قرآن پاک میں سورة فرقان اور
سورة ق میں اصحاب رس کے متعلق بیان ہو ا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو ان
کی نافرمانی اور نبی ؑ کو قتل کرنے پر تباہ وبرباد کردیا تھا۔ عربی زبان
میں رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ عرب کی روایات میں الرُس کے نام سے دو مقام
معروف ہیں ۔ ایک نجد میں اور دوسرا شمالی حجاز میں ۔ ان میں نجد کا الرُس
زیادہ مشہور ہے ۔لیکن یہ تعین کرنا بہت مشکل ہے کہ اصحاب الرُس ان دونوں
جگہ میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے۔
اس قوم کی ملکیت ایک کنواں تھا جس سے انکا پورا شہر اور ان کے مویشی سیراب
ہوتے تھے۔اس کنویں میں ان لوگوں کے لئے بہت سی برکات تھیں اور بہت سے لوگ
اس کنویں کی نگرانی کیا کرتے تھے ۔ اس کنویں پر سنگ رخام کے بہت بڑے بڑے
برتن رکھے ہوئے تھے جو حوضوں کے مشابہ تھے، لوگ ان میں سے پانی بھر بھر کر
اپنے گھروں کو لے جاتے تھے۔ ان کے پاس اس کنویں کے علاوہ پانی حاصل کرنے کا
اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔اس قوم پر علبس نام کا ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا،
جو بہت ہی نیک اور عادل انسان تھا۔اس بادشاہ نے کافی طویل عمر پائی ۔
جب یہ بادشاہ مر گیا تو ان لوگوں نے اس کی لاش پر ایک قسم کا روغن مل دیا
تاکہ لاش گلنے سڑنے نہ پائے کیونکہ ان لوگوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب ان کی
قوم کا کوئی معزز آدمی مر جاتا تو اس کی لاش پر ایک قسم کا روغن مل دیا
جاتا تھا تاکہ اس کی لاش گلنے سڑنے سے محفوظ رہے۔ بادشاہ کی موت کے بعد ان
کی سلطنت میں فساد برپا ہوگیا جس سے یہ غمزدہ ہوگئے اور بہت سے لوگ رونے
لگے۔ پس شیطان کو اس قوم کو گمراہ کرنے کا موقع مل گیا اور شیطان ،بادشاہ
کے مردہ جسم میں گھس کر کہنے لگا کہ میں مرا نہیں ہوں اور کبھی مروں گا
نہیں۔ شیطان نے ان لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے درمیان سے اس لئے غائب ہوا
ہوں، تاکہ تمہیں دیکھوں کہ تم میری عدم موجودگی میں کیا اعمال کرتے ہو ؟
لوگ یہ دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور قوم کے ممتاز لوگوں نے حکم دیا کہ بادشاہ
اور قوم کے درمیان پردہ ڈال دیا جائے تاکہ بادشاہ پردے کے پیچھے سے کلام
کرتا رہے۔
قوم کے معزز لوگوں نے بادشاہ کا مردہ جسم پردے کے پیچھے رکھ دیا ، اس سے
آواز آنے لگی کہ نہ میں کھاتا ہوں اور نہ پیتا ہوں اور نہ ہی مجھے کبھی موت
آئے گی اور میں ہی تمہاراخدا ہوں۔ یہ آواز شیطان کی تھی جو بادشاہ کے مردہ
جسم میں گھسا ہو ا تھا اور بادشاہ کے لہجے میں قوم سے کلام کرتا تھا۔لوگوں
کی بڑی تعداد نے شیطان کی تصدیق کی اور بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس
پر شک کا اظہار کیا۔ جب کوئی مومن بندہ قوم کے لوگوں کو نصیحت کرتا کہ یہ
شیطان کی کارستانی ہے لہٰذا تم اس کی تصدیق نہ کرو تو لوگ اس کو ڈانٹ ڈپٹ
کر خاموش کردیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس قوم میں کفر اور بت پرستی کا آغاز
ہوگیا۔اس قوم کی نافرمانی جب اپنے عروج پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان
کی طرف ایک نبی بھیجا ، جس پر خواب میں وحی نازل ہوتی تھی ان کا نام حضرت
حنظلہ بن صفوان علیہ السلام تھا۔
حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام نے قوم کو بتایا کہ یہ بادشاہ مرچکا ہے
،اس میں روح نہیں ہے۔ شیطان نے تمہیں گمراہ کردیا ہے ، اللہ تعالیٰ کسی
مخلوق کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتا۔ تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ اس مردہ
بادشاہ کو اللہ کا شریک بناﺅ۔ حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام اس قوم کے
لوگوں کو وعظ اور نصیحت کرتے رہے اور انھیں اللہ کے عذاب سے بہت ڈرایا،
لیکن اس قوم کے لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان کے دشمن بن گئے ۔
ایک دن انھوں نے ایک کنواں کھودا اوراس میں اللہ کے نبی ؑ کو پھینک کر شہید
کردیا۔ اس قوم نے سرکشی اور نافرمانی کے ساتھ ساتھ جب اللہ کے نبی ؑ کو
شہید کردیا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر اس طرح نازل ہوا کہ رات کو جب اس
قوم کے تمام لوگ کھا پی کر آرام سے سوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کنویں کو
جو، ان کے پانی حاصل کر نے کا واحد ذریعہ تھا خشک کردیا ۔ یہ لوگ جب صبح کو
بیدار ہوئے تو انھیں معلوم ہوا کہ کنواں خشک ہو چکا ہے۔ اس طرح اس قوم کے
تمام مرد ، عورتیں ، بچے اور انکے جانور پیاس کی شدت سے ہلاک ہوگئے اور اس
کے بعد ان کی بستی درندوں کا مسکن بن گئی اور بستی کے تمام باغات خار دار
جھاڑیوں میں تبدیل ہوگئے۔(ماخوذ: حیات الحیوان ج ۲۔ حوالہ تفہیم القران
سورة ق)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب رس کا تذکرہ فرما کر لوگوں کو اپنے
رسول کی نافرمانی سے ڈرایا ہے اور ان کو غیرت دلائی ہے۔ ماضی میں جب بھی
لوگوں نے اللہ اور اسکے رسولوں کی نافرمانی اور بے ادبی کی اور انکی بتائی
ہوئی باتوں کو جھٹلایا ان پر عذاب ِ الٰہی نازل ہو ا ہے ۔آج بھی انسانوں کی
عبرت کے لئے دنیا میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جیسے سونامی ،
سیلاب، زلزلہ وغیرہ وغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا اور پیارے نبی حضرت
محمد ﷺ کا فرمانبردار بنائے اور انکے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ہم سب مسلمانوں میں بھائی چارگی، محبت ، اتفاق اور ایثار پیدا
فرمائے ۔ آمین! |