سوشل میڈیا کے معاشرتی اثرات
(Syeda Khair-ul-Bariyah, Lahore)
|
انسانی روابط کی تاریخ اگر محض ایک جملے میں رقم کرنی ہو تو یہ لکھنا کافی ہو گا کہ جب سے انسان ہے تب سے روابط ہیں۔ کبوتر کے ذریعے پیغام ہو یا کسی مقام پہ کوئ نشان چھوڑنا ہو، انسان یہ ازل سے ثابت کرتا رہا ہے کہ وہ رابطوں کا محتاج ہے۔ گاؤں کی پنچائیت، خط و کتابت، لوگوں کے ذریعے پیغام کے تبادلے، اور کئ سالوں سے ملاقات کا بہانہ بناتی ہوئی دعاوتیں، یہ سب معاشرتی نظام کو چلانے اور زندگیوں کو جوڑنے کا کام کرتی رہی ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی ٹیلی گرام اور پھر ٹیلی فون نے روابط کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔بلآخر آیا جدید ٹیکنالوجی کا دور جہاں ورلڈ وائیڈ ویب کی مدد سے رابطے حیرت انگیز طور پر تیز ہوۓ اور آج انٹر نیٹ کے ذریعے روابط تیز اور مسلسل ہیں۔ واٹس ایپ، انسٹاگرام، فیس بک، ٹویٹر، اور دیگر ویب سائٹس کی موجودگی نہ صرف روابط بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوئی ہیں بلکہ فوری معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بھی ہیں۔ ان تمام برقی پیغامات کے تبادلوں کو مجموعی نام سوشل میڈیا کا دیا گیا۔ اب فاصلے کوئ معنی نہیں رکھتے۔ آپ خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں، اپنے دوستوں اور خاندانی افراد کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا سہل ہو چکا ہے۔
سوشل میڈیا علم و آگہی کا ذریعہ ہے۔ نہ صرف تعلیمی مواد، تا ز ہ ترین خبروں، تحقیقی مقالات اور تربیتی ویڈیوز تک مفت رسائی ممکن ہے، بلکہ سوشل میڈیا ہر طرح کے معاشرتی مسائل پر شعور بیدار کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ آن لائن کاروبار کا رجحان سوشل میڈیا ہی کی مرہون منت ہے۔ کورونا کے دور میں چھوٹے کاروبار بھی عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوۓ۔ جس دور میں لوگوں کے لیے گزر بسر کرنا محال ہو گیا تھا اور بہت سے خاندان اپنا ذریعہء روزگار کھو چکے تھے وہاں آن لائن کاروبار کے ذریعے کئ سفید پوش لوگوں نے اپنی زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کی کامیاب کاوش کی۔
سوشل میڈیا محض تفریح کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ اظہار راۓ کا بھی پلیٹ فارم ہے۔ روز مرہ کے واقعات، سماجی و سیاسی ناانصافیوں اور انسانی حق تلفی کے بڑھتے ہوۓ مناظر نے لوگوں میں آگاہی بیدار کی ہے اور اپنی آراء کا اظہار باآسانی وہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کر سکتے ہیں۔ کوئ ظلم چھپا نہیں رہ سکتا اور کوئی بھی زیادتی عیاں ہونے میں لمحہ نہیں لگتا۔ سوشل میڈیا سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی تحریکوں کو تقویت دینے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔
جہاں سوشل میڈیا کے معاشرتی زندگی پہ مثبت اثرات ہیں، وہیں یہ خاص طور پر نوجوان نسل کی توجہ کو دیمک کی طرح کھاتا جا رہا ہے۔ تمام دن بے مقصد سکرولنگ ان کی تعلیمی کارکردگی کو تنزلی کا شکار بنانے کی اہم وجہ ہے۔ افراد مجموعی طور پر اس کو نشے کی حد تک استعمال کرتے ہیں جو ان کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ مقا بلہ بازی بڑھتی جا رہی ہے جو نفسیاتی مسائل میں مسلسل اضافے کا باعث ہے۔ لائکس اور فالوورز کی دوڑ ذہنی دباؤ پیدا کرتی ہے۔ نیز چمک دمک، حسن اور دولت کی نمائش ڈپریشن، تنہائی، اور کم اعتمادی میں اضافے کی شرح بڑھانے کا باعث بنی ہے۔
محض توجہ حاصل کرنے کے لیے اور "ویوز" بڑھانے کی خاطر بہت سی افواہیں اور گمراہ کن معلومات بھی تیزی سے پھیلتی ہیں جو سماجی انتشار کا ذریعہ بنتی ہیں۔ کہنے کو بہت سے دوست اور فالوورز سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں لیکن درحقیقت انسانی زندگی اتنی ہی تنہائی کا شکار ہے۔ حقیقی ملاقاتوں اور خاندانی وقت کو ور چوئل محفلوں میں تبدیل کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ حقیقی دنیا سے کٹتے جا رہے ہیں۔
زیادہ تر نوجوان اور دیگر افراد احساس کمتری کا شکار ہیں جو انہیں غیر مقامی ثقافتوں کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ پھر وہ منفرد اور اپنی سوچ میں برتر لگنے کے لیے ہر فیشن اور روایت اپناتے ہیں جس سے بسا اوقات بے حیائ اور منفی اقدار پروان چڑھتے ہیں۔
سوشل میڈیا کو مکمل طور پر شر یا خیر کے لبادے میں نہیں تصور کیا جا سکتا۔ اس کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ شعور کو بروۓ کار لاتے ہوۓ اس کا اعتدال سے استعمال اہم مقاصد حاصل کرنے میں احسن ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کی مثبت شکل لوگوں تک پہنچانے اور اپنی ثقافت کی خوشبو دنیا میں پھیلانے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر فہم کو روشن رکھا جاۓ تو سوشل میڈیا معاشرتی ترقی کا بہترین ذریعہ ہے، بصورت دیگر یہ معاشرتی مسائل اور سماجی بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔
|
|