گزشتہ سے پیوستہ
اقوالِ انوار بے بہا
ایک دانا ، بینا ،جہاندیدہ ، مخلص، خیرخواہ شخص جو بصیرت وحکمت کی دولت سے
بھی مالا مال ہو۔جس حکمت کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد مبارک ہے:
يُّؤْتِي الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ
اُوْتِيَ خَيْرًا کَثِيْرًا ۔" جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اورجس کو
حکمت ملی اسے حقیقت میں خیر کثیر (بڑی دولت) مل گئی"(البقرۃ:269)۔ ایسے شخص
کے اقوال یقیناً بیش بہاتحفہ، سرمایہ گرانمایہ اورنعمت بے بدل ہیں ۔ آپ کے
اقوال میں بھی حکمت و دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور آپ فکر وذہن میں
بلند اور سوچ میں عالی ، دل کے صاف ہونے کے ساتھ ساتھ طلباء سے مخلص اور ان
کی فلاح وبہبود چاہنے والے ہیں ۔ بقول شاعر
؎ کہ تیرافکررسا، دل صفا، دماغ اولیٰ
صرف یہی نہیں بلکہ آپ کاکلام وعظ، نصیحتیں اور اقوال بلندی فکر کے ساتھ
ساتھ معانی و بلاغت کے لحاظ سے بھی بے مثال اور بے نظیرہیں ۔ بقول شاعر
؎ تیرے کلام میں ہے بلاغت بھری ہوئی
ذیل میں آپ کے چند اقوال پیش خدمت ہیں ۔
١۔روزے کی انتہائی بلیغ وضاحت :
آپ نے روزے کی ایک جملے میں انتہائی بلیغ وشاندار وضاحت فرمائی:الصوم تمرین
ترک الحرام بترک الحلال ''روزہ حلال چیزوں کو حرام چیزوں کی خاطر چھوڑنے کی
مشق (Excercise) ہے''۔
آپ کے اس قول سے روزے کی روح اور اصل مقصد عیاں ہوجاتاہے اوریہ بات بخوبی
واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور اس کا روزہ اسے لغو،بیہودہ
اور برے کاموں سے نہ روکے تو گویا کہ اس کا روزہ، روزہ ہی نہیں بلکہ بھوکے
پیاسے رہنے کی مشقت ہے۔ کیونکہ اگرروزہ رکھنے کی وجہ سے حلال چیزیں اس شخص
پر حرام ہوجاتی ہیں تو پھر جو مستقل حرام چیزیں ہیں ان میں مبتلاء ہونے
والے کے روزے کی بھوکے پیاسے رہنے کے علاوہ کیاحیثیت رہ جاتی ہے۔(العیاذ
باللہ)
٢۔مجربات انوار:
آپ فرماتے ہیں کہ انسان اگر کسی اجنبی دیار میں جہاں اس کا آشنا یا شناسا
تک نہ ہو اگر وہاں وہ یہ آیت پڑھ لے تو اللہ رب العزت غیب سے اس کی
رہائش،قیام وطعام کاانتظام کرے گاجہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ
صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(سورہ بنی
اسرائیل :٨٠)
"اور دعامانگاکیجئے کہ اے میرے رب !جہاں کہیں تو مجھے لے جائے سچائی کے
ساتھ لے جا اور جہاں کہیں سے مجھے لے آئے سچائی کے ساتھ لے آاور عطافرما
مجھے اپنی جناب سے وہ قوت جو مدد کرنے والی ہو۔"
٣۔القرآن کتاب حیٌّ:
آپ اکثر فرماتے کہ قرآن مجید فرقان حمید اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ یہ زندہ
کلام ہے اور ازل تا ابد ہے۔ اس کے احکام و قوانین پر عمل کرنے سے عروج ،کامیابی،
اور دنیا کی قیادت و سیادت حاصل ہوگی اور اس سے روگردانی ذلت ، رسوائی
وندامت کاباعث ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
آپ مزید فرماتے کہ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل یاسابقہ دوسری اقوام کا تذکرہ
آیا ہے یا ان پر عذاب کا ذکر ہے توجن افعال شنیعہ وقبیحہ کی بناء پر وہ
اقوام عذابِ الہی میں مبتلاہوئیں تھیں اگران اعمال شنیعہ میں مسلمان آج بھی
مبتلاہوں گے تو وہ بھی اس دنیامیں رسوا ہوں گے۔ ایسانہیں ہے کہ ایک عمل
پرسابقہ قوم کو تو عذاب ہو اور وہی عمل مسلمان کریں تورب کی خوشنودی اور
رضا کا باعث ہو۔ مثلاً بنی اسرائیل اپنے علماء ورہبانین و احبار کی اندھی
تقلید کرتے تھے۔ اگر وہ حلال کو حرام قراردیتے تو اسے یہ حرام سمجھتے اور
اسی طرح اگر وہ حرام کو حلال قراردیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے۔ اس طرح انہوں
نے اپنے احبار و رھبان کو منصب نبوت پر فائز کردیا تھا اور انہیں شارع سمجھ
لیا تھا ۔اور ان کے رہبان ذاتی خواہشات، ملوک کی وفاداری، پسند وناپسند ،حب
مال، چاہت جاہ و منصب،عصبیت،قرابت داری ودیگر دنیاوی اغراض و مقاصد کے تحت
حلال کو حرام اور حرام کو حلال قراردیتے۔جب کوئی قوم ،ملت و معاشرہ اس حد
تک ضلالت و گمراہی کا شکار ہوجائے تو ایسا معاشرہ ابتری و انتشار کا شکار
ہوتے ہوتے تباہ و برباد ہوجاتاہے۔ ان کے ہاتھ سے دنیا کی سیادت و قیادت
چھین لی جاتی ہے۔ اور یہی حال مسلم امہ کا ہے کہ انہوں نے بھی رب کے کلام
کو پس و پشت ڈال دیا ہے۔ علماء سوء چند ٹکوں اورمتاع قلیل فانی کو حاصل
کرنے کے لئے شریعت مطہرہ میں اپنی اور اپنے آقاؤں کی مرضی کے فتاویٰ جاری
کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
نیز آپ فرماتے ہیں ہمارے مدارس نے علوم اسلامیہ(قرآن وحدیث وفقہ) کی تعلیم
دینے میں ترتیب الٹ دی ہے۔سب سے اولی،مقدم اوراہمیت کی حامل کتاب قرآن کریم
کو ہونا چاہئے تھاکہ جسے پڑھنے،سمجھنے کی کوشش سب سے زیادہ کی جاتی لیکن
ہمارے مدارس میں اس کے برعکس عمل ہورہا ہے اور تمام تر توجہ فقہ کی کتابوں
کودی جارہی ہے۔ فقہ کی کئی کتب کی مکمل تعلیم دی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس
سوائے چند معدودہ مدارس کے تفسیر القرآن کی تکمیل کہیں نہیں کی جاتی ۔اس
میں کوئی شک نہیں ، قرآن کریم کو مقدس کتاب کا درجہ حاصل ہے ۔ اس کا پڑھنا
اور سننا بھی باعث اجرو ثواب سمجھاجاتاہے۔ مگر قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ نے
سمجھ کر پڑھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کے لیے نازل فرمایاہے۔ یہ کتاب دستور
اور مسلمانوں کا منشور ہے۔جس سے آگہی اور عمل پیہم کے بغیر مسلمان دنیا میں
اپنا کھویاہوامقام حاصل نہیں کرسکتے۔
الحمدللہ! اس حوالے سے استاذ مکرم اور جامعہ علیمیہ کا یہ اعزاز ہے کہ یہاں
گذشتہ تین چاردہائیوں سے ہر سال تقریبِ تکمیلِ تفسیر القرآن منعقد ہوتی ہے۔
جس میں آپ منفرد انداز سے درس دیتے ہیں۔ آپ ایک ہی نشست ہی میں بیٹھ کر
پورے قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں کاترتیب وار اجمالاً تعارف کراتے ہیں۔آپ
اتنا جامع ،دلچسپ ،بلیغ اور شاندار درس دیتے ہیں کہ تقریباً ڈھائی تین
گھنٹوں پر محیط دورانیہ کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔اس طرح آپ کے
منفرد نوعیت کے درس قرآن کی عموم میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
٤۔پابندی وقت:
آپ نظام الاوقات کے سختی سے پابند ہیں ۔راقم نے ١٨ سال تک، پہلے دوران طالب
علمی اور بعد میں آپ کے ماتحت تدریس اور دفتری امور سرانجام دیئے ہیں لیکن
کبھی بھی آپ کو تاخیر سے جامعہ آتے نہیں دیکھا۔ آپ تقریباً سوا سات ساڑھے
سات بجے تک جامعہ پہنچ جاتے ۔ جامعہ علیمیہ کے اوقات سے قبل بھی ایک گھنٹہ
تفسیر جلالین شریف پڑھاتے تھے۔ اور جامعہ کے اوقات سے نصف گھنٹہ قبل آپ
تشریف لے جاتے۔
٥۔خداخوفی:
آپ نے ایک بار ارشاد فرمایا کہ انسان کو اگر رب کے سامنے جوابدہی کااحساس
ہو اور وہ اس بارے میں فکر مند ہو تو پھر اسے کسی قسم کا ڈر اور خوف نہ
ہوگا۔ کیونکہ ایساشخص نظام الاوقات کا پابند ، اپنے فرائض مکمل طور پر
اداکرنے والا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنے والا ہوتاہے۔ پھر اسے
کسی قسم کا خوف وخطر کیوں ہوگا۔آپ نے اپنی مثال دی کہ میں نہ تو جنرل
سیکرٹری کے دفترجاتا ہوں اور نہ ہی کبھی ان کے ادارے میں وزٹ(معائنہ) پرآنے
سے ڈرتاہوں کیونکہ میں دفتری اور تدریسی کام مکمل جانفشانی اورلگن سے
کرتاہوں پھر ایساکرنے کے بعد مجھے کوئی ڈر اورخوف نہیں ۔
٦۔وقت کی اہمیت :
آپ طلباء کے وقت کوبھی بہت اہمیت دیتے اورانہیں وقت کے ضیاع سے روکتے۔ وقت
کی اہمیت پر آپ دو مشہور اقوال دوران تدریس کثرت سے دہرایا کرتے: الوقت ثلج
یذوب یعنی وقت برف کی مانند ہے اسے اگر استعمال نہ کیا گیا تو پگھل جائے
گااورآہستہ آہستہ یہ عمربرف کی طرح پگھل کرمعدوم ہوجائے گی۔
ہورہی ہے عمرمثل برف کم چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم
الوقت ذھب وذاھب۔ وقت سونا ہے لیکن ایسا کہ اسے چھوا نہیں جاسکتا ، کسی بھی
طریقے سے ذخیرہ نہیں کیاجاسکتا اور اسے خریدا نہیں جاسکتا ، کیونکہ یہ
مسلسل گزررہاہے اسے روکا نہیں جاسکتا جو وقت گزرگیا وہ ماضی کا حصہ بن جاتا
ہے اور ہمارے ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے اس پرافسوس کرنا بھی مزید وقت ضائع
کرنے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو چوبیس گھنٹے دیئے ہیں جس میں
کمی زیادتی نہیں کی جاسکتی۔ا ور آنے والی کل پر کام چھوڑنا خود کو دھوکا
دینے کی مانند ہے کیونکہ جب یہ چوبیس گھنٹے گزر جائیں گے تو یہ کبھی واپس
نہیں آسکتے اور نیا کل زندگی میں آنے کے بعد ''آج'' کہلائے گا ٰ یعنی کہ
صبح و شام کے یونہی گزرنے سے بالآخر زندگی تمام ہوجائے گی۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمریونہی تمام ہوتی ہے
اور جب یہ زندگی کی گھڑیاں مکمل ہوجائیں گی توپھر کسی بھی طور اس میں اضافہ
نہ کیاجائے گا۔
وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُھَا (المنافقون:١١)
ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ مہلت نہیں دیاکرتا کسی شخص کو جب اس کی موت کاوقت
آجائے ۔
مختصراً آج وقت کی نقد نعمت کو'' کل'' جو کہ ان دیکھی ،ادھار ہے پرکبھی نہ
چھوڑنا چاہئے۔ شاعر آپ کے اس قول کی وضاحت کچھ اس طرح کرتاہے:
چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سوکہاں کل ہے |