میرئے ہاتھ میں اِس وقت انوارِ رضا جو کہ ممتاز محقق
اسلامک سکالر محترم ملک محبوب الرسول قادری کی زیر ادارات شائع ہونے والے
مجلے کی خصوصی اشاعت حضرت داتا علی ہجویری ؒ نمبر ہے۔جناب ملک محبوب الرسول
قادری صاحب نہایت محبت فرماتے ہیں اور ناچیز کو انوار رضا مرحمت فرماتے
ہیں۔داتا علی ہجویریؒ کا فیضان پوری دُنیا میں ایک ہزار سال سے جاری و ساری
ہے۔لاہور کی سرزمین کا نام ہی داتاؒ کی نگری ہے۔اﷲ کی رحمتوں کا نزول ہر
ساعت ہر لمحہ جناب داتا علیٰ ہجویریؒ کے دربار پر ہورہا ہے۔صدیوں سے داتا
گنج بخشؒ کے فیضان سے خلق خدا استفادہ کر رہی ہے۔ داتا صاحبؒ کو عالم اسلام
میں انتہائی اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
اب ہم انوار رضا مجلے کے خصوصی نمبر جو کہ داتا علی ہجویریؒ کے حوالے سے ہے
کا ذکر کرتے ہیں۔
اِس خصوصی نمبر کے صفحہ65 پر مرکز ابلاغِ توحید و رسالت کا باب ہے۔اِس باب
میں ڈاکٹر محمد نعیم انور کا خصوصی مقالہ بعنوان عقیدہ توحید کے فروغ میں
حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ کا کردار موجود ہے۔ڈاکٹر محمد نعیم انور لکھتے
ہیں کہ کشف المجوب کا پہلا جملہ ہی اثبات ِ توحید کے لیے کافی و شافی ہے جو
کہ یہ ہے۔ " اے ہمارے رب اپنی بارگاہ سے ہم پر رحمتیں نازل فرما اور ہمارے
معاملے میں ہمیں راہِ راست کی توفیق عطا فرما اور اﷲ ہی ہر خوبی کا سزاوار
ہے" اِسی باب میں سنت نبوی ﷺ کی پابندی ( کشف المجوب کی روشنی میں) ممتاز
محقق عالم دین جناب مفتی محمد خان قادری کا تحریر کردہمضمون ہے۔اِسی باب
میں محبت الہی میں رموزِ عشق اور کشف المجوب جناب ڈاکٹر محمد شاہ کھگھہ
کالکھا ہوا مقالہ ہے۔اِسی طرح جناب سید وجاہت رسول قادری کا مرتب کردہ کا
مضمون گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا بھی اپنی شان شوکت کے ساتھ موجود ہے۔
اِس کے بعد صفحہ نمبر ایک سو سات پر بارگاہِ فیض عالم دانش گاہ تصوف کا باب
ہے۔ اِس میں سموئل لسٹن ولیم اے کا لکھا ہے مضمون جس کا ترجمہ جناب مولانا
عبدالمجید سالک نے کیا ہوا ہے وہ برصغیر کے تبلیغ اسلام کے علم بردار کے
عنوان سے ہے۔اِسی طرح تذکرہ داتا گنج بخش علی ہجوئری ؒ ، محمد طفیل ہجویری
قادری کے نام سے مضمون ہے۔میاں محمد سلیم حماد ہجویری قادری کا آرٹیکل
بعنوان حضرت سید علی ہجویری کی تصانیف کے نام سے ہے۔ آگے چل کر علامہ پیر
محمد اسلم رضوی کا آرٹیکل حغرت سید علی ہجویریؒ کا تصور علم ہے۔ اِسی چیپٹر
میں جناب ملک محبوب الرسول قدری کا مقالہ بعنوان تصوف اور مرشد عصر۔۔ حضرت
علامہ اقبال ؒ کے فکری زاوئیے ہے۔ظفر مجید کا تحریر کردہ مضمون حضرت داتا
گنج بخش ہجویری ؒ اور محمد سلیم شرقپوری کا تحریر کردہ مضمون حضرت علی
ہجویری ؒ ہے۔
اِس خصوصی نمبر کا اگلا باب مخزن معرفت و عرفان حق کے عنوان سے ہے۔اِس باب
کی حسن ترتیب اِس طرح ہے۔مرشد کلاں داتا علی ہجویری ؒ جو ملک محبوب الرسول
قادری اور حضرت داتا گنج بخش ؒ جو کہ مولانا عبدالماجد دریا آبادی کا تحریر
کردہ شامل ہے۔اِسی طرح مفتی کفایت احمد رتوی کا مضمون حضرت داتا گنج بخش ؒ
بھی اِسی باب کی زینت ہے۔جناب علامہ حافظ محمد محسن قادری کا مقالہ سیدی
فیض عالمؒ کا اسلوب حیات اور منہج افکار بھی اِسی حسن ترتیب میں شامل
ہے۔داتاؒ کی نگری سے مراد ہمیشہ لاہور شہر لیا جاتا ہے۔ حضرت سید علی
ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ؒ لاہور میں ایک ہزار برس سے آسودہ خاک
ہیں خاک میں آسودہ عظیم ہستی ساری دھرتی کو اپنے فیضان سے آسودہ کیے ہوئی
ہے۔ حضرت داتا علی ہجویریؒ کی تعلیمات اور آپؒ کی روحانیت نے اِس سر زمین
پر بُت پرستی کی بجائے ایک اﷲ پاک کے نام کو عام کیا۔ اِس دھرتی کے عوام کو
محبت کے ذریعے سے اﷲ پاک کے ساتھ ملایا۔اِس لیے اِس کفرستان میں اسلام کی
ترویج و اشاعت میں جناب حضرت داتا گنج بخش ؒ کی تعلیمات نے وہ کردار ادا
کیا جو کسی بڑئے سے بڑئے لشکر والے سے بھی نہ ہوسکتا تھا۔ داتا علی ہجویریؒ
کی تعلیمات آپ کا حسن سلوک اِس بات پر مہر ثبت کرتا ہے کہ اسلام بزور شمشیر
نہیں پھیلا بلکہ یہ توا ولیاء اکرام کے فیضان نظراُن کے حسن سلوک کا ہی تو
نتیجہ ہے۔
آج کے اِس دور میں جب ہر طرف لوٹ مار کی دھائی ہے اب بھی آپ اگر داتا علی
ہجویریؒ کے مزار شریف پر تشریف لے جائیں تو وہاں کوئی شخص بھوکا نہیں رہے
گا۔ چوبیس گھنٹے لنگر کا انتظام ہوتا ہے۔ یوں دُنیا کی سب سے بڑی این جی اؤ
تو حضور داتا علی ہجویری ؒ کے دم سے قائم دائم ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگ
اپنا پیٹ اِس آستا نے سے بھرتے ہیں۔ کروڑوں روپے کیش کی صورت میں محکمہ
اوقاف کو بھی یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر ملتے ہیں جس سے صوبے بھر کے
مزارات کی دیکھ بھال ہوتی ہے اور جو مساجد سرکاری تحویل میں ہیں اُن کا
انتظام انصرام بھی چلایا جاتا ہے۔داتا علی ہجویریؒ کا فیض ہے جہاں ہر کسی
کو جو بھی اُن کے در پر آتا ہے اُسے پیٹ بھر کر کھانا دیتا ہے بلکہ اِس
مزار مبارک کی بدولت بہت بڑی معاشی سرگرمی پیدا ہوتی ہے جس کا فائدہ بھی
عوام الناس کو ہی ملتا ہے ۔
اِس خصوصی نمبر میں جس کا تذکرہ ہو رہا ہے مصدر انوار، تصرف ، فیضان، ارادت
اور افکار کے عنوان سے بھی ابواب شامل ہیں۔فیض عالمؒ کی فیض رسانیاں ،
اعترافِ عظمت، بہارِ عقیدت کے تحت ابواب بھی اِس خصوصی اشاعت کی زینت
ہیں۔سات سو بیس صفحات پر مشتمل اِس عظیم تحقیقی اشاعت کو دُنیا بھر کی ہر
لائبریری میں موجود ہونا چاہیے۔پاکستان میں خاص طور داتا علی ہجویریؒ کی
تعلیمات کے فروغ کے لیے اُردو زبان میں ایک نایاب کام کیا گیا ہے اِس کی
قدر کرنی چاہیے ۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہجویری چیئر قائم ہے اِس خصوصی نمبر
کی کاپیاں اِس چیئر کے بینر تلے طلبہ و طالبات تک بہم پہنچایا جانا ازحد
ضروری ہے۔جہاں جہاں حضرت علی ہجویریؒ کی تعلیمات پر تحقیقی کام ہورہا ہے
وہاں وہاں اِس خصوصی اشاعت کی دستیابی ہونی چاہیے۔ محکمہ اوقاف پنجاب کو
بھی چاہیے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ کے حوالے سے اِس تحقیقی کا کو سرائے جانے
کے لیے خصوصی پروگرام مرتب کرئے اور اِس اشاعت خصوصی کومحکمہ اوقات تعلیمی
اداروں کی لائبریروں کی زینت بنائے۔ ناچیز کی کیا بساط ہے کہ وہ اِس عظیم
تحقیقی کام پر کچھ لکھے۔ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہی جو حضرت داتا علی ہجویری
ؒ کی خدمت اقدس میں پیش کر دئے ہیں۔ اﷲ پاک ملک محبوب الرسول قادری جیسی
نابغہ روزگار ہستی کی اِس عظیم مساعی کو قبول فرمائے آمین۔ |