تحریر: ثنا نوشین
گزشتہ کچھ روز سے ایسی تحاریر نظر نظر سے گزر رہی ہے جن کے مطابق انسانیت
کو ایک علیحدہ دین یا سوچنے کا علیحدہ ڈھنگ کہا گیا ہے۔ ویسے تو دور حاضر
میں مختلف فتنے سر اٹھا رہے ایسے میں ایک فتنہ ہے انسانیت ہمارا مذہب ہے۔یہ
ایک نعرہ ہے جو اکثر وبیشتر سننے میں آتا ہے۔دراصل اس جملے کی بنیاد کچھ
لبرل لوگوں نے رکھی ہے ان لوگوں کا عقیدہ کچھ اس طرح ہے ان کے مطابق اﷲ پاک
حقوق اﷲ تو معاف کر دیں گے مگر حقوق العباد یعنی کے بندوں کے حقوق کبھی
معاف نہیں کریں گے اس لیے یہ لوگ انسانیت کا درس دیتے ہیں مگر یہ نہیں
جانتے کہ اسلام کی بنیاد ہیں حقوق اﷲ پر رکھی گئی ہے یعنی پہلی شرط اﷲ پاک
کا شریک مت ٹھہراؤ اور انسانیت جس کے آج گن گائے جاتے ہیں یہ تو ہمارے
اسلام کا حصہ ہے۔
دین اسلام جس میں جگہ جگی حقوق العباد کی تعلیم دی گئی اورتاکید کی گئی کہ
اﷲ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے ہیں۔حدیث مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کا فرما ہے،’’
تم میں سے کوئی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کوئی شخص تمہارے ہاتھ
اور زبان سے محفوظ نہ رہے۔ اسلام ایک کامل دین ہے جس میں والدین سے لے کر
رشتہ داروں اور پڑوسیوں ، نادار مسلمانوں تک کے حقوق بیان کردیے گئے
ہیں۔دین اسلام کی تعلیمات ہمیں جابجا درس انسانیت دیتی نظر آتی ہیں لیکن
افسوس ہم قرآن وحدیث کی آواز نظر انداز کرکے چند بے عقیدہ اور لادین لوگوں
کی باتوں میں آجاتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں انسانیت اسلام کے آنے سے انسان سیکھنے لگے ورنہ دور جہالت میں
عورت کے حقوق و فرائض سے معاشرہ نابلد تھا۔ اسلام نے آکر عورت کو مقام و
مرتبے سے نوازاوہ عورت جو ستی کر دی جاتی تھی زندہ جلا دی جاتی تھی اسے
امان عطا کی۔آج بیوہ کی عزت ہے معاشرے میں وہ سر اٹھا کر جی سکتی ہے ۔ وہ
شادی کر سکتی ہے ۔یہ مقام کس نے دیا اس عورت کو اسلام نے ۔ارے آپ انسانیت
کا درس دے رہے ہیں اس دین کے پیروکاروں کو جس دین نے ایک حبشی کو وہ مقام
دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھا دیا ۔ یہ کوئی بادشاہ نہیں ایک ادنی غلام تھا
جس کو یہ مقام اسکے تقوی کی بنیاد پر ملا یہ ملحد۔یہ بے دین۔یہ کافر جس روز
انسانیت سیکھ گئے نا کلمہ پڑھ لیں گے۔ مجھے اگر کسی سے اختلاف ہے وہ ہیں
دیسی لبرل جو اپنی آزادی کھوجتے کھوجتے اتنا دور نکل جاتے کہ اسلام کے
دائرے سے باہر نکل جاتے۔ یہ مذہب جو نیا تخلیق ہو اس میں انسانیت کا وہ کون
سا سبق ہے جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے 1400سال پہلے ہمیں نہ دیا ہو
بلکہ عمل کر کے دکھایا ۔
وہ لوگ جو ہمارے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو کنکر مارتے انکے راستے میں گند
پھینکتے ،اذیتیں دیتے، میرے محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو انکو معاف
کرنے میں لمحہ بھر نہ لگایااور بدلے میں دعا سے نوازا۔خود بھوکے رہ کر
دروازے پر آئے بھکاری کی حاجت پوری کرنا اور اس کا درس دینا یہ انسانیت
نہیں اور اور انسانیت کا کیا مفہوم ہے۔ بتائیے اور کس کتاب میں لکھا ہے کہ
ظلم کرنے والا اور سہنے والا برابر کے شریک ہیں یعنی کہ جہاں ظلم کرنے سے
منع فرمایا وہی ظلم کرنے والے کا ہاتھ روکنے کا بھی حکم فرمایا آئیے
انسانیت کے کچھ سبق دہراتے اور دیکھتے کہ یہ انسانیت ہے کیا چیز۔
زکوٰۃ :ور آپ کو جو میرے رب نے دیا اس میں غریب کا بھی حصہ ہے جو زکوٰۃ کی
صورت غریب کو دینا آپ پر فرض ہے۔
صد قہ و خیرات :یعنی زکوٰۃ سال کے بعد اداکی جاتی ہے۔اس کے علاوہ آپ وقتاً
فوقتاً اپنے رب کا نام لے کر غریب کی مدد کیجیے ۔ رب تبارک و تعالی نے اسے
قرض حسنہ کہا ہے اوربدلے میں دوگنا دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔
روزہ:یعنی خود بھوکا رہنا تاکہ غریب کی بھوک کا اندازہ ہو اجر میرا رب
تعالیٰ دے گا۔
ناپ تول: میں کمی کرنے والے کو سخت ناپسند فرمایا کہ یہ کہاں کی انسانیت کہ
پیسے پورے دیں سودا کم۔
جھوٹ۔ سے منع کیا گیا تاکہ آپ کا جھوٹ کسی سے زیادتی کی وجہ نہ بنے۔چوری،
زنا، غیبت، حسدہر اس کام کو برا کہا جو براہے اور اشرف المخلوقات کو زیب
نہیں دیتا۔ ہمیں ان سے منع فرمایا گیا ہے۔اگر آپ انسانیت کی معراج پانا
چاہتے ہیں تویہاں وہاں بھٹکنے کے بجائے اسلامی تعلیمات پر عمل کیجیے اور
مطالعہ کیجیے۔ اسلام نے ہمیں مکمل ضابطہ حیات پیش کیا ہے جس کے مطابق زندگی
گزار کر ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ |