دنیا کی پہلی انتہائی زیرو کاربن عمارت

دنیا کی پہلی انتہائی زیرو کاربن عمارت
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

اس وقت دنیا قابل تجدید توانائی کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو مسلسل بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ہر ملک کی کوشش ہے کہ پائیدار ترقی کے حصول اور موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین چیلنج سے نمٹنے کی خاطر قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی حمایت کے لئے بنیادی ڈھانچہ قائم کیا جائے۔دنیا کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہو چکا ہے کہ قابل تجدید توانائی ایک ایسا شعبہ ہے جو پالیسی پر مبنی ہے۔لہذا نہ صرف پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے بلکہ عملی اقدامات سے انہیں ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح توانائی کی ماحول دوست منتقلی کی حمایت کرنے کے لئے مزید افرادی قوت اور تکنیکی مہارت کی ضرورت بھی لازمی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

اس ضمن میں چین ، توانائی کے نئے نظام میں مسلسل اصلاحات پر عمل پیرا ہے ، جو واقعی لائق تحسین ہے۔ 2024 میں چین نے صاف توانائی کے شعبے میں 625 ارب امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جو عالمی مارکیٹ کا ایک تہائی حصہ ہے۔ عالمی سطح پر سب سے بڑے توانائی صارف اور صاف توانائی سرمایہ کار کی حیثیت سے، چین نے مسلسل ایک دہائی سے شمسی اور ونڈ پاور کے تنصیبی مراکز میں اپنی عالمی قیادت برقرار رکھی ہے۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین کا عالمی قابل تجدید توانائی میں حصہ 2010 کے 18 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 32 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

قابل تجدید اور ماحول دوست توانائی کے شعبے میں نت نئی اختراعات بھی چین کو دنیا میں نمایاں مقام پر فائز کرتی ہیں۔اس کی ایک تازہ ترین مثال ،دنیا کی پہلی انتہائی زیرو کاربن عمارت کا صوبہ شانڈونگ کے شہر چنگ داؤ میں آپریشنل ہونا ہے، جو ملک میں زیرو کاربن تعمیرات کی کوششوں میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ یہ 117 میٹر بلند دفتری عمارت، جس میں روزانہ 6,000 کلو واٹ گھنٹے بجلی کی کھپت ہوتی ہے، 100 فیصد سبز توانائی کے متبادل کے حصول کے لیے جدید ترین ہائی ٹیک حل سے لیس ہے۔

چھت پر لگے شمسی پینل روایتی عمارتوں کے برعکس، اس ڈھانچے میں مشرق، جنوب اور مغرب کے رخ پر عمارت میں مربوط فوٹو وولٹائک گلاس کی دیواریں نصب ہیں۔یہ براہ راست ڈائریکٹ کرنٹ بجلی فراہم کرتی ہیں، جس سے توانائی کے ضائع ہونے میں کمی آتی ہے اور عمارت کی توانائی کی ضروریات کا 25 فیصد حصہ پورا ہوتا ہے۔ کاربن اخراج کی سالانہ بچت 500 ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔عمارت توانائی کے ذخیرہ کے لیے ریٹائرڈ الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں استعمال کرتی ہے۔ استعمال شدہ الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریاں فوٹو وولٹائک گلاس دیواروں سے پیدا ہونے والی اضافی توانائی کو ذخیرہ کرتی ہیں اور گرڈ سے صاف توانائی کا اضافی حصہ آف پیک اوقات میں فی کلو واٹ گھنٹہ محض 0.22 یوآن کی کم قیمت پر جذب کرتی ہیں۔

ذخیرہ شدہ توانائی کو پھر زیادہ طلب کے اوقات یا سورج کی روشنی کم ہونے کی صورت میں عمارت کی بجلی کے بوجھ کو متوازن کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔عمارت کے اندر، تقریباً 24 ہزار مائیکرو سینسرز نے سوئچوں کی جگہ لے لی ہے، جو روشنی، ایئر کنڈیشنرز اور لفٹوں کے خودکار آپریشن کو ممکن بناتے ہیں۔

چین کے سب سے بڑے الیکٹرک وہیکل چارجنگ پائل نیٹ ورک آپریٹرز میں سے ایک "ٹی ایل ڈی نیو انرجی" کے مطابق سبز بجلی استعمال کر کے، سالانہ تقریباً 2,500 ٹن کاربن اخراج کی بچت ممکن ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن نے عمارت کی سرمایہ کاری کی لاگت میں 20 سے 30 فیصد کمی لائی ہے، آپریشنل کارکردگی میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے، اور توانائی کی کھپت میں تقریباً 30 فیصد کمی کی ہے۔

عمارت میں دنیا کا پہلا مکمل خودکار ہائی اسپیڈ عمودی پارکنگ سسٹم بھی نصب ہے۔ایک اعلیٰ درستگی کے ٹریک سسٹم اور گیئر ڈرائیون کنٹرول ٹیکنالوجی سے لیس، یہ انوویٹو سسٹم گاڑیوں کی تیز اور درست حرکت ممکن بناتا ہے، جہاں ہر گاڑی 35 سیکنڈ کے اندر مخصوص جگہ پر پارک ہو جاتی ہے۔

یہ پارکنگ سسٹم ایک انقلابی وہیکل ٹو گرڈ ٹیکنالوجی بھی شامل کرتا ہے، جہاں کھڑی الیکٹرک وہیکل گاڑیاں عمارت کے پاور سسٹم سے جڑ جاتی ہیں۔تاحال، 300 گاڑیاں، جو روزانہ 10 کلو واٹ گھنٹے فی گاڑی بجلی فراہم کرتی ہیں، عمارت کی توانائی کی مانگ کا تقریباً نصف پورا کر سکتی ہیں۔

قابل تجدید توانائی کے شعبے میں چین کا یہ اقدام جہاں مثبت اور تعمیری ہے وہاں قابل تقلید بھی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا چین کے اس کامیاب ماڈل سے سیکھتے ہوئے زیرو کاربن عمارتوں کی جانب تیزی سے بڑھے گی اور چین کا "حوالہ" دنیا کے کام آئے گا۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1599 Articles with 866089 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More