تحریر: عائشہ یاسین
سال بھر کے ادھم پیل کے بعد 31 دسمبر کا دن بھی گزر گیا۔ خود کو بحیثیت
قوم، پچھلے سال کو نظر انداز کرتے ہوئے آنے والے سال میں داخل ہوتے ہوئے
پایا۔ دنیا کے دیگر ممالک کی روش اختیار کرتے ہوئے ہم نے اس کی خوشیاں
منانے کا انعقاد کر رکھا تھا۔ کہیں کیک اور محفل کا انتظام تھا تو کہیں
میوزیکل نایئٹ کا اہتمام تھا۔ جو یہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتا تھا اس نے
موٹرسائیکل کے سائلنسر نکال پھینکے تھے کیوں کہ سب نے اپنے اپنے حصے کی
خوشیاں منانے کا عزم کررکھا تھا۔ گوکہ اسلحہ اور آتش بازی پر پابندی ہے پر
پھر بھی جتنے اچھے انتظامات آتش بازی کے تھے اس کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ
پاکستان دنیا کے کسی ملک سے ہرگز کم یا پیچھے نہیں۔
چوں کہ 31 دسمبر کا سورج بروز پیر کی شام غروب ہوا اس لیے دوسری صبح ورکنگ
ڈے کے طور پر گزارنا تھا اور ہمارے جوش جنوں دیکھ کر لگ نہیں رہا تھا کہ یہ
رات آج سو پائے گی۔ خیر ہم ساری دنیا کے ہمراہ اس نئے سال میں داخل ہوگئے
ہیں۔ پر ٹھہریے! کیا دیگر ممالک کی طرح ہم نے نئے سال کی منصوبہ سازی کر
بھی رکھی ہے یا ڈھول کی تھاپ پر ناچتے ناچتے داخل ہوئے جارہے ہیں؟ ہم
بحیثیت قوم کیا ہم نے تو ایک فرد واحد کے طور پر کچھ بھی تو نہیں سیکھا ہے۔
پچھلے سال کے مایوس کن اور ناکام لمحوں سے اور نہ ہی ان نوازشوں سے جو ہم
پر ہمارے رب نے باندھ رکھی ہیں بلکہ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ ہم مسلمان
قوم ہیں اور ہمارا سال نو محرم الحرام سے آغاز ہوتا ہے جب یہ ساری کائنات
تشکیل پائی تھی۔ ہم سب بھول گئے ہیں یا ہم سب بھول جاتے ہیں کیونکہ ہمارے
نزدیک یہ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جن سے ہم آئے دن اپنا دامن بھرتے
رہتے ہیں۔ ہم نے شور شرابا ناچ، گانا اپنا طور طریقہ بنا لیا ہے۔ ہم سمجھنے
لگے ہیں کہ ناچ گانا کرنا ہی خوشی کی علامت ہے۔ کیا ایسا ہے؟ کبھی سوچا کہ
ہم اپنی نسل کو ورثے میں کیا دے کے جارہے ہیں کہاں گئے ہمارے ادب و آداب
طور طریقے؟ روایتوں کی خوبصورتی اور رشتوں کا پاس؟ کیا ریت روایتیں صرف
فرسودگیوں کی علامت ہوتی ہیں؟ کیا ان میں کوئی مثبت پہلو نہیں ہوتا؟ یہ صرف
ذہنی بے ضابطگی ہے۔
ایک بیمار سوچ کہ بندہ اپنے اخلاقیات اور دین کے قواعد کو فراموش کرکے
دوسروں کی چال چلنے لگے۔ ہم عوام کیا ہماری حکومت بھی بھول گئی ہے کہ ہمارا
کلچر اور روایات ہر طور پاکستانی ہی رہنی چاہیے ورنہ اس دوغلے پن کی منافقت
میں ہماری نسل اپنی ساخت تک کو پہچاننے سے قاصر ہوجائے گی۔ ذرا سوچیے اس سے
پہلے کہ وقت کا دھارا سب کچھ بہالے جائے۔ اﷲ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو آمین۔
|