اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں کو جس طرح اشرف
المخلوقات پر نچھاور کیا ہےاسکے مقابلے میں اگر انسان کی طرف دیکھا جائے تو
اسنے ان نعمتوں کی ناقدری کرنے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔اسی طرح اللہ
کی ایک نعمت سائنس وٹیکنالوجی بھی ہے۔سائنس وٹیکنالوجی کی بہت سی عجیب و
غریب ایجادات ہیں جن کے اپنے اپنے فوائد ہیں۔ان ہی میں سے ایک ایجاد
معاشرتی ابلاغ(سوشل میڈیا) بھی ہے۔یہ ایک ایسی ایجاد ہیکہ جس کا استعمال
بہت کثیرہے۔اوراسکے استعمال کے طرز کے مختلف ہونے سے اسکی نوعیت بھی مختلف
ہو جاتی ہے،غرض یہ کہ اگر ہم سکو اچھا استعمال کریں تو یہ رحمت کا روپ دہار
لیتی ہے اور اگر ہم اسکو غلط استعمال کریں تو یہ زحمت کا لبادہ اوڑھ کر
سامنے آتی ہے۔
جیسےسوشل میڈیا کے فوائد کو موضوع سخن بنایا جاتا ہے ویسے ہی ہمیں چاہیے کہ
ہم انکے نقصانات پر بھی لب کشائی ضرور کریں۔ان ایجادات سے جہاں انسان طرقی
کی منزلیں طہ کر سکتا ہے تو وہیں وہ اسکے بے جا اور فضول استعمال سےناکامی
کی پستی کی طرف بھی دھکیلا جا سکتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کچھ
حالات کے تقاضے بھی ہیں لیکن ہمیں حالات کا ساتھ اسلام کی حدود میں رہتے
ہوئے دینا ہوگا۔
لوگ زیادہ تر سوشل میڈیا میںyoutube,Facebook,twitterوغیرہ کواستعمال کرتے
ہیں،اسلیے کہ اگر کسی جماعت کے افکار کو پھیلانا ہویا کسی کے خلاف
پروپیگنڈہ کرنا ہو،کسی کا دامن صاف قرار دینا ہو یا کسی کو داغ دار بنانا
دینا ہو،کسی کو بلندیوں تک پہنچانا ہویا کسی کو تحت الثریٰ میں دہنسانا
ہو،کسی کی اچھائی کوپھیلانا ہو یا کسی کی برائی سے پردہ اٹھانا ہو،کسی
حقیقت کے اوراق سے گرد اڑانی ہو یا کوئی افسانہ لوگوں کو ذہن نشیں کروانا
ہو تو آپکو سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم دکھائی دے گا۔اور اسکی بدولت خبر
لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کو چھو جاتی ہے۔ لیکن جہاں یہ
مفید معلومات کا ایک بہتری ذریعہ ہے وہیں بے بنیاد باتوں کی تشہیر کا ایک
خطرناک آلہ بھی۔
اس ایجاد سے پوری دنیا نے ایک گاؤں کی سی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے،آپ کسی
ملک،کسی بھی وقت نہایت آسانی سےاپنےعزیزوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ آپ اس
کے ذریعےتعلقات اور دوستوں میں اضافہ کر سکتے ہیں لیکن ایک طرف یہ صورتحال
دیکھنے کو ملی تو دوسری طرف یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہیکہ انسان کوکبھی
اسی مشغولیت میں اپنوں کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ٍاس معاملے میں ہمیں احتیاط
کرنی چاہیے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اسکو مثبت استعمال نہیں کرتے،اوراسکی لغویات میں
اپنا قیمتی وقت برباد کرتےہیں۔اسکا آزادانہ استعمال بے حیائی کو فروغ دیتا
ہے،ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اسکی ایجاداس مقصد کے لیے نہیں ہیکہ ہم اسکے ذریعے
اپنی نمود و نمائش کریں،ہم غیر شرعی دوستیاں قائم کریں،دوست بنانا اچھی بات
ہے لیکن جس دوستی سے اسلام نے منع کر دیا تو وہ دوستی کرنا شرم و حیاء کے
فقدان پر دلالت کرتی ہے۔ہم معاشرتی ابلاغ (سوشل میڈیا)پر تو ہمدرد وپیکر
اخلاق دکھتے ہیں کیا ہماری معاشرتی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔۔۔؟اگر ہم آج اہل
شعور وبصیرت کی عقل مستعار لے کر چند لمحوں کے لیے جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی
معلوم ہو جائے کہ اگر یہ ہی سلسلہ جاری رہا تو ہماری بربادی میں زیادہ وقت
نہیں لگے گا۔
لیکن اگر سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو اسکے بہت فوائد ہیں،مثلا
ہم اسکے ذریعے اپنا مثبت پیغام دنیا کے کونے تک پہنچا سکتے ہیں،اس سے لوگوں
کی راہنمائی کی جا سکتی ہے،اسکے توسط سے ہم لوگوں میں علمی شعور کی روح کو
زندہ کر سکتے ہیں،اسکے ذریعے ہم لوگوں کو اسلام مخالف ہتکنڈوں کی پہچان
کروا سکتے ہیں،اسکےذریعے ہم خود بھی علمی خزانے کا پتہ حاصل کر سکتے
ہیں،اور اپنے مذہب کی تعلیمات کو ان لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جو دین اسلام
کو پسند تو کرتے ہیں لیکن انکو اس سے روشناس نہیں کرایا گیا،جسکی وجہ سے وہ
بھٹکے پھر رہے ہیں۔اگر ہم خود کو بدلنے کا ارادہ کر لیں تو ہماری کامیابی
کا ایک مرحلہ پورا ہو جائے گا،اگلہ اور آخری مرحلہ اس ارادے پر بشرط
استقامت عمل کرنا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سائنس و ٹیکنالوجی کے ناجائز استعمال سے
ہماری حفاظت فرمائیں۔۔آمین۔۔
|