سیلاب: پانی کا قہر یا حکمرانوں کی بے حسی؟ تحریر: سیدہ گیلانی۔۔۔آسٹریلیا
(Syeda F Gilani, Adelaide)
سیلاب: پانی کا قہر یا حکمرانوں کی بے حسی؟ تحریر: سیدہ گیلانی۔۔۔آسٹریلیا پاکستان میں سیلاب اب قدرتی آفت سے زیادہ انسانی غفلت کا المیہ بنتا جا رہا ہے۔ 2010 سے 2022 تک لاکھوں انسان بے گھر، ہزاروں جانیں ضائع اور اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے، مگر حکمرانوں کی ترجیحات آج بھی فوٹو سیشن اور بیانات تک محدود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پانی کا قہر بڑا ہے یا اقتدار کی بے حسی؟ پانی کے ریلے یا نااہلی کے ریلے؟ 2010 کے سیلاب کو اقوامِ متحدہ نے اُس وقت کی سب سے بڑی انسانی تباہی قرار دیا تھا۔ اس میں تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے، 1700 سے زائد جاں بحق ہوئے اور ملکی معیشت کو 43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ 2022 میں تاریخ نے خود کو دہرا دیا۔ اس بار 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور 8 لاکھ گھر تباہ ہو گئے۔ پاکستان کو مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔راقم نے ان دنوں پاکستان کا سفر کیا تو تباہی مناظر دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔سرراہ ایک کسان سے اس کی سر گزشت سنی جس کا کہنا تھا کہ،"پانی سب کچھ بہا لے گیا، زمین بھی، فصل بھی اور بچوں کا مستقبل بھی۔" اقتدار کا کھیل اور عوام کی بربادی سیلاب کے بعد بڑے بڑے اعلانات ہوتے ہیں، اربوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں، لیکن ان کی شفافیت ہمیشہ مشکوک رہتی ہے۔ وزراء اور نمائندے متاثرہ علاقوں کا دورہ ضرور کرتے ہیں مگر یہ دورے فوٹو سیشن سے آگے نہیں بڑھتے۔اسی تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے ایک شہری کا کہنا تھا کہ، "ہم پانی کے ریلوں سے بچ گئے، مگر حکمرانوں کی غفلت نے ہمیں ڈبو دیا۔" حل موجود، مگر نیت کہاں؟ دنیا کے کئی ممالک نے سیلابی نقصانات کو کم کرنے کے لیے مضبوط پشتے، جدید وارننگ سسٹم اور ڈیمز تعمیر کیے۔ بنگلہ دیش نے اپنی پالیسیوں سے مثال قائم کی۔ لیکن پاکستان میں منصوبے صرف تقریروں اور فائلوں میں قید ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر صرف ڈیموں اور پشتوں کی بروقت مرمت کر لی جائے تو 30 سے 40 فیصد تک نقصانات کم ہو سکتے ہیں۔ عوام کا کردار، حکومت کی غیر موجودگی ریاست جب بے بس دکھائی دیتی ہے تو عوام ہی ایک دوسرے کے سہارا بنتے ہیں۔ 2022 کے سیلاب کے دوران فلاحی تنظیموں نے دن رات کام کیا، نوجوانوں نے اپنی جیب سے متاثرین تک خوراک اور دوائیاں پہنچائیں، بیرونِ ملک پاکستانیوں نے کروڑوں ڈالر عطیات بھیجے۔ لیکن سوال یہ ہے: حکومت کہاں تھی؟ آنے والے دنوں کا خطرہ ماحولیاتی ماہرین خبردار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان مستقبل میں ان دس ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہوں گے۔ بارشوں کی شدت مزید بڑھے گی، گلیشیئر تیزی سے پگھلیں گے اور سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھتی جائیں گی۔اس کے باوجود حکومت کی بےحسی انسانی عقل سے ماورا ہے کیونکہ ایل ِ اقتدار طبقہ بھی تو انسانوں میں سے ہی تو ہے۔ اگر وقت پر آنے والے سیلابوں سے نبر آزما ہونے کا صرف خیال ہی کر لیا جائے تو کچھ نہ کچھ بچت تو ہو ہی سکتی ہے، لیکن ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کیونکہ حکمران طبقہ عوام الناس کے مصائب سے صرف الیکشن کے دنوں میں واقف ہو تا ہے اس کے بعد ان کے ووٹ کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔ اس سارے منظر کو سامنے رکھنے کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ اگر وقت پر منصوبہ بندی کی لی جاتی تو پچھلے دنوں راولپنڈی ، شمالی علاقہ جات اور کراچی میں شاید اتنی بڑی تباہی سے بچا جاسکتا تھا جس کا سامنا اب عوام اور حکومت دونوں کو ہے۔ ________________________________________ 📊 Fact Box • 2010 کا سیلاب: 2 کروڑ متاثرین، 1700 اموات، 43 ارب ڈالر نقصان۔ • 2022 کا سیلاب: 3.3 کروڑ متاثرین، 1700 اموات، 8 لاکھ گھر تباہ، 30 ارب ڈالر نقصان۔ • 45 فیصد متاثرہ خاندان آج بھی مستقل رہائش سے محروم ہیں۔ • پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔ ________________________________________ اس میں کچھ شک نہیں کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، مگر ان کے اثرات کو کم کرنا انسان کے ہاتھ میں ہے۔ حکمرانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کے زخم صرف تصویروں اور بیانات سے نہیں بھرے جا سکتے۔ عملی اقدامات، شفاف پالیسی اور نیک نیتی ہی اس ملک کو تباہی کے دہانے سے بچا سکتی ہے۔ ورنہ تاریخ یہی لکھے گی: "پاکستان میں سیلاب سے زیادہ خوفناک چیز حکمرانوں کی بے حسی تھی۔" |
|