حیات ،افکار وخدمات کاتذکرہ
حضرت شیخ کے مواعظ انتہائی پر اثر ہوتے تھے،آپ کے مواعظ آج بھی دلوں کو
روشن کرتے ہیں۔ آپ کے کلام میں جو تاثیر موجود تھی
ایک طویل مدت گذر جانے کے بعد اب بھی ان میں وہی تازگی اور زندگی محسوس کی
جاسکتی ہے۔یوم وفات کی مناسبت سے خصوصی تحریر
مولانامحمدجہان یعقوب
شاہ عبدالقادر جیلانیؒ ایران کے صوبہ’’ گیلان‘‘ میں ۴۷۰ھ میں پیدا ہوئے،
جسے عربی میں ’’جیلان‘‘کہاجاتا ہے،اور اسی وجہ سے آپ ؒ ’’جیلانی ‘‘کہلاتے
ہیں۔ آپ کا نسب سیدنا حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے،یعنی آپ
حسنی سید ہیں۔
۱۸ سال کی عمر میں آپ اس وقت بغداد تشریف لائے اور تحصیل علم میں مشغول
ہوگئے۔آپ کے اساتذہ میں ابوالوفاءؒ ابن عقیلؒ ، محمد بن الحسن الباقلانیؒ
اور ابو زکریا تبریزیؒ جیسے نامور علماء اور بُلند ہستیاں شامل ہیں۔طریقت
کی تعلیم اپنے وقت کے بلند پایہ شیخ ابو الخیر حماد بن مسلم الدباسؒ سے
حاصل کی، بغداد کے اکثر مشائخ اور صوفیہ انہی سے وابستہ تھے، مریدین کی
تربیت میں شیخ ابو الخیرؒ اپنی مثال آپ تھے۔ طریقت کی تعلیم کی تکمیل قاضی
ابو سعید مخرمیؒ سے کی اور انہی سے اجازت حاصل کی۔
علوم کی تکمیل کے بعد لوگوں کی اصلاح اور ہدایت کی طرف متوجہ ہوئے، ایک ہی
وقت میں درس بھی دیتے اور لوگوں کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام دیا کرتے تھے۔
اپنے مشفق اُستاد قاضی ابو سعید مخرمیؒ کے مدرسے میں تدریس اور وعظ و ارشاد
کا سلسلہ شروع کیا، لوگوں کے آپ کی طرف رجوع کا یہ عالم تھا کہ مدرسہ کی
عمارت کی جگہ مجالس کے لیے چھوٹی پڑ گئی۔ گویا کہ بغداد آپ کے مواعظ سننے
کے لیے ٹوٹ پڑا۔یہ وہ زمانہ تھا جب بغداد پر عباسی خلفاء کی حکمرانی قائم
تھی۔ جس وقت آپ بغداد تشریف لائے اس وقت خلیفہ مستظہرباﷲ ابوالعباس کا عہد
تھا، عباسی خلفاء میں سے پانچ آپ کی نظروں کے سامنے یکے بعد دیگرے مسند
خلافت پر بیٹھے۔ سلجوقی سلاطین اور عباسی خلفاء کی باہمی کشمکش اس زمانے
میں اپنے عروج پر تھی، خلیفہ اور سلطان کے لشکروں میں باقاعدہ معرکہ آرائی
ہوتی اور مسلمان ایک دوسرے کا بے دریغ خون بہاتے۔ان حالات میں آپ نے
انتہائی دلسوزی کے ساتھ وعظ و ارشاد، دعوت و تربیت، لوگوں کی اصلاح اور
تزکیۂ قلوب کا کام پوری ہمت اور طاقت سے شروع کیا اور لوگوں کو دین کی اصل
تعلیمات کی طرف متوجہ کرنا شروع کیا۔
شیخ موفق الدین ابن قدامہ، صاحبِ ’’مغنی‘‘ کہتے ہیں:میں نے کسی شخص کی آپ
سے بڑھ کر دین کی وجہ سے تعظیم ہوتے نہیں دیکھی۔ وقت کے بادشاہ اور وزراء
بھی آپ کی مجالس میں انتہائی عقیدت کے ساتھ حاضر ہوتے اور عام لوگوں کی طرح
ادب سے بیٹھ جاتے، یہاں تک کہ علماء و فقہاء بھی آپ کی مجالس میں حاضری کو
سعادت سمجھتے تھے۔
ایک حرادہ نامی بزرگ گذرے ہیں جنہوں نے بڑی طویل عُمر پائی اور بہت سے
بزرگوں کی صحبت اٹھائی ہے، فرماتے ہیں: ’’میری آنکھوں نے شیخ عبد القادر سے
بڑھ کر کوئی خوش اخلاق، بلند حوصلہ، شریف، نرم دل، محبت اور تعلقات کا لحاظ
رکھنے والا نہیں دیکھا، آپ اپنے اونچے مرتبے اور وسعتِ علم کے باوجود چھوٹے
کی رعایت فرماتے، بڑے کی توقیر کرتے، سلام میں پہل کرتے، کمزوروں کے ساتھ
اُٹھتے بیٹھتے، غریبوں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے۔ضرورت مندوں اور محتاجوں
کی مدد اور انہیں کھانا کھلانے کا آپ کو خاصا ذوق تھا۔ آپ کا حکم تھا کہ
رات کو وسیع دستر خوان بچھے ، خود مہمانوں کے ساتھ کھانا تناول فرماتے،
کمزوروں اور غریبوں کی ہم نشینی فرماتے طلبہ کے ساتھ بہت تحمل کا معاملہ
فرماتے، ہر شخص یہ سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی ان کا مقرب، اور ان کے یہاں
معزز نہیں، ساتھیوں میں سے جو غیر حاضر ہوتا، اس کا حال دریافت فرماتے،
تعلقات کا بڑا پاس اور لحاظ فرماتے لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر
کرتے، اگر کوئی کسی بات پر قسم کھالیتا تو اس کو مان لیتے اور جو کچھ حقیقت
حال جانتے تھے اس کا اخفاء فرماتے۔
شیخ الاسلام عزالدینؒ بن سلامؒ اور امام ابن تیمیہؒ کا قول ہے کہ شیخ کی
کرامات تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہیں (یعنی کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا)
ان میں سے سب سے بڑی کرامت مردہ دِلوں کی مسیحائی تھی، اﷲ تعالیٰ نے آپ کے
دل کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی رُوحانی زندگی عطا
فرمائی، اور عالم اسلام میں ایمان و روحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ شیخ
عمر کیسانیؒ فرماتے ہیں کہ کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہودی اور
عیسا ئی اسلام قبول نہ کرتے ہوں، راہزن، قاتل اور جرائم پیشہ توبہ سے مشرف
نہ ہوتے ہوں اور غلط عقائد والے اپنے غلط عقائد سے توبہ تائب نہ ہوتے ہوں۔
ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے اور لوگوں کی اصلاح و تربیت میں ہمہ تن
مشغول ہونے کے باوجود آپ درس و تدریس، افتاء، عقائد کی اصلاح اور مذہب اہل
سنت کی نصرت و حمایت سے غافل نہ تھے۔ عقائد و اصول میں امام احمد ابن حنبلؒ
اور محدثین کے مسلک پر تھے، اہل سنت کے مذہب اور سلف صالحین کے مسلک کو آپ
سے بڑی تقویت پہنچی، آپ کی اصلاحی کوششوں کی بدولت اعتقادی و عملی بدعات کا
بازار سرد ہوگیا، متبعین سنت کی شان آپ کی وجہ سے بڑھ گئی اور اُن کا پلڑا
بھاری ہوگیا۔مدرسہ میں ایک سبق تفسیر کا، ایک حدیث کا، ایک فقہ کا اور ایک
اختلافِ ائمہ اور اُن کے دلائل کا پڑھاتے تھے، صبح وشام تفسیر، حدیث، فقہ،
مذاہب ائمہ، اصول فقہ اور نحو کے اسباق ہوتے، ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم
ہوتی، اس کے علاوہ افتاء کی بھی مشغولیت تھی، بالعموم مذہب شافعی اور مذہب
حنبلی کے مطابق فتویٰ دیتے۔آپ ؒ استقامت کا پہاڑ تھے، کامل اتباع، راسخ علم
اور غیبی تائید نے آپ کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ حق و باطل اور نور و
ظلمت کی پہچان میں آپ کو پورا امتیاز حاصل ہوگیا تھا، آپ پر یہ حقیقت پوری
طرح کھل گئی تھی کہ شریعت محمدی اور حرام و حلال میں قیامت تک کے لیے تغیر
و تبدل کا امکان نہیں جو اس کے خلاف دعویٰ کرے وہ شیطان ہے۔
آپ نے نفاق اور دنیا سے محبت کی تحقیر و تذلیل، ایمانی شعور کے احیاء،
عقیدہ آخرت کی یاد دہانی اور اس دنیائے فانی کی بے ثباتی کے مقابلہ میں
ہمیشہ کی زندگی کی اہمیت، اخلاق کی درستگی، توحید خالص اور اخلاق کامل کی
دعوت پر سارا زور صرف کیا۔حضرت شیخ کے مواعظ انتہائی پر اثر ہوتے تھے۔ فتوح
الغیب اور الفتح الربانی کے مضامین اور مختلف مجالس میں آپ کے مواعظ آج بھی
دلوں کو روشن کرتے ہیں۔ آپ کے کلام میں جو تاثیر موجود تھی ایک طویل مدت
گذر جانے کے بعد اب بھی ان میں وہی تازگی اور زندگی محسوس کی جاسکتی ہے۔آپ
کے وعظ اور مضامین سامعین اور مخاطبین کے حالات و ضروریات کے موافق ہوتے
تھے۔ عام طور پر لوگ جن روحانی بیماریوں میں مبتلا اور جن غلط عقائد میں
گرفتار ہوتے تھے آپ کے مواعظ میں ان کا ازالہ کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کے
لوگ آپ سے بہت عقیدت رکھتے تھے اور آپ کے ارشادت میں اپنے زخموں کا مرہم،
اپنے مرض کی دوا اور اپنے سوالات و شبہات کے جوابات پاتے تھے۔ آپ کی زبان
سے نکلا ہوا ہر لفظ دل سے نکلتا اور دل پر اثر کرتا تھا۔آپ کے کلام میں بیک
وقت شوکت و عظمت بھی ہے اور دل آویزی و حلاوت بھی۔حضرت شیخؒ کے زمانے میں
مسلمانوں کے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھا، لوگوں نے معبود حقیقی کے بجائے
مختلف انسانوں اور ہستیوں کو نفع و ضرر کا مالک سمجھ لیا تھا، اسباب پر نظر
رکھنے کی وجہ سے رب حقیقی سے نگاہ ہٹ گئی تھی، ایسی فضا میں آپ نے لوگوں کو
توحید خالص کی طرف دعوت دی اور انہیں باور کرایا کہ قضاء و قدر کا مالک اﷲ
رب العزّت ہے، چنانچہ ایک مجلس میں توحید و اخلاق اور اﷲ کے سواء سے انقطاع
کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:’’اس پر نظر رکھو جو تم پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے
سامنے رہو جو تمہارے سامنے رہتا ہے، اس سے محبت کرو جو تم سے محبت کرتا ہے،
اس کی بات مانو جو تم کو بُلاتا ہے، اپنا ہاتھ اسے دو جو تم کو گرنے سے
سنبھال لے گا، اور تم کو جہل کی تاریکیوں سے نکال لے گا اور ہلاکتوں سے
بچالے گا، نجاستیں دھوکر میل کچیل سے پاک کرے گا، تم کو تمہاری پست ہمتی،
بدکار نفس اور گمراہ کن رفیقوں سے نجات دے گا‘‘۔ایک دوسری مجلس میں اسی
توحید کے مضمون کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:’’ساری مخلوق عاجز ہے، نہ کوئی
تم کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، بس حق تعالی اس کو ان کے ہاتھوں کرادیتا
ہے، اسی کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے اندر تصرف فرماتا ہے، جو کچھ تیرے
لیے مفید ہے یا مضر ہے اس کے متعلق اﷲ کے علم میں قلم چل چکا ہے اس کے خلاف
نہیں ہوسکتا، جو مؤحد اور نیکو کار ہیں، وہ باقی مخلوق پر اﷲ کی حجت ہیں
بہادر وہی ہے جس نے اپنے قلب کو ماسوائے اﷲ سے پاک بنایا اور قلب کے دروازہ
پر توحید کی تلوار اور شریعت کی شمشیر لے کر کھڑا ہوگیا کہ مخلوقات میں سے
کسی کو بھی اس میں داخل نہیں ہونے دیتا اور اپنے قلب کو مقلّب القلوب سے
وابستہ کرتا ہے، شریعت اس کے ظاہر کو تہذیب سکھاتی ہے اور توحید و معرفت
باطن کو مہذب بناتی ہیں۔
اس قدر عظیم شخصیت ہونے کے باوجود حد درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے
غریبوں فقیروں سے محبت کرتے اور اُن کے پاس بیٹھتے لیکن اس کے برعکس کسی
معزز اور ارکانِ سلطنت کی تعظیم ان کے جاہ و منصب کی وجہ سے نہیں کی، حتیٰ
کہ خلیفہ بھی آپ کی مجالس میں باقاعدگی سے حاضری دیتا تھا لیکن جب بھی
خلیفہ کے آنے کا وقت ہوتا آپ قصداً دولت خانے تشریف لے جاتے تاکہ خلیفہ فخر
و مباہات کے حوالے سے کبھی کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہے، نیز اپنی پوری
زندگی میں کبھی کسی وزیر یا بادشاہ کے دروازے پر نہیں گئے۔
آپ کے مؤثر مواعظ سے اہل بغداد کو عظیم الشان روحانی اور اخلاقی فائدہ
پہنچا اور ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا ہوگئی لیکن مستقل تربیت
کے لیے مسلسل اصلاحی کوششوں کی ضرورت تھی۔ اس چیز کی شدید ضرورت تھی کہ
مسلمانوں میں یہ فکر پیدا کی جائے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں، دینی ذمہ
داریوں کو احساسِ ذمّہ داری کے ساتھ قبول کریں، ان کے افسردہ دلوں میں پھر
محبت کی گرمی پیدا ہو اور ان کو کسی مخلص پیشواا ور خداشناس پر اعتماد ہو
تاکہ وہ اپنے روحانی امراض اور نفسانی خواہشات کا علاج اور دین میں صحیح
روشنی و رہنمائی حاصل کریں۔ اربابِ خلافت اپنے فرائض سے غافل ہوچکے تھے،
دین سے دوری کی وجہ سے وہ اس قدر متنفّرہوگئے تھے کہ کسی نئی اصلاحی تنظیم
یا نئی دعوت کو جس میں قیادت اور سیاست ساتھ ساتھ ہو، برداشت نہیں کرسکتے
تھے اور اس کو فوراً کچل دیتے تھے۔ایک طویل مدت تک دنیا کو اپنے کمالات
ظاہری و باطنی سے مستفید کرکے اور مسلمانوں میں روحانیت اور رجوع الی اﷲ کا
ذوق پیدا کرکے ۵۶۱ھ میں ۹۰ سال کی عمر میں وفات پائی۔
٭٭٭٭٭ |