خیالات کی طاقت

تحریر:سید شاہ زمان شمسی
ہماری شخصیت ہمارے خیالات سے بنتی ہے اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی اگر ایک عمارت ہے تو خیالات اس کی اینٹیں ہیں اور یہ جتنی مضبوط ہوں گی عمارت اتنی ہی زیادہ مضبوط ہو گی۔ ہماری خود اعتمادی اور یقین خیالات ہی کے مرہون منت ہے۔ جب خیالات کی توجہات کا مرکز کامیابی ہو گا تو جس مقصد کے لیے آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں حاصل کر کے رہتے ہیں اسی ضمن میں عالمی شہرت یافتہ مصلح ماہر نفسیات اور ادیب ’’ڈاکٹر نارمن ونسٹ پیل‘‘نے لکھا ہے،’’کامیابی کا تصور کیجیے ،کامیابی کے متعلق سوچیے، کامیابی پر نظر جمائے رکھیے اور خود اعتمادی اور یقین کا دامن مضبوطی سے تھامے رہیے ‘‘۔یہ جملے وہ جادو ہیں جو سر چڑھ کے بولتے ہیں۔ ان جملوں کو روزانہ دوہرائیے ان پر عمل کیجیے۔ کامیابی خود چل کر آپ کے پاس آئے گی۔ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں آپ بہر حال کامیاب ہوں گے۔مثبت خیالات انسان کو ہمیشہ مثبت نتائج فراہم کرتے ہیں۔

یہ تو ہو گئی کامیابی کی بات جو قوت خیال کے باعث آپ کو مقصد تکمیل تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پوری توجہ اپنے مقصد پر مرکوز رہے اور اسی کے لیے تگ و دو کی جائے۔ اب بات کرتے ہیں ان خیالات کی جن کے اثر سے انسان کی شخصیت سامنے آتی ہے یاد رکھیے کہ برے خیالات پر بھی انسان کا اتنا ہی دماغ خرچ ہوتا ہے جتنا کہ اچھے خیالات پر لہذا دماغ کی توانائی کو اچھے خیالات کے لیے کیوں نہ خرچ کیا جائے۔

برے خیالات انسان کوبرا بنا دیتے ہیں ہر انسان اپنے خیالات کا نمونہ ہوتا ہے۔ابتدائی تعلیم ہی سے آپ کو اپنے مقصد کو جان لینا چاہیے تعلیم خواہ کتنی بھی ہو وہ عمل اور پر عزم ارادے کا متبادل نہیں بن سکتی۔ اپنے دل و دماغ میں جستجو اور عمل کی شمع روشن رکھیے۔ خاص مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات اپنے دماغ کی تمام تر توانائیاں اسی کے حصول میں صرف کرنی پڑتی ہیں اور اگر آپ نے اپنے ذہن پر ہر قسم کا غیر ضروری بوجھ یعنی ماضی، حال مستقبل کے مسائل کو اپنے سر پر سوار کر لیا تو آپ جسمانی اعتبار سے بھی پس کر رہ جائیں گے اور ذہنی اور جذباتی طور پر بھی تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

نامور ماہر نفسیات ولیم جیمز نے کہا تھا ،’’جب آپ کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں اور اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں تو پھر کسی دوسرے کام کا خیال ذہن سے نکال دیجیے‘‘۔ اسی لیے برسوں سے یہ بات دہرائی جا رہی ہے’’ آج کا کام کل پہ نہ چھوڑو‘‘۔’’گائیڈڈ میزائل‘‘اس میزائل کو کہتے ہیں جو اپنے متعینہ راستے پر چلتے ہوئے مقررہ ہدف تک پہنچ جاتا ہے ۔گائیڈڈ انہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے اندر ایک ایسا نظام نصب ہوتا ہے جو انہیں اپنے راستے اور ہدف سے ادھر ادھر نہیں ہونے دیتا اگر میزائل ادھر ادھر ہونے کی کوشش کرے تو وہ نظام ایسا نہیں کرنے دیتا۔ ہمیں بھی اپنے مقاصد کو تعیین اسی انداز میں کرنا چاہیے اور ایک بار جو فیصلہ کرلیں اس پر قائم رہنا چاہیے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1020916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.