تحریر: عائزہ ظہیر
آج کے انسان نے بے حد ترقی کر لی ہے۔ مگر اس ترقی کے جہاں ثمرات حاصل ہوئے
وہیں بے شمار نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہیں۔ ہم انسان کو درپیش دیگر مسائل کی
بات کرتے ہیں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ماحول جس میں ہم سانس لے رہے
ہیں اس کی بات نہ کی جائے۔ صنعتی انقلاب نے جہاں ہماری زندگیوں کو یکسر بدل
کر رکھ دیا وہیں ماحول میں بھی بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انھی
تبدیلیوں میں سے ایک ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔
سردیوں کے موسم میں ہم آئے دن خبروں میں سنتے ہیں کہ کل عالم سموگ کی لپیٹ
میں ہیں اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں بھی سننے میں آتا رہتا ہے۔ آلودگی
بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس کے نتائج میں سے ایک بھیانک نتیجہ
سموگ بھی ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ سموگ کیا
ہے؟،اس کے اثرات اور اس سے بچاو کی تدابیر کیا کیا ہیں؟
لفظ سموگ انگریزی زبان کے الفاظ ’’سموک‘‘ اور ’’فوگ‘‘ سے نکلا ہے۔جس کا
مطلب ہے دھواں ملی آلودہ دھند۔سردیوں میں ہوا میں موجود نمی درجہ حرارت میں
کمی کے باعث منجمد ہونا شروع ہو جاتی ہے جسے ہم کنڈینسیشن کا عمل کہتے ہیں
جو عمل تبخیر کا الٹ ہوتا ہے۔ تاہم ہوا میں موجود نمی موسم سرما میں سفید
رنگ کی دھند کا باعث بنتی ہے جو کہ عمومی سی بات ہے۔ مگر خطرے کی بات یہ ہے
کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ دھند آلودہ ہونا شروع ہوگئی ہے اور اس
دھوئیں سے مل کر یہ زہریلی دھند بنا دیتی ہے۔
سموگ عام طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور فضا میں
ہائیڈروکاربنز کی بڑی مقدار میں موجودگی کے باعث بنتی ہے۔ یہ عناصر عام طور
پر گاڑیوں کے دھوئیں میں موجود ہوتے ہیں جو فضا میں سورج کی روشنی کی
موجودگی میں ری ایکشن کر کے پیلی یا گدلے رنگ کی دھند پیدا کرتے ہیں جو حد
نگاہ کو خطرناک حد تک کم کر دیتی ہے۔ آئے دن ہم خبروں میں سنتے ہیں کہ سموگ
کی وجہ سے حد نگاہ بہت کم ہونے کے باعث گاڑیوں میں تصادم ہو گیا۔ جس کی وجہ
سے بے شمار مالی اور جانی نقصانات ہوتے رہتے ہیں۔ سموگ نہ صرف ٹریفک کے لیے
مشکلات پیدا کر رہی ہے بلکہ یہ سانس اور جلد کی بیماریوں کا بھی مؤجب بن
رہی ہے۔ بچوں اور بوڑھوں کو حصوصاً سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔
وہ دمہ، برونکائٹس اور پھیپھڑوں کے دیگر عارضوں میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔
سموگ دل کے عارضیاور یادداشت کی کمزوری کے عارضے ’’الزائمر‘‘ کا بھی سبب بن
سکتی ہے۔ ماں کے بطن میں پلنے والے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان کی
آنکھوں اور جلد کو بے حد نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کم وبیش
ملک کے 80% لوگ آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی اقدامات
ہونے چاہیے۔ جن علاقوں میں درخت کم ہیں وہاں زیادہ سے زیادہ شجرکاری کی
جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جائے تاکہ ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم
ہو۔ عوام کی آگہی کے لیے مہم چلائی جائے جس میں لوگوں کو سموگ سے بچاؤ کی
تدابیر بتائی جائیں۔
اگر حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی تو ہمیں قومی اور ذاتی طور پر اقدامات
کرنے چاہیے جیسے کہ دھند کے اوقات میں دروازے کھڑکیاں بند رکھیں۔ بچوں اور
بوڑھوں کا خاص خیال رکھیں۔ باہر نکلتے وقت چہرے کو ماسک سے ڈھانپ لیں۔ پوری
آستینوں والے کپڑے پہنیں۔ گاڑیوں اور دھواں پیدا کرنے والی چیزوں کا کم سے
کم استعمال کریں۔ہمیں عوامی سطح پر ہی اس سموگ سے لڑنا ہوگا کیونکہ حکومت
کا رویہ تو انسانی زندگی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہے۔
میں نے کہا کہ درد ہے اس نے کہا ہوا کرے
میں نے کہا کہ مرتا ہوں اس نے کہا مرا کرے
میں نے کہا کہ سانس بھی رک رک کے آرہی ہے آج
ایسا نہ ہو کہ چل بسوں اس نے کہا خدا کرے
|