اگر ہم خالق ِ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی
کو شش کریں تو ایک بہت بڑی حقیقت جہر بار سامنے نظر آتی ہے حقیقت کے چہرے
سے جب بھی نقاب سرکتا ہے تو ہر راز روشن مہتاب کی طرح کھلتاہے کہ حق تعالیٰ
کے جتنے بھی بڑے انسان ایسے انسان جنہوں نے لاکھوں انسانوں کی راہنمائی
مشعل نور کی طرح کی انہیں خاص فطری مزاج صبر استقامت جنون مستقل مزاجی کی
صفات سے نواز نے کے بعد بچپن اور جوانی میں ایسا ماحول اور حالات دئیے کہ
اُس عظیم انسان کے باطن میں پنہاں غیر معمولی صفات کھل کر سامنے آسکیں ‘
انسان کی شعور پختگی اُسی وقت بیدار اور پروان چڑھتی ہے جب وہ خاص ماحول سے
گزرے ‘ یہ اس طرح ہے جس طرح جب تک تانبے یاکسی دھات کو پگھلا نہیں دیا جاتا
اُسے آگ میں پگھلا کر کندن نہیں بنایا جاتا اُس کا گند کثافت صاف نہیں ہو
تی اِسی طرح انسان بھی جب مصائب الام کی بھٹی سے نہیں گزرتا اُس کی فطری
صلاحیتیں بیدار نہیں ہو تیں ‘ قدرت کے اِس عظیم اصول کے تحت تاریخ انسانی
کی سب سے بڑی صنف نازک کی قلندرہ مجاہدہ رابعہ بصری ؒ کو بھی بچپن نو عمری
اورپھر جوانی میں مشکلات کے سلگتے جھلستے ریگستان سے گزارا گیا ‘ اُس کے
مزاج کے اندر صبر اورشکر کی پختگی پیدا کی گئی اور پھر جب اِن تمام حالات
سے سرخرو ہو کر نو عمر رابعہ بصری نکلتی ہیں تو پھر روز محشر تک کے لیے
عورتوں کی سرتاج اور قلندروں کی سرخیل نظر آتی ہیں ‘ رابعہ بصری بچپن سے ہی
صابر اور محنتی تھیں رابعہ کا مالک تمام مالکوں کی طرح ایک سخت گیر ظالم
اور سفاک انسان تھا جو غلاموں کنیزوں کو صرف کام کرنے والے بوجھ اٹھا نے
والے جانوروں سے زیادہ عزت نہیں دیتا تھا اُس کی سخت گیری کا یہ عالم تھا
کہ ایک کام کہتا ابھی وہ کام ختم نہیں ہو تا تو دوسرا کام کہہ دیتا ‘ رابعہ
ؒ کو چین کا ایک لمحہ بھی نہیں دیتا ہر وقت مصروف رکھ کر اُس کی بری فطرت
کو سکون ملتا لیکن اُس کا پالا نسل انسانی کی عظیم قلندرہ سے پڑا تھا جو
اُس کا ہر کام خندہ پیشانی محبت اور صبر سے کرتی چلی گئی ‘ مالک کی سخت
گیری اور سارا دن جانوروں کی طرح سخت کام کر نے کے باوجود بھی رابعہ بصری ؒ
کا ذوق ِ بندگی کم نہ ہوا بلکہ جیسے جیسے وہ جوانی کی حدود میں داخل ہو تی
گئی ویسے ویسے اُس کا عبادت ریاضت مجاہدے روزوں کا ذوق انہماک بڑھتا چلا
گیا ‘ دن بھر کے کام کاج کے بعد شدید تھکاوٹ کے بعد رات کو آرام کر نے کی
بجائے وہ زیادہ ذوق شوق سے عبادت کر تی بلکہ دن میں قضا ہونے والی نمازوں
پر خدا سے معافی مانگتی اگر ہم رابعہ بصری ؒ کا بچپن اورجوانی دیکھتے ہیں
تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ رابعہ پر رنج و الم حزن و
ملال کا بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا ‘ غموں اور مشکلات کی شدت نے رابعہ ؒ کو
دنیا ‘ دنیا داری ‘ رشتوں ‘ ناطوں سے بے گانہ کر دیا تھا اِسی جذبہ بیگانگی
نے پھر فقیروں کے عظیم زیور بے نیازی کی شکل اختیار کر لی ‘ یہی بے نیازی
اور دنیا سے دوری رابعہ ؒ کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ۔ حضرت رابعہ بصری ؒ نے
دنیا اور اہل دنیا کی اپنی زندگی سے نفی کر دی ۔ دنیا سے علیحدگی اختیار کر
نے کے بعد انسان خود بخود تنہائی سے دوستی لگا لیتا ہے دنیا سے علیحدگی
خلوت گزینی کے بعد رابعہ بصری ؒ نے خالقِ کائنات سے دوستی لگا لی ‘ فطری
رجحان بچپن سے تھا خلقت گزینی میں جب خالق اور کائنات پر غور کیا کثرت
عبادت نے دل و دماغ کے زنگ جب دور کئے تو خدا اور اُس کا عشق نکھرتا چلا
گیا کیونکہ اِ س کائنات کا سب سے سچا اور اٹوٹ رشتہ تو ایک ہی ہے اور وہ ہے
خالق اور بندے کا تعلق اور عشق ‘ پھر رابعہ نے بھی خالق ِ کائنات سے رشتہ
جوڑ لیا ایسا رشتہ جو ازل سے ابد تک قائم رہنا ہے ایک ملحد اپنے بنانے والے
کے وجود سے تو انکار کر سکتا ہے مگر اُس کی بندگی کے سرکل سے باہر نہیں جا
سکتا ہر دور کے فرعون نے یہ دعویٰ ضرور کیا کہ میں ہی عوام کا رب ہوں لیکن
تاریخ کے اوراق چیخ چیخ کر اعلان کر تے ہیں کہ ہر فرعون بھی آخر میں کائنات
کے اکلوتے خالق کی بندگی کا اقرار کر تا ہے ‘ اصل مسئلہ تو اقرار کا ہے جب
کوئی منکر اقرار کر لے تو پھر بندگی میں ذوق اور مزا بھی آنے لگتا ہے انکار
کی صورت میں بھی بندہ رہتا تو اُسی کا ہی ہے لیکن انکار کی صورت میں راندہ
درگاہ کہلاتا ہے ‘ رابعہ بصری ؒ چونکہ فطری طور پر خدا کی بندی اور ولیہ
تھیں شدید مشکلات گر م تیز آندھیوں میں وہ بھٹک سکتی تھیں راستہ بھول سکتی
تھیں لیکن خالق نے زندگی کی ہر مشکل اورکڑے وقت میں رابعہ ؒ کی نگہداشت کی
‘ اُس کی راہنمائی کی اُس کو صبر اور استقامت دی۔ اور پھر رابعہ بصری ؒ خدا
کی مدد کے سہارے زندگی کے آگ برساتے پتھر برساتے دریا سے گزر کر بارگاہِ
الٰہی میں پہنچیں تو بے اختیار پکار اٹھیں بس تو ہی ہے اور تیر ے سوا میرا
کوئی نہیں ہے تو میرا عشق میں عاشق ‘ تو خدا میں تیری بندی‘ اب زندگی کی ہر
سانس تیری بندگی تیرے عشق کی آنچ میں سلگتے ہو ئے ہی گزرے گی اگر ہم رابعہ
بصری ؒ کی عبادت کے ذوق پر نظر ڈالیں تو ایک چیز واضح ہو تی ہے وہ ہے عشقِ
الٰہی‘ اگر ہم رابعہ بصری ؒ کی رنج و الم سے بھر پور زندگی کا مطالعہ کر تے
ہیں تو یہ تصویر ابھر کرسامنے آتی ہے کہ رابعہ بصری ؒ میں جو بے نیازی ‘ہجر
کا گداز ‘ عبادت کا دیوانہ وار ذوق یہ اُسی عشق کا نتیجہ ہے جو رابعہ بصری
ؒ کو حق تعالیٰ سے ملا حب الہٰی اورعشق کے گداز میں عاشقوں کی سردار ہمیں
رابعہ ؒ ہی نظر آتی ہیں ‘ رابعہ بصری ؒ نے رنج و الم مشکلات مصائب کی پل
صراط پر ننگے سر ننگے پاؤں چلتے ہوئے جو استقامت جو مستقل مزاجی دکھائی ہے
یہ حب الٰہی عشق ِ الٰہی کے گداز کا نتیجہ ہے ورنہ کس میں ہمت ہے کہ زندگی
کے ہر سانس کی قیمت دیتے ہو ئے جسم و روح لہو لہان بھی ہو اور کوئی شکوہ
بھی نہ کر ے ‘ حق تعالیٰ سے محبت کی آنچ اتنی شدید تھی کہ امر بیل کی طرح
ہر سانس کے ساتھ رابعہ ؒ کے رگ و پے سے لپٹی رہتی ‘ رابعہ کی رگوں میں
ہڈیوں کے گو دے میں خون نہیں تھا بلکہ حب الٰہی کی اکسیر تھی عشق ِ الٰہی
کا گداز اورغم ہجرتھا‘ جس کی شدت سے رابعہ بصری ؒ ہر وقت اداس پریشان ملول
غم زدہ رہا کرتی تھیں ‘ زندگی میں شاید ہی کسی نے رابعہ کی آنکھوں کو خشک
دیکھا ہو ورنہ ہر وقت رابعہ کی آنکھوں میں ہجر کے غم کا گداز سمندر ٹھاٹھیں
مارتا رہتا ‘ خدا سے عشق ‘ جدائی اورہجر کا غم ہر وقت رابعہ کی ہڈیوں کو
چاٹتا رہتا اگر کبھی کوئی رابعہ بصری ؒ کے سامنے دوزخ کا ذکر کر دیتا تو
شدت غم سے رابعہ بصری ؒ بے ہو ش ہو جاتیں ‘ پھر ہوش میں آنے کے بعد مسلسل
روتی رہتیں اور تو بہ کر تی رہتیں ‘ یہ تو سب دیکھنے والے دیکھتے کہ رابعہ
ؒ کی سجدہ گاہ ہمیشہ آنسوؤں کی نمی سے گیلی رہتی ‘ ابھی رابعہ ؒ اپنے مالک
کی کنیزی میں ہی تھی کہ ایک رات رابعہ بصری ؒ کے کمرے میں روشنی جل رہی تھی
‘ مالک اچانک اٹھا تو حیران ہو اکہ کنیز کے کمرے کی روشنی کیوں جل رہی ہے
تو دبے قدموں آگے بڑھا کہ سبب جانے کہ کنیز ابھی تک کیوں جاگ رہی ہے مالک
نے کھلے دروازے سے دیکھا کنیز حالت سجدہ میں اُس کی دبی دبی سسکیاں وقت کو
ارتعاش بخش رہی تھیں ‘ ایک معلق نو ر رابعہ ؒکے سر پر فروزاں تھا رابعہ ؒ
دنیا جہاں سے بے خبر خشوع و خضوع سے اپنے خالق کی عبادت میں مشغول تھی ‘
مالک کی حیرت میں اضافہ ہو گیا آہستہ سے آگے بڑھا کان لگا کر سنا تو کنیز
انتہائی رقت آمیز لہجے میں خدا کو فریاد کر رہی تھی ‘ سسک سسک کر کہہ رہی
تھی خدا یا اگر میرے بس میں ہو تا تو چوبیس گھنٹے تیری بارگاہ میں حالت
عبادت میں گزارتی لیکن تو جانتا ہے میں کسی کی محکوم ہوں اُس کی محکومی نے
مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں دن کی بجائے رات کو تیری بارگاہ میں آکر عبادت
کروں ‘ میری یہ معذرت قبول فرما اور میری غیر حاضر ی کے گناہوں کو اے میرے
محبوب رب معاف کر دے ‘ کنیز کی گریہ زاری دیکھ کرپتھر دل مالک کا دل پگھل
گیا ساری رات جاگتا رہا ‘ صبح مودب ہو کر رابعہ ؒ کے سامنے پہنچا اور بولا
آج سے تم آزاد ہو تو رابعہ بولی میں آزادی کی قیمت ادا نہیں کر سکتی تو
مالک بولا میری زیادتیوں کے لیے مجھے معاف کر دو اور میرے حق میں دعا کر تی
رہنا ۔ |