کے قیام کے ساتھ مسلمان ایک بار پھر عالم اقوام پر غلبہ حاصل کر لیں گے لیکن بیرونی قوتیں اچھی طرح سے اس بات کا ادراک رکھتی ہیں اس لیے بات یہودی لابی، الیمناٹی، شیطانی اور درجالی قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔اسلیے آنے والے چند دنوں میں ہائبرڈ وار فیر کے ذریعے لوکل بدمعاشیہ، نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار اور بکاؤ میڈیا کو کپتان کی حکومت کے خلاف شدت کے ساتھ پروپیگنڈے کے لیے کھڑا کیا جائے گا لیکن نئے پاکستان کے حصول کے لیےآئین ریاست، قانونِ ریاست، عدلیہ کے قوانین اورطرزِ حکمرانی میں تبدیلی کرنا ناگیزہو چکی۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے بعد ہی ممکن ہو گا کہ حاکم وقت کو قوانین کے نفاذ ،وقت کے ساتھ ساتھ قوانین میں ترامیم کرنے کے لیے کسی کے ہاتھ میں بلیک میل نہیں ہونا پڑِے گا، جسے موجودہ پارلیمانی سسٹم میں ہوتا ہے۔اور صدارتی نظام حکومت سے بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پارلیمان کے ارکین کی چند ٹکوں کے عوض خرید وفروخت کر حکومتیں گرا اور بنا نہیں گی۔
 

Irfan Anwar
About the Author: Irfan Anwar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.