حدیث ۱:امام طبرانی معجم کبیر
میں بسند متصل روایت کرتے ہیں یہ حدیث بیان کی ہم سے علی بن عبدالعزیز نے
ان سے زبیر نے ان سے احمد بن سلمان انہوں نے عبدالعزیز دراوری سے انہوں نے
امام جعفر صادق بن محمد سے انہوں نے اپنے والد سے یہ حدیث سنی انَّ النبی ﷺ
بایع الحسن والحسین و عبداﷲ ابن عباس و عبداﷲ ابن جعفر و ھم صغار لم یعقلوا
و یبلغوابے شک نبی ﷺ نے بیعت فرمایا حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ
اور حضرت عبداﷲ بن عباس ؑ اور حضرت عبداﷲ بن جعفر طیارؑ کو جب کہ وہ ابھی
عاقل و بالغ بھی نہ ہونے پائے تھے ۔
حدیث ۲: عوف بن مالک اشجعی صحابی کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضور سراپا نور ہادی
عالم ﷺ کے حضور میں تھے نو آدمی یا آٹھ سات آدمی
فقال الا تبایعون رسول اﷲ ﷺ فبسطنا ایدینا و قلنا علام نبایعک یا رسول اﷲ
قال علی ان تعبدو اﷲ و لا تشرکوا بہ شیئا و تصلوا الصلوٰة الخمس و تسمعوا و
تطیعوا و اسر کلمة خفیة قال و لا تسئلوا الناس شیئاً
تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اﷲ کے رسول ﷺ سے بیعت نہیں کرتے ہو؟ تو
اس پر ہم نے ہاتھ بڑھائے اور عرض کیا کس امر پر آپ کی بیعت کریں یا رسول اﷲ
ﷺ آپ نے فرمایا ان امور پر کہ اﷲ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کچھ بھی شریک
نہ کرو اور پنج و قتہ نماز ادا کرو ہر حکم شرع سنو اور ہر حکم شرع بجا لاؤ
اورایک بات پوشیدہ طور پر ارشاد فرمائی (وہ یہ تھی کہ) لوگوں سے کوئی چیز
نہ مانگو ۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی صحابی راوی حدیث شریف فرماتے ہیں بے شک میں نے
دیکھا ان حضرات (صحابہ سے بعض کو ) جنہوں نے بیعت کی اور حضور کے مرید خاص
بنے ، کہ اگر اس کا کوڑا (چابک) گر پڑا تو بھی کسی سے نہ مانگا کہ اٹھا کر
اسے پکڑا دے ۔ (اس حدیث کو مسلم ، ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے ،
مواہب النبویہ)
فائدہ : ان دونوں حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ نابالغ اور بالغ افراد اہل بیت
اطہار وغیر اہل بیت صحابہ نے حضور ہادی عالم ﷺ سے بیعت کی ہے اور یہ بیعت
تصوف ہے ، جو سنت نبوی و سنت اہل بیت اطہار و سنت صحابہ و صلحاء سے ثابت ہے
پس بیعت طریقت یہی ہے اعمال صالحہ کے بجا لانے اور منکرات سے اجتناب کرنے
کا عہد پیمان کرنا جو لوگ بیعت طریقت کا انکار کرتے ہیں اور غیر ثابت یا
بدعت وغیرہ خیال کرتے ہیں اور کہتے کہ کافروں کو بیعت اسلام اور مسلمانوں
کو بیعت جہاد کرنا ہی کتاب و سنت سے ثابت ہے یہ بیعت طریقت کتاب و سنت سے
ثابت نہیں پس ایسے لوگ کتاب و سنت سے بے خبر اور اتباع صالحین سے محروم ہیں
، ان دونوں حدیثوں میں جس بیعت کا ذکر ہے وہ ان دو قسم کی بیعتمیں سے نہیں
اہل بیت اطہار اور اصحاب کبار کو بیعت فرمایا اور لوازمات تصوف و سلوک کا
عہد و پیمان کیا گیا ہے ۔
بیعت کا مطلب و مقصود تو یہ ہے کہ ایک مرد صالح با شرائط کو اصلاح و بندو
بست کے واسطے مقرر کرلیں سو اگر وہ ظاہری و دنیاوی بندوبست و انتظام کی
خاطر ہی ہو تو اسے امیر و امام سے تعبیر کرتے ہیں اور اگر باطن کی اصلاح و
درستی کے واسطے ہو تو اسے شیخ و مرشد کہتے ہیں یہ اس لئے کہ جب تک ظاہری و
دنیاوی بندوبست نہ ہو تو تمدن و معاش پر امن اور خوشحال بنانا ممکن نہیں
ہوتا ۔
لہٰذا اس کا اہتمام بذمہ امیر یا امام مانا گیا ہے لیکن علم عقل اور تجربات
و واقعات کی متفقہ شہادت ہے کہ جب تک باطن کی اصلاح و درستی ایک ضروری اور
لازمی حد تک نہ ہو جائے مقصد آفرنیش اور حکمت خلق کی طرف کوئی کامیاب قدم
نہیں اٹھایا جاسکتا اور جب تک اصلاح باطن بقدر کفایت نہ ہو لے ، کامل اصلاح
ظاہر کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی یہی وجہ ہے کہ سیاست باطن کے بغیر سیاست
ظاہر ہمیشہ ناکام رہی ہے ۔
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
قلت
اک علم سے آتی ہے انسان میں شیطانی
اک علم سے ہوتی ہے یہ خاک بھی نورانی
چنانچہ اﷲ کے پسندیدہ سچے اور آخری دین اسلام میں درستی باطن کی روح اور
درستی ظاہر کو جسم کا مرتبہ دیا گیا ہے اور ہمیشہ دونوں کی سلامتی اور ترقی
کی کوشش کی گئی ہے خلافت راشدہ حقہ اس کی کھلی دلیل ہے جو اسلام اور اہل
اسلام کے ظاہری باطنی عروج و بلندی کا موجب ہوا ہے اور اس کے برعکس امارت و
حکومت غاصبہ باطلہ نے اسلام اور اہل اسلام کے شیرازہ کو منتشر اور تتربتر
کردیا ، لہٰذا علماء تصوف اور سلوک کے پیشواؤں نے ظاہر و باطن کی صلاحیت
والوں کے سوا کسی کو امامت و پیشوائی کا مستحق و اہل نہیں مانا اور علماء
محققین نے اصلاح ظاہر کے واسطے اصلاح باطن کو بنیاد اور اصل قرار دیا ہے ۔
اور جب ہادی عالم حضور پیغمبر آخر زمان ﷺ سے بیعت ہونے والوں میں اصلاح
ظاہر و باطن قطعاً ثابت و محقق ہے تو دونوں قسم کی اصلاح کے واسطے بیعت
ہونا لازمی و ضروری ہے اور جس سے بیعت ہوں اگر وہ شرائط کا جامع ہے تو وہی
امام و مرشد ہے اس کی طاعت و پیروی فرض ہے ورنہ جامع شرائط ستہ نہ ہو تو
بیعت و اطاعت جائز نہیں ۔
حدیث ۳ :مشکوٰة کتاب الامارة والقضاءجلد سوم فصل اول صفحہ ۴۰۳ حضرت عبداﷲ
بن عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا
من خلع یدا من طاعتہ لقی اﷲ یوم القیمة و لا حجة لہ ط و من مات و لیس فی
عنقہ بیعة مات میتة جاھلیة (رواہ مسلم)
جو نکال لے ہاتھ امام و مرشد حق کی طاعت سے ملے گا اﷲ سے دن قیامت کے ، کہ
حجت و دلیل دین و ایمان اس کے لئے کچھ نہ ہوگی اور جو شخص اس حال میں مرے
کہ اس کی گردن میں امام و پیشوائے حق کی بیعت نہ ہو مرتا ہے جاہلیت کی موت
( غیر مسلمانہ)
فائدہ ۱: اس حدیث شریف سے ہر مسلمان کے لئے امام پیشوائے حق کی بیعت کرنا
ضروریات اور فرائض اسلام میں سے بتایا گیا ہے اور عقل سلیم بھی اس کی تصدیق
کرتی ہے کہ امور ظاہر و باطن کی تنظیم اور اصلاح بغیر اس کے ہرگز نہیں ہو
سکتی ۔
پیر را بگزیں کہ بے پیر ایں سفر
ہست بس پر آفت و خوف و خطر
فائدہ ۲ : یہ سمجھ لینے کے بعد یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ سب سے اعلیٰ
طریقہ اور ذریعہ اصلاح اور درستی کا ہے اس کے مددگار اور معاون اور بھی کئی
طریقے اور ذریعے ہو سکتے ہیں مثلاً مصاحب مجلسی کے ذریعے ، اصلاح دوست کے
ذریعے ، استاد کے ذریعے ، کتاب کے مطالعہ کے تقریری ، تحریری، مضامین کے
ذریعے ، دیگر رشتہ داروں کے ذریعے ، اس لئے ہدایت و حکمت سے بھرپور دین
اسلام نے ان سب شعبوں اور طریقوں کی اصلاح و درستی کا بیڑا بھی بنیادی اور
اصولی طور پر اٹھایا ہے اور نہایت عمدہ بندوبست فرمایا ہے مثلاً سب سے پہلا
مصاحب اور راہبر و اتالیق و استاد اور پیارا ساتھی ہمدرد و مہربان آدمی کی
والدہ (ماں) ہوتی ہے مردوں کی بیعت کے ثبوت و دلائل سے والد کی اصلاح کا
بندوبست ثابت ہو چکا ہے ۔
عورتوں کی بیعت کا ثبوت
عورتوں کی بیعت کا ثبوت آیات قرآنی سے
عورتوں کی اصلاح اور درستی ان کی نسوانی زندگی کی ظاہری ، باطنی تکمیل کے
بھی اہتمام و بندوبست کے ضمن میں والدہ وغیرہ کی اصلاح کا اصول بھی ملاحظہ
ہو ، سب جہانوں کا خالق و مالک اﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک فرماتا ہے ۔ (۸/۸۲
ممتحنہ آیت ۲۱)
اے ہماری عطا سے غیب کی خبریں دینے والے پیغمبر جب تمہارے حضور مسلمان
عورتیں حاضر ہوں اس پر بیعت کرنے کو کہ اﷲ کے ساتھ کچھ شریک نہ ٹھہرائیں گی
اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری ، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ
بہتان باندھیں گی اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان اور کسی مشروع (نیک) بات میں آپ
ﷺ کی نافرمانی نہ کریں گی تو ان کو بیعت میں قبول فرمائیے اور اﷲ سے ان کی
شفاعت فرمائیے ، بے شک اﷲ بہت بخشنے والا مہربان ہے ۔
اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوا کہ امام و پیشوائے برحق سے جس میں سب شرائط
امامت و پیشوا ہوں ، بیعت ہونا عورتوں کےلئے بھی قرآن کریم سے ثابت ہے اور
ہدایت قرآن کی مطابق اور درست ہے ۔
ان چند ضروری امور کے معاہدہ پر مشتمل بیعت اسلامی مستورات کےلئے ہو ۔
(۱)اﷲ کے ساتھ شرک نہ کرنا
(۲)چوری نہ کرنا
(۳) بدکاری نہ کرنا
(۴) اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا
(۵) اپنے ہاتھ و پاؤں کے مابین بہتان نہ باندھنا
(۶) امام و پیشوا کی کسی شرعی حکم میں نافرمانی نہ کرنا،باقی اوراد و وظائف
جو پیشوافرمائے بجا لانا ، اﷲ رسول کا ادب ، عشق ، اتباع و اطاعت کرنا
عورتوں کی بیعت کا ثبوت حدیث شریف سے
اسی سورة ممتحنہ کی تفسیر ابن کثیر جلد چہارم صفحہ ۵۵۳ ام عطیہ ؓ کا بیان
ہے ۔
لما قدم رسول اﷲ ﷺ (المدینة) جمع نساءالانصار فی بیت ثم ارسل الینا عمر بن
الخطاب ؓ فقام علی الباب وسلم علینا فردون او فرددنا علیہ السلام ثم قال
انا رسول رسول اﷲ ﷺ الیکن قالت فقلنا مرحبا برسول اﷲ و بروسول رسول اﷲ فقال
تبایعن ان لا تشرکن باﷲ شیئا و لا تسرقن و لا تزنین قالت فقلنا نعم قالت
فمدیدہ من خارج الباب الی البیت و مددنا ایدینا من داخل البیت ثم قال اللھم
اشھد الحدیث (رواہ ابن جریر )
حضور ﷺ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو ایک مکان میں جمع
ہونے کا ارشاد فرمایا پھر ہماری جانب عمر بن خطاب ؓ کو ارسال فرمایا تو وہ
اس مکان کے دروازہ پر آکر کھڑے ہوگئے اور ہم پر سلام کیا ہم نے جواب میں
وعلیکم السلام کہا پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں رسول خدا ﷺ کا بھیجا ہوا
ہوں تمہارے پاس تو ہم نے کہا قربان جائیں ہم رسول اﷲ پر اور ان کے بھتیجے
کا آنا مبارک ہو آپ ؓ نے فرمایا تم بیعت کرو کہ اﷲ کے ساتھ شریک نہ کریں گی
کچھ بھی اور بدکاری نہ کریں گی ام عطیہ ؓ کہتی ہیں ہم نے قبول کیا حضرت عمر
ؓ نے اپنا ہاتھ دروازہ مکان کے باہر سے اندر کو بڑھایا اور ہم نے اپنے ہاتھ
(دور سے ) اور اندر سے بڑھائے اور پھر انہوں نے یوں فرمایا اے اﷲ تو گواہ
ہے ۔
غرض کتاب و سنت و آثار و عقل و نقل کے اتفاق سے بیعت کا شرعاً ہونا اور
ضروری و نافع ہونا بلاشک و شبہ ثابت ہے بچوں ، بڑوں ، مردوں و عورتوں سب کے
لئے مفید و ضروری ہے عارف روم ؒ نے کہا
علم باطن ہمچو مسکہ علم ظاہر ہمچو شیر
کے شودبے شیر مسکہ کے بود بے پیر پیر
مثل مکھن علم باطن علم ظاہر مثل شیر
کیسے ہو بے شیر مکھن اور کب بے پیر پیر
اور بے شک ان دلائل کے بعد یقین ہو جاتا ہے کہ امام و پیشوائے حق کی بیعت
سے محروم مرنجاہلیت اور بے اسلامی کی موت مرنا ہے اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو
اسلام کی زندگی اور وفات نصیب فرماویں آمین
چوں تو ذات پیر را کردی قبول
ہم خدا در ذاتش آمدھم رسول
پیر کو جب کرلیا تم نے قبول
ہو گئے مقبول بس اﷲ رسول |