وطن عزیز کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم ترین یہ ہے
کہ ملک میں کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنی
ساری دولت اسلامیہ کالج پشاور، سندھ مدرستہ السلام ، علی گڑھ کالج کو دے
گئے تھے۔ یوں قائد اعظم ؒ نے اپنی دولت اپنی قوم پر نچھاور کردی جب کہ
موجودہ حکمران قائد کے برعکس لوٹ رہے ہیں۔اِس وقت سوشل میڈیا کی زینت ایک
خبر بنی ہوئی ہے وہ یہ کہ بحری قذاقوں کے ہاتھوں
یرغمال بنائے جائے جانے والوں کا ڈرامہ رچایا جاتا تھا اور انصار برنی
انسانی حقوق کے علمبردار بن کر اُن کی رہائی کے لیے سامنے آتے اور ملک ریاض
پیسہ دیتے کہ یرغمالیوں کو رہا کروایا جائے درحقیقت وہ رقم زرداری کی ہوتی
تھی جسے باہر بجھوایا جاتا تھا۔ اتنا بڑا مذاق انسانی حقوق کے نام پر کیا
گیا ہے۔اب آتے ہیں زرداری صاحب کی جانب سے کیے جانے والے بلند بانگ دعوں کی
طرف ۔ اِس وقت جو
ای سی ایل کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں جناب زرداری اور اُن کے حواری
شامل ہیں۔ بات تو سچ ہے بات ہے رسوائی کی۔ نواز شریف بامشقت پابند سلاسل
ہوچکے ہیں۔ شہباز کا پبلک اکاونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جانا اِس بات کا
واضع ثبوت ہے کہ عمران خان کو مجبوراً یہ سب کچھ کرنا پڑا ہے ایسا اُن کے
کہنے پہ ہوا ہے جن کے کہنے پہ عمران خان کو حکومت ملی ہے۔
فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کی جانب سے تواتر کے ساتھ شہباز شریف کو
پی اے سی کا چیئرمین نہ بنائے جانے کے موقف کے برخلاف جس طرح عمل ہوا ہے
اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہباز شریف اِن اور نواز شریف آوٹ۔ اِسی
طرح زرداری کو بھی دباؤ میں لایا جارہا ہے۔زرداری صاحب کو شاید یہ علم نہ
تھا کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر جائے گئی کہ اُن کی جانب سے سے
بنکوں کے ذریعہ سے کی جانے والی منی لانڈرنگ کا ریکارڈ خود بخود بولنا شروع
کردئے گا۔ پاناما کیس کی نسبت زرداری صاحب کے خلاف کیس کی نوعیت اور طرح کی
ہے۔ زردار ی کے خلاف شواہد اکھتے ہوچکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ زرداری
صاحب اپنی دولت کو قومی تحویل میں دئے دیں اور اپنی باقی زندگی اﷲ اﷲ کرتے
ہوئے اور اپنی سیاسی جماعت اور ملک کی عوام کی خدمت کرتیہوئے گزاریں۔ لیکن
ظالم دولت شے ہی ایسی ہے جس کے پاس جتنی زیادہ آتی چلی جاتی ہے اُتنا ہی وہ
شخص اُس کی ہوس میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے ۔ کم ازکم ہمارئے ملک میں تو
ایسا ہی ہے۔ اب آتے ہیں اِس بات کی طرف کے زرداری صاحب گیارہ سال قید مین
رہے اِنھوں نے نوازشریف کے تینوں ادوار اور مشرف کو دور بھی عدالتوں کے رحم
و کرم پہ گزارا لیکن وہ ہر دفعہ بری ہوئے۔ اب کیا ہوگا۔ یہ ہے وہ سوال جو
اب عوام الناس کے ذہن میں ہے۔
شائد پاکستانی عوام اتنی بے بس ہوچکی ہے کہ جموریت کے نام پر اِس کے دھوکہ
دہی کو دھوکہ ہی تصور نہیں کیا جاتا ہے۔شریف فیملی کا رہن سہن مال و دولت
حسن اور حسین کی ملک سے باہر جائیدادیں اِس امرکی طرف نشاندہی کر رہی ہیں
کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ آصف علی زرداری نے کہا
ہے کہ کسی چیز سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں، پیپلزپارٹی کی قیادت کو کوئی
ڈرا سکتا ہے اور نہ جھکا سکتا ہے، اردو میں اس لیے بات کرتا ہوں کہ اسلام
آباد میں بہرے، گونگے اور اندھے لوگ رہتے ہیں، میری گیس فیلڈز یا کوئلے کی
کانیں نہیں، ہم نے ان کو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں غریبوں کی ملکیت
بنادیا، آپ کے کہنے سے پاکستان مضبوط نہیں ہوتا، ملک تب مضبوط ہوتا ہے جب
عوام خوش ہوں، ہم نے کیا گناہ کیا، ہم نے جو کام کیے وہ آنے والی تاریخ
لکھے گی، ہم نے الیکشن جیت کر بھی اپوزیشن میں بیٹھ کر دیکھا ہے، جس قوم
میں ایکا ہو اور اس نے اپنے حقوق سمجھ لیے ہوں تو اس قوم کو کوئی بھی جھکا
نہیں سکتا۔انہوں نے کہا ہے کہ کسی چیز سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
حکومت نے جعلی بینک اکاؤنٹس،منی لانڈرنگ کیس میں ای سی ایل میں شامل افراد
کی فہرست جاری کر دی، آصف علی زرداری، فریال تالپور، بلاول بھٹو زرداری کے
نام سرفہرست ہیں،فہرست میں آصف علی زرداری کا نام 24ویں،بلاول بھٹو کا
27ویں اور فریال تالپور کا 36ویں اور ملک ریاض کا 72 ویں نمبر پر
ہے،وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا نام فہرست میں 155ویں اورسابق
وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ کا نام 129ویں نمبر پر موجود،فہرست میں رکن
سندھ اسمبلی مکیش کمار چاولہ، سابق وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال، امتیاز
شیخ،سابق ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر، قائم مقام چیئرمین
ایس ای سی پی طاہر محمود، حسین لوائی اور بلال شیخ کے نام بھی شامل،ای سی
ایل فہرست میں عبدالغنی مجید سمیت اومنی گروپ کے 10افراد کے نام شامل، علی
کمال مجید، انور ماجد خواجہ، احسن رضا درانی کے نام بھی شامل ہیں۔تفصیلات
کے مطابق حکومت نے بیانات کے بعد عملی اقدامات کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کیس
میں شامل افراد کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے جے آئی ٹی
میں شامل172افراد کی فہرست جاری کر دی ہے، اس فہرست میں عبدالغنی
انصاری،قومی گروپ کے عبدالغنی ماجد،عبدالجبار،عبدالمومن دیہڑ،عبدالقدوس
چاچڑ،ابوبکر،عدیل شاہ، آفتاب حسین المعروف آفتاب پٹھان، آغا واصف(سیکرٹری
انرجی)، احسان احسان، احسان رضا درانی (صدر سمٹ بینک)، احسان طارق (صدر
سندھ بینک)، علی اکبر ابڑو(ایکسیئن سندھ کول اتھارٹی)، علی عظیم
اکرام(ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ای سی پی)، علی کمال مجید(اومنی گروپ)، علی
نواز مہر(رکن صوبائی اسمبلی)، عامرصدیقی(ہیڈکمرشل ریٹیل)، امجد آفتاب، انور
مجید خواجہ(اومنی گروپ)، اشفاق احمد لغاری، اشوک چھتر دھونی، شہزاد جتوئی،
آصف علی زرداری، بشارت محمود، ایم بلال شیخ (صدر سندھ بینک)، بلاول بھٹو
زرداری، داؤد خان، داؤد مارخوس، احسان علی چوہدری، احسان الٰہی،سید عامر
شہزاد، فہد حسین، فہد سلطان، فرمان علی، فریال تالپور،غلام حسین الاری،
غلام مصطفی میمن، غلام مصطفی پھل، غلام قادر،غلام النبی، حافظ ربنواز، حاجی
مرید اکبر، حاجی سراج الدین سومرو، حماد شاہد، حارث کمال، حارث رضا عباسی،
حسن علی میمن، حسین لغاری، عمران حیدر، عمران خان،عمران منصور علی جیوانی،
امتیاز شیخ، اقبال احمد خان، عرفان سلیمان، جگدیش،جہانگزیب خان، جسونت کپور،
کامران علی، کنول کمار، خضجان محمود،خالد حسین، خالد مسعود چنا، خواجہ محمد
سلیمان یونس، خدا بخش، خرم نیازی، خورشید جمالی، محمد اسلم قریشی، محمد
عمیر، ڈاکٹر دریش،ماجین فاطمہ، ملک ریاض حسین(بحریہ ٹاؤن)، منصور
قادرکاکا،مسعود نقوی، مسعود الحسن، مسعود کریم شیخ، میراج محمد مناف، ثروت
عظیم،محمد افضل، محمد احسان،محمد اعجاز ہارون، محمد اکمل، محمد علی چنا،
محمد عارف خان، محمد اسد علی، محمد اشرف مغل، محمد آصف، محمد فیصل، محمد
احسان بروہی(اومنی گروپ)، محمد عمران،محمد اقبال ولد ٹیغ داؤد،محمد جعفر،
ودود انجینئرنگ، محمد جہانگیر یوسف(ڈریلنگ کارپوریشن)، محمدجلال،محمد جاوید
علوی، محمد مختار احمد(منیجر سندھ بینک)،محمد مشتاق ولد عبدالعزیز،محمد
نعیم،محمد نثار شیخ (آپریشن منیجر سمٹ بینک)، محمد قادر ولد عبدالصمد،
محمدردیف قریشی ولد محمد ظریف قریشی، محمد رفیق قریشی، محمد رشید ولد سلیم
الدین، محمد ساجد ولد محمد افضل، محمد شبیرولد محمد اسحاق، محمد شہزاد عالم
ولد محمد اختر عالم، محمد سہیل ولدعبدالرشید، محمد طاہر محمود،محمد توصیف
ولد محمد رفیق، محمد وسیم بلڈر،محمد یٰسین ولدمحمد قاسم،محمد یونس
قداوی(پارک لین پرائیویٹ)، محمد موسیٰ ولد عبدالستار،محمد یوسف عباسی ولد
فاجو خان،محمدیوسف ایدھی(پنک ریزیڈنسی)،مکیش چاولہ، مصطفی ذوالقرنین
ماجد(اومنی گروپ)، ندیم احمد خان(پیراماؤنٹ لیڈر)، ندیم الطاف(گروپ ہیڈ
سندھ بینک)،ندیم انور الیاس(ہیڈکارپوریٹ این بی پی)،ندیم حاکم،غلام حاکم
دین، ریاض لاجی(دبئی)،نویداقبال ولد محمد اقبال، نزلی مجید،نمر
مجیدخواجہ(اومنی گروپ)، نثار احمد شیخ(سیکرٹری فنانس)، قاسم علی شاہ، راؤ
محمد خالد ولد راؤ محمد عتیق، صاحبزادہ رحمان ذیشان سیف الدین ولد سربلند،
سید آصف محمود (ٹیکنومین کنیٹک پرائیویٹ لمیٹڈ)،سجاول خان ولد محمد
افضل،سجاد حسین، سجاد عباسی، سلیمان ولد شمیم احمد، ثاقب سومرو (سیکرٹری
یوٹیلائزیشن)، ستار احمد، سعد سمیر ولد محمد یاسین، شبیر وزیرخان ولد
وزیرخان،شاہد علی ولد محمد صدیق، شاہد علی ولد محمد سلطان، شہزادہ کامران
انصاری، شیخ فیض الرحمان ولد غفور الحق،شیخ وقار احمد ولد شیخ
اصغرعلی،شیرمحمد مغیری ولد رمضان مغیری، سراج شاہد ولد محمد شاہد، سہیل
انور سیال، سہیل راجپوت(سیکرٹری فنانس)، سید علی رضا (صدر این بی پی)، سید
عارف علی (ٹیکنومین کنیٹک پرائیویٹ لمیٹڈ)،سید اسد عباس زیدی ولد توقیر
حسین زیدی، سید کاشف رضا ولد سیدعلی اعجاز، سید مراد علی شاہ، سید نصرت علی
ولد سید ثروت علی، علی حسن زرداری ولد میر خان زرداری، سید شاہ نواز نادر
ڈائریکٹر ایس ٹی ڈی سی، سید ضمیر حیدر (سیکرٹری انڈسٹریز)کے نام شامل ہیں۔
قارئین ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی کوئی بڑاین آر او ہونے والا ہے ہماری ماضی
کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔ اﷲ پاک پاکستان پراپنا کرم فرمائے۔ |