وہ روشن گلیاں یاد آئیں، وہ پھول وہ کلیاں یاد آئیں
سُندر من چلیاں یاد آئیں، ہر آنکھ مدھر متوالی تھی
1947 میں نظریہ اسلام کے مضبوط نعروں سے نئی ریاست, نیا ملک, الگ پہچان,
آزادی کی فضا تو مل مگر افسوس زمین کے انسانی خدا جو لالچ, کرپشن, دھوکا,
چوری, بادشاہت, جھوٹ, کے پجاری تھے وہ بھی پاک وطن کی سر زمین پر قدم رکھنے
میں کامیاب ھو گۓ جو اس ملک کی تباہی کا سبب بن گۓ
ملک کے اصل حاکم وہاں کے عوام ہوتے ہیں۔وہ اپنے درمیان میں سے کچھ ایسے
لوگوں کا چناو کرتے ہیں جن میں خدمت اور بھلائی کا جذبہ ہو۔پاکستان میں
ہمیشہ سے سیاست ا فرد کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔مجموعی طور پر یہ افرد
معاشرے کے طاقتور طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جن میں سرمایہ دار ، جاگیر دار
یا اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔ہر دور میں مقبول نعرے عوام کو سبز باغ دکھاتے رہے
اور چند افراد عوام الناس کے حقیقی ترجمان بن کر دنیا سے ان کا سودا کرتے
رہے ہیں۔گزشتہ 70 سالوں میں پاکستانی سیاست میں نعرے تو خوب لگے اور بس
نعرے ہی تھے....
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب عوامی نیشنل پارٹی کے راہنماؤں کو پاکستان میں حراست
میں لیا گیا تو ایک ایسا شخص تھا جو بہت ہی خستہ حال تھا، اس کو گرفتار کر
کے حیدرآباد جیل لایا گیا۔
جیلر نے اس پریشان حال شخص کو دیکھا اور حقارت سے کہا کہ اگر تم عبدالولی
خان کے خلاف بیان لکھ کر دے دو تو ہم تم کو رہا کر دیں گے ورنہ یاد رکھو اس
کیس میں تم ساری عمر جیل میں گلتے سڑتے رہو گے اور یہیں تمہاری موت ہو گی۔
یہ سن کر اس شخص نے جیلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور مسکرا کر کہا
جیلر صاحب جیل میں تو شاید میں چند برس زندہ بھی رہ لوں لیکن اگر میں نے یہ
معافی نامہ لکھ دیا تو شاید چند دن بھی نہ جی پاؤں...
بہار آ کے چلی بھی گئی مگر جالب
ابھی نگاہ میں وہ لالہ زار پھرتے ہیں
اصولوں او عزم و ہمت کی اس دیوار کا نام حبیب جالب تھا۔ اور اس کو جیل میں
بھیجنے والا اپنے وقت کا سب سے بڑا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا۔
میں گزشتہ دنوں سے حیرت کا بت بنا ہوں جب میں نے بلاول بھٹو کو ذوالفقار
علی بھٹو کی برسی پر حبیب جالب کا کلام پڑھتے دیکھا اور کلام بھی وہ جو اس
نے بھٹو کے دور میں لکھا تھا۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو کہ حبیب جالب
عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر تھے اور انہوں نے بھٹو دور میں الیکشن لڑا تھا
اور الیکشن ہارنے کے بعد وہ بھٹو کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے، ان کو جیل
میں ڈآل دیا گیا اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ان کو اس کیس سے بری
کیا گیا تھا۔
جو ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی
حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی
اس نے نہ ٹھہرنے دیا پہروں مرے دل کو
جو تیری نگاہوں میں شکایت مری جاں تھی
کاش کہ بلاول کو تاریخ سے تھوڑی سی بھی آگہی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا ہے
کہ عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کا بیشتر کلام بلاول کے نانا ذوالفقار علی
بھٹو کے خلاف تھا۔ جن میں سے ایک مشہور نظم پیش خدمت ہے
میں پسرِ شاہنواز ہوں میں پدرِ بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں، میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں، میں لکھ پتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا اک جام ہوں، میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں، سارے بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں، میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو، میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں، میں قائد عوام ہوں
جب بھٹو کی برسی پر بلاول حبیب جالب کا کلام پڑھ رہے تھے تو بھٹو دور میں
ہونے والے مظالم میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ حبیب جالب پر اتنا ظلم ایوب
خان اور ضیاءالحق جیسے آمروں کے دور میں نہیں ہوا جتنا ظلم قائد عوام اور
ایک جمہوری لیڈر بھٹو کے دور میں ہوا۔ جس دن بھٹو نے حبیب جالب کو گرفتار
کروایا تھا اس دن جالب کے بیٹے کا سوئم تھا اور وہ چاک گریبان کے ساتھ جیل
میں گئے تھے اور اپنے بیٹے کی یاد میں لکھی نظم ایک تاریخی انقلابی نظم ہے
کاش کوئی یہ سب باتیں جا کر بلاول کو بتائے کہ رٹی رٹائی تقریریں کر لینا
بہت آسان ہے لیکن بہتر ہو اگر تم ان باتوں کا تاریخی پسِ منظر بھی جان لو۔
جیسی جاہل یہ قوم ہے ویسے ہی جاہل اور تاریخی حقائق سے نابلد ان کے لیڈر۔
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل
یہ ضابطہ ہے بنوں دستو بازو ۓ قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل
یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جاۓ
یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جاۓ
بیاں کروں نہ کبھی اپنی دل کی حالت کو
نہ لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت کو
کمالِ حسن کہوں عیب کو جہالت کو
جگاؤں نہ سوئ ہوئ عدالت کو
یہ دنیا داری میں مگن لوگ ہیں انکو تاریخ کے اچھے یا برۓ سے کیا مطلب یہ تو
بس اپنے نفع اور فاہدے کے لیے چلتے ہیں بے شک کسی کی زندگی تباہ ھو, کسی کا
گھر ویران ھو, کوئی اپنی جان سے جاۓ انکو کچھ مطلب نہیں یہ تو بس عوام کو
اپنی باتوں سے, خودساختہ نعروں سے پاگل بنانا ھے جو عوام شعور ؤ علم ھونے
کے باوجود بھی بن جاتے ہیں
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے ملک کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اللہ میرے پاکستان کی خیر کرے ھر رنگ ھر ڈھنگ کا مسخرہ اسے آزار پہنچانے کے
درپے ھے۔پرت در پرت نقاب اوڑھے منافق میری ماں، میری سرزمین کو دنیا کے
سامنے بے پردہ کرنے پہ تلے ھوئے ھیں۔
ایسے ممالک میں جہاں حکمران بے حس ہو جائیں تو فیصلے وقت کرتا ہے اور سب
دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
|