انسانیت کی تاریخ بار بار ہر بار زندہ جاویداں باب رقم
کرتے ہوئے مثالیں پیش کرتی ہے کہ اُصول اور کردار پر ڈٹ جانے والے مر کربھی
زندہ رہتے ہیں اور تاریخ کو اپنے آپ پر فخر اس لیے ہے کہ اس کی زندگی اور
قدر منزلت ایسے ہی کرداروں کو اپنے سینے پر سجاتے ہوئے چار چاند لگ جاتے
ہیں‘ ملکوں ‘ قوموں ‘ علاقوں کی تہذیب ثقافت اور تاریخ کو رقم کرتے ہوئے ان
کے کرداروں کاذکر لازمی سربلند نظر آتا ہے جو بہادری ‘ سچائی کے راستے پر
چلتے ہوئے تمام آزمائشیوں کا صبر استقامت سے مقابلہ کرتے ہیں مگر سر نہیں
جھکاتے ہیں ‘ یہی کردار اپنی اپنی سرزمین عوام اور تاریخ کا جھومرکہلاتے
ہیں ‘ اور آنے والی نسلیں ان کا حوالہ دیکر اپنا تعارف کراتے ہوئے عزت
توقیر کی حقدار بنتی ہیں ‘ آزادجموں وکشمیر راولاکوٹ کا حلقہ علی سوجل ایل
اے تین کو بھی یہ فخر بار بار مگر گزرے سال کے آخری 30 دسمبر کے دِن اعزاز
پہلے سے زیادہ عظمتوں کا حق دار بننے پر حاصل ہوا ہے کہ ایک مرد حق سیاست
کی شان سردار خالد ابراہیم کے انتقال کے بعد انکے بڑے بیٹے سردار حسن سردار
کو ممبر اسمبلی منتخب کر کے سال 5018 اپنی تاریخ کا اختتام سنہری حرف میں
رقم کر گیا ہے۔ خالد ابراہیم کی سچ سے وفا اُصولوں پر ڈٹ جانے کی پہچان
اپنی مثال آپ رہی ہے جسے ناصرف آزادکشمیر بلکہ پورے ملک میں قدر منزلت حاصل
رہی جس کی وجہ سے ایک ہی تھی کہ زرہ بھر بھی سیاسی ‘ اخلاقی ‘ معاشرتی ‘
معاشی سطح پر کمزوری کا شکار نہیں ہوئے یہ ان جیسے خودار ‘ غیرت مند حق گو
انمول ہیرہ صفت کرداروں کا بہت بڑا خاص وصف یا کمزوری ہوتی ہے کہ ان کی
مشکلات مصائب تکالیف کو بطور مثال بھی ذکر کیا جائے تو یہ اس کا بہت برا
مناتے ہیں بلکہ ایسا کرنے والے سے بات کرنا تو درکنار تعلق ہی ختم کر دیتے
ہیں وہ 73 سال کی عمر میں اپنی قدیمی جیپ خود چلاتے تھے اس کو دھکا بھی
لگتا تھا گھر میں کوئی ملازم نہیں تھا ‘ پہلے اسلام آباد والد کی کوٹھی
فروخت کر کے اس کے حصہ دار بھائیوں میں ان کا حق ادا کر کے چھوٹا گھر خریدا
پھر یہ گھر بھی انتخابی پارٹی اخراجات کا قرضہ ادا کرنے کیلئے فروخت کر دیا
اور حال یہ تھا کہ گزشتہ انتخابات سے قبل راقم نے ان کے سیل نمبر پر کال کی
تو اٹینڈ نہ ہوئی اور کچھ گھنٹے بعد مس کالی آئی جس پر کال بیک کرکے سلام
کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بھی ہمارے جیسا ہی حال ہے ‘ یہ واقعہ بار بار ہوتا
رہا یہ وہ کیفیت ہے جو بطور مثال قعطاً ہمدردی نہیں بلکہ ان کی خوداری کی
اونچائیوں کی صداقت بیان کرنا مقصود ہے جو ان کی زندگی میں نہیں کی جاسکتی
تھی یعنی دنیا سے جاتے ہوئے وہ اپنے پیچھے کوئی جائیداد بنک بیلنس اثاثے
چھوڑ کر نہیں گئے ‘ ماسوائے ایک کھٹارہ جیپ اور راولاکوٹ کا نامکمل مکان ہے
‘ اس حال میں ان کے بیٹے نے ضمنی انتخاب میں بطور اُمیدوار پارٹی خاندان کے
فیصلے کے مطابق حصہ لیا تو یہ قابل فخر ناز باپ کے غم سے کم آزمائشیں نہ
تھی جب سیاست ‘ سرمایہ اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں ‘ مصلحتوں ‘ مجبوریوں کی
غلام بن چکی ہوئی ہے ایسے میں بڑے بڑے قلعوں والی پارٹیوں کے مقابلے میں آ
جانا دیوانہ وار جذبہ ہی کر سکتا ہے اور اس کی کامیابی زوال کے سیلابوں ‘
طوفانوں میں کشتی نوح کے مصداق ہوتی ہے ‘ یعنی صرف اور صرف قدرت کی مہربانی
ہے جو خلق کے دلوں کو ان کے حق میں کھڑا کر دیتی ہے یہ خلق یقیناًخراج
تحسین سلام سے بڑھ کر جذبہ الفاظ کلمات ہوتے تو ان کی حقدار ہے ‘ جس نے
اپنی غیرت ‘ عزت کی دستار کو سربلند رکھا ہے ‘ اور اپنی تاریخ کو پھر چار
چاند لگا دیئے ہیں جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اندھیروں کے غلبے میں کردار
کی کرن سچ کی طاقت بن کر عزت وقار کی عظمتوں کی سربلندی کی حق دار بنتی ہے
مگر یہ مقدر ہر کسی کا حصہ نہیں بنتا ہے یہ تو بس خالد ابراہیم جیسے لاکھوں
میں ایک مرد ‘ درویش کی سعادت ہے جس کا فیض اس کے بیٹے کو دستار بن کر زندہ
رہتا ہے کردار کی گونج بن چکا ہے ‘ قدرت کا احسان اس سے زیادہ کیا ہو سکتا
ہے کہ حسن ابراہیم بلامقابلہ کے احسان سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنی خلق کے
اعتماد سے باوقار رکھا ہے ۔ |