”بنگالی قومیت کو فروغ دینے اور
بین الصوبائی رابطوں کو کمزور کرنے کے لیے عوامی لیگ کی مہم کی ایک اور
مثال دودرسی کتابیں ہیں۔ایک کتاب تھی”دیش وکرشتی“(دھرتی اور لوگ)حکومت نے
یہ کتاب ثانوی درجے کے نصاب میں شامل کردی تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے
درمیان نظریاتی رشتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔ یہی بات عوامی لیگ کی امنگوں کے
خلاف تھی چنانچہ اس کے ایما پر طلبہ نے اس کتاب کو نصاب سے خارج کرانے کے
لیے زبردست مہم چلائی اور بہانہ یہ بنایا کہ اس کے الفاظ بوجھل ہیں اور
طلبہ کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ حالانکہ درحقیقت اسلامی رشتے کا ذکر
ان کو بوجھل لگتا تھا اور اسے ہضم کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔اس کے برعکس
قمرالدین کی کتاب ”سوشل ہسٹری“(سماجی تاریخ)جس میں مشرقی پاکستان کا ثقافتی
رشتہ کلکتہ سے ملایا گیا،اس پر حکومت نے پابندی لگادی تھی۔ مگر طلبہ نے اس
کے خلاف ایک پرزور تحریک چلائی اور صوبے کے ممتاز شاعروں، ادیبوں اور
دانشوروں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ خود مجیب نے اس کی حمایت میں یہ بیان دیا
:”بنگالی زبان کے لیے 1952کی تحریک کو کچلا نہ جاسکا ہم اب بھی بنگالیوں کے
تہذیبی ورثے پر اس حملے کی پرزورمذمت کریں گے۔“
قارئین!درج بالا طویل اقتباس صدیق سالک کی مشہورومعروف کتاب ”میں نے ڈھاکہ
ڈوبتے دیکھا“سے اخذ کیا گیا ہے۔ماضی میں مسلمان قومیں کب اور کیسے افتراق
وانتشار،باہمی مخاصمت وجدال اور کمزوری وبے بسی کا شکار ہوئیں؟اس کا جواب
متذکرہ ”حقیقت “سے خوب عیاں وبیاں ہے۔ قومیت وعصبیت کی دیمک کس طرح وطن
وقوم کے وجود کو کھوکھلا کردیتی ہے ؟زبان ورنگ کا زعم فاسد کس طرح ایک
مسلمان کو ترقی سے تنزلی کی طرف لے جاتا ہے؟اس کی واضح اور نمایاں مثال
سقوط ِڈھاکہ سے سمجھی اور لی جاسکتی ہے۔ نسبی تفاخر،حسبی گھمنڈ اور گروہی
تعصب وہ روحانی واخلاقی سونڈیاں ہیں ،جو گلشن اسلام کی ہریالی اور تازگی کو
گُہنا دیتی ہیں۔دین برحق کی آفاقی،ابدی اور روشن تعلیمات ،اُن بدبودار
نعروں ،نفرت انگیز صداﺅں اور تفرقہ خیز آوازوں کی مکمل نفی کرتی ہیں ۔جو اس
کی اجتماعیت وحدت اور فکری تنظیم کو پارہ پارہ کردے۔ جو اہل ایمان کے مابین
نفرت کی دیوار کھڑی کردے۔جو توحید پرستوں کی نظریاتی دیوار میں عداوت
ودشمنی کی نقب لگائے۔
قبل ازاسلام کے حالات وواقعات پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالیے!شرک وکفر،بت
پرستی،بے حیائی وعریانی ،قتل وغارت گری ،ظلم وزیادتی ،ذات پات اور اعلیٰ
وادنیٰ کا فرق۔ قصہ مختصر وہ کون سی برائی ،خامی اور گناہ تھا جو سرزمین
عرب پر رواج پذیر نہ تھا؟لوگ مختلف طبقوں، خاندانوں اور جماعتوں میں منقسم
وتقسیم تھے۔احترام انسانیت وآدمیت کا دوردورتک تصوروگمان محال تھا۔باہمی
حقوق وانصاف کی ادائیگی کا اہتمام وانتظام ناپید ومعدوم تھا۔عورت کی پیدائش
ذلت ورسوائی کی علامت سمجھی جاتی۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پر برسوں ایک دوسرے
کا خون بہانا محبوب ترین مشغلہ بن چکا تھا۔نسلی برتری اور خاندانی نسبت پہ
فخر وغرور اور عجب کا یہ عالم تھا کہ اپنے علاوہ ہر ایک کو عجمی (گونگا)کہا
کرتے ۔اِن قیامت خیز لمحات اور گمراہیت کی تیرگی میں آقائے دو جہاں صلی
اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ نے یتیموں ،مسکینوں اور زیردستوں کو نوید ِجاں
فزا سنائی۔عصبیت کی جگہ اخوت،جبر کی جگہ کرم ،نزاع کی جگہ الفت اور مفاد کی
جگہ ایثار نے لے لی۔ بے لوث خلوص ویکجہتی کے ایسے ایسے فقیدالمثال مناظر
چشمِ فلک نے دیکھے کہ جن کی نظیر بنی نوع انسان میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔
یہی وجہ اور سبب ہے کہ کتاب وسنت میں اس پیار،ہمدردی اور محبت کے جذبات کو
برقراررکھنے پر جابجا زور دیا گیا ہے۔ ہر ُاس عمل ،ہر اس رویے اور ہر اس
کردار کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کی گئی ہے ،جو مسلمانوں میں چشمک ورنجش
پیدا کرنے کا وسیلہ وبنیاد بنے۔ حجة الوداع کے موقع پر آقائے نامدار صلی
اللہ علیہ وسلم نے تقویٰ اور پرہیزگاری کو معیار ِفضیلت بتلا کر،مسلمانوں
میں ہر نوع کے لسانی، طبقاتی، جماعتی، خاندانی اور قومی تفوق وبڑائی کے بت
کو پاش پاش فرما دیا۔ صاحبانِ ایمان کو اسلامی بھائی چارگی کی حسین لڑی میں
پروکر اِس حقیقت کی جانب کھلا اشارہ فرما دیا کہ ان کی” منفعت بھی ایک،
مضرت بھی ایک ۔“
فی الوقت وطن عزیز کی سلامتی واستحکام اور بقا کو درپیش مختلف خطرات وخدشات
میں سے ایک اہم خطرہ لسانیت،صوبائیت اور قومیت کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔
بدقسمتی سے آج ہم جن فضاﺅں میں سانس لے رہے ہیں۔ وہاں یہ ایمان خور جونکیں
پوری طرح پنپ رہی ہیں ۔یہ شجرمسموم پوری طرح برگ وبار لا رہا ہے۔ یہ رستا
ہوا ناسور پورے ”قومی بدن“ کے لیے مہلک وتباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔وہ خاندان
وقبائل جو ہمارے تعارف وپہچان کی وجہ تھے، آج ہمارے لیے ”مایہ
افتخاروتفاخر“بن چکے ہیں۔وہ سیاسی وغیرسیاسی جماعتیں اور تنظیمیں جو منزل
تک پہنچنے کا راستہ وذریعہ تھیں ،آج خود منزل مقصود بن چکی ہیں۔ وہ ذہنی
وفکری اور عسکری طاقت وقوت جسے دشمنانِ دین ووطن کے خلاف استعمال ہونا
تھا،آج اس کا نشانہ اپنے ہی بیٹے اور بھائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کیوں اور
کیسے ہورہا ہے؟ اس کا حل اور تدارک کیا ہے؟اس ملی روگ کی دوا کیا ہے؟اس درد
کا درماں کہاں ہے؟
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ سورہ آل عمران کی آیت
103کے ذیل میں سوالات بالا کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:”قرآن حکیم کے
اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا،وہ یہ کہ دلوں کا مالک درحقیقت
اللہ جل شانہ ہے۔دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے۔کسی
جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور مودّت پیدا کرنا خالص انعام ِخداوندی
ہے۔اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام صرف اس کی اطاعت
وفرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ معصیت ونافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں
مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم تنظیم واتحاد چاہتے
ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی اطاعت وفرمانبرداری کو
اپنا شعار بنا لیں۔“(معارف القرآن :2134)
ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد و بشر اسلامی ہدایات واحکامات کے
آئینے میں، اپنے کردار و عمل، قول وفکر اور نظریہ ودعوت کا بھرپور ناقدانہ
جائزہ لے ،کڑا احتساب کرے اور بغور اس امر کا مشاہدہ کرے کہ کہیں اس کا
لسانی اور قومی بنیادوں پر دیا گیا پیغام دین وملت کے لیے نقصان دہ تو ثابت
نہیں ہو رہا؟ کہیں اس کی جانب سے پھیلائے گئے عصبی افکارونظریات امت کا
شیرازہ منتشر تو نہیں کر رہے؟کہیں وہ باطل کا حمایتی اور اسلام مخالف
دعوتوں کا پشتی بان بن کر،اس معاملے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
بتائی گئی ”سچی اور سخت “وعید وسرزنش میں تو داخل نہیں ہو رہا؟اس کا جواب
اور فیصلہ ہر شخص کے ذمہ قرض اور فرض ہے!!! |