تحریر: بنت عبدالغفور
اﷲ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں،’’ بے شک انسان پر زمانہ میں سے ایک ایسا
وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔بلاشبہ ہم نے انسان کو
مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اس کو آزامائیں تو ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے
والا انسان بنا دیا‘‘۔سورہ یس میں میں اﷲ تعالی کا فرمان مبارک ہے،’’کیا
انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق
جھگڑنے لگااور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو
بھول گیا۔کہنے لگا ہڈیاں بوسیدہ ہو جاے گی تو ان کو لون زندہ کرے گا۔کہہ دو
وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار پیدا کیا اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا
ہے‘‘۔
تو پھر آج انسان کس بات پر تکبر کر رہا ہے، کون سی بات ہے جس پر تو اکڑ رہا،
کس بات پر اتنا اتراتا ہے۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں،’’ ہم نے انسان کو ایک قطرہ
سے پیدا کیا۔ایک دوسری جگہ فرمایا ایک نجس قطرہ سے اسے جس کو کوئی دیکھنا
بھی پسند نہ کرتا ہم نے تجھے وجود بخشا۔پہلے ماں کے پیٹ میں چالیس چالیس دن
بعد انسان کی حالت کو اﷲ بدلتے رہے، نو ماہ ماں کے پیٹ میں اﷲ کے حکم سے
پلتا رہا، پھر‘‘۔تجھے ایک خوبصورت جسامت عطا کی۔ بن مانگے پھر اﷲ نے
ہاتھ،کان،پاؤں، آنکھ،بال، سر،ٹانگیں،بازو،ہونٹ ،ناک وغیرہ تمام جسم کے
اعضاہ بنا دے۔ تیری ماں نے مانگا نہ تھا اﷲ بیٹا، بیٹی اس کے کان بھی ہو،
ناک بھی ہو، دانت بھی ہو۔بن مانگے اﷲ نے یہ تمام نعمتیں عطا کر دی۔ اﷲ یہ
تمام نعمتیں دینے کے بعد پوچھتے ہیں۔ہے کوئی میری نعمتوں پر شکر کرنے والا
میں اسے اور عطا کروں۔
اﷲ رب العزت نے پیدا کیا تو بولنے کی قوت دی، چلنا نہ آتا تھا۔ باپ نے
انگلی پکڑا کر چلنا سکھایا،ماں کی چھاتی سے لگ کر دودھ پینا اﷲ تبارک
تعالٰی نے سکھا دیا، آہستہ آہستہ جوانی کی طرف قدم بڑھانے لگا۔اﷲ نے والدین
کو تمھارے لیے انمول رہنما بنا دیا۔ا سکول سے گھر تک کا سفر،نرسری سے ڈاکٹر،
انجینئر تک کا سفر اساتذہ نے کروا دیا۔ مزید جوانی کے دوراہے میں پہنچا تو
اﷲ نے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت عطا کر دی۔ اب جب اﷲ نے انسان کو سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت عطا کی، اس کے سامنے دو راستے رکھ دیے۔
ایک رحمن کا راستہ، صراط مستقیم جنت میں لے جانے والا۔دوسرا شیطان کا راستہ،
جہنم میں لے جانے والا۔اب ان دونوں راستوں میں سے اگر رحمن کے راستے کو
چنتا ہے تو وہ کامیاب موت تک کا سفر اس کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ۔ یہ
راستہ پہ چلنا بھی کوئی انسان کا اپنا کمال نہ تھا یہ بھی کمال والے کا
کمال کہ اس نے جہنم سے بچا کر جنت میں جانے والے راستے پر ڈال دیا۔اب اس
راستے میں انسان پر طرح طرح کی آزمائشیں آتی ہیں۔ کبھی اﷲ تعالی بھوک سے،
کبھی مال سے، کبھی تکلیف سے، کبھی بیماری سے آزماتے ہیں۔ میرا بندہ، بندی
کیا کرتے ہیں اگر تو ان تمام پر صبر و شکر کے ساتھ کام لیتا ہے تو امتحان
میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کی آنے والی زندگی، موت اس کے لیے ایک بہترین
تحفہ بن جاتی ہے۔
جوانی کا یہ سفر انسان کے لیے تھوڑا کٹھن اور لمبا ہوتا ہے۔ شادی کے بعد
زوجین کے حقوق، والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق وغیر ہ کے ساتھ ساتھ اپنے رب
کے حقوق کو ادا کرتے کرتے اپنے آخری مراحل بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھ دیتا
ہے۔ ضیعف جسم، پست آواز، کمزور ہڈیوں کے ساتھ وہ کچھ لمحات، دن گھنٹے گزار
رہا ہوتا ہے۔ اور پھر سوچتا ہے کہ پوری زندگی بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی
زندگی کو تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے۔
زندگی کیا ہے ایک ننھاسا دیا
جس کو ہوا کا ایک جھونکاپل میں گرا دے
پھر وہ وقت آ جاتا ہے جس کا اﷲ تعالٰی نے وعدہ فرمایا ہے اور دنیا اور دنیا
کی تمام آسائشوں کو چھوڑ کو وہ اپنے اصلی وطن کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے |