ٹائم مینجمنٹ

میں مصروف تھا ، بس وقت نہیں ملا کہ ملاقات ہوجاتی ، کام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ، آج کل مصروفیات کچھ زیادہ ہو گئی ہیں، یہ وہ تمام جملے و فقرے ہیں جو ہم اکثر سنتے ہیں جب دوستوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ کیا واقعی آج کا فرد اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ اُس کے پاس فرصت کے چند لمحات نہیں ہیں یا پھر ان جملوں نے ہمارے معاشرے کے اندر ایسی جگہ بنالی ہے کہ یہ ہر عام و خاص کی زبان سے سننے کو ملتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مرجان کی ایک پوسٹ نظروں سے گزری ۔ وہ لکھتے ہیں۔’’ آج کینٹین میں جا کر بیٹھا اور چائے کا آرڈر دیا۔ چائے والے نے پوچھا کہ چائے کے ساتھ کچھ لو گے ؟ میں نے لمبی سانس لی اور بولا کہ پُرانے دوست ملیں گے ؟‘‘۔ بقول شاعر۔
وقت ہی نہیں رہا ہمارے لئے اُن کے پاس
کبھی وقت ہی وقت تھا ، وقت وقت کی بات ہے

یہاں ہم کو اپنی مصروفیات کا جائزہ لینا پڑے گااور یہ نتیجہ اخذ کرنا کرنا ہوگا کہ ہماری مصروفیات اور اس پر خرچ ہونے والی توانائیاں کہیں رائیگاں تو نہیں جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں نظرثانی کی ضرورت پڑے گی اور ایسی بے مقصد مصروفیات کو اپنی روز مرہ زندگیوں سے حذف کرنا پڑے گا جو سراسر وقت اور توانائی کا زیاں ہیں ۔ یوں ہم ایک مفید شہری بن کر کارآمد معاشرہ تشکیل پا سکیں گے۔ ٹائم مینجمنٹ کے تصور کو سمجھنے سے قبل ہمارے معاشرے اور ترقی یافتہ معاشروں کے حوالے سے ایک مثال حاضر خدمت ہے۔ کہتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں اگر کوئی گھر کا پتہ پوچھتا ہے تو وہاں جے۔کے الزبتھ ، فلیٹ نمبر 112 ، سٹریٹ نمبر 3 ، نیویارک سٹی کہہ کر بتا دیا جاتا ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں پتہ کچھ یوں بتایا جاتا ہے کہ بس اڈہ پر اُترنے کے بعد رکشے میں سوار ہوجائیں اور اُس کو نرالہ سویٹ کا بتا دیں۔ وہاں اُتر کر دائیں جانب والی گلی میں مڑ جائیں ، دس قدم آگے آجائیں ، یہاں بائیں جانب جوس کی دکان ہوگی جو پکوڑوں والی دکان کے بالکل سامنے ہے ، یہاں قبلہ رُخ دیکھیں تو الفلاح بنک نظر آئے گا۔ بس وہاں پہنچ کر مجھے مِس کال دینا ، میں بائیک لے کر آجاؤں گا اور گھر چلے جائیں گے۔ ہمارے معاشرے میں ہماری سرگرمیوں اور مصروفیات کی ایسی ہی گھمبیر صورت حال ہے۔ ہم یہ فرق کرنے سے قاصر ہیں کہ کون کون سی سرگرمیاں بے مقصد اور کون کون سی بامقصد ہیں جس نے ہماری زندگیوں کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے لئے ہمیں سیلف مینجمنٹ کرنا ہو گی جس کا ایک بنیادی جزو ٹائم مینجمنٹ ہے، یعنی سیلف مینجمنٹ کا دائرہ کار وسیع ہے اور اسی میں ٹائم مینجمنٹ آتا ہے۔ ٹائم مینجمنٹ دراصل اپنی روزمرہ سرگرمیوں کو تنظیم دینے کے ساتھ ساتھ وقت کے صحیح استعمال اور اس کا خاص خیال رکھنے کا نام ہے ۔ یہ تقریباً معاشرے کے تمام افراد کے لئے نہایت ضروری ہے کیوں کہ اس سے سرگرمیوں کی مقصدیت کا تعین لگایا جاسکتا ہے اور اپنی زندگیوں کو کارآمد بنانے کے علاوہ معاشرے کی تعمیر وترقی کی صحیح سمت متعین کی جاسکتی ہے ۔ اس کا طریقہ نہایت آسان ہے۔ ایک سادہ چارٹ لیں ، جس پر چھ عمودی لکیریں ( کالم ) کھینچیں جن کے نام نمبر شمار ، سرگرمی کا نام ، نوعیت ، اوقات کار، دورانیہ اور آخری کالم میں بامقصد یا بے مقصد لکھیں۔ مثال کے طور پر ۱ ، نماز فجر ، فرض ، صبح 6:15 سے 6:30 ، پندرہ منٹ ، بامقصد۔ اَب اسی طرح سارے دن کی سرگرمیوں کو ترتیب کے ساتھ چارٹ پر لکھ لیں۔ دورانیہ کے کالم میں موجود تمام اعداد کو جمع کریں اور ساٹھ پر تقسیم کرکے منٹوں کو گھنٹوں میں تبدیل کر لیں۔ اس کے بعد آخری کالم میں موجود صرف بامقصد تمام سرگرمیوں کو ہائی لائٹ کریں اور اس کی اُفقی لائن میں موجود دورانیوں کو جمع کریں۔ کُل دورانیے کو بامقصد سرگرمیوں سے حاصل کرہ دورانیے سے منہا کریں۔ اَب آپ کے پاس دن بھر کی بامقصد سرگرمیوں اور مصروفیات کا دورانیہ حاصل ہو جائے گا۔ اس سے آپ بآسانی اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ آپ کا دن بامقصد یا بے مقصد گزرا۔ کینیڈا کی ایک یونیورسٹی کے ماہرین نے چودہ سال طویل ایک تحقیق کی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ با مقصد زندگی گزارتے ہیں اور دن بھر کام میں مشغول رہتے ہیں وہ لمبی عمر پاتے ہیں ۔نیز ٹائم مینجمنٹ کا چارٹ مخصوص افراد کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کو ہر شخص اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔اس چارٹ کا عملی حصہ اس کا اطلاق ہے ، یعنی آپ کا مزید کام بے مقصد سرگرمیوں کو اپنی روزمرہ زندگی سے حذف کرنے کا ہے۔ یہ کام آسان ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل بھی ہے کیوں کہ ہم اکثر سرگرمیوں کے ایسے عادی بن چکے ہوں گے جن کو ترک کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ پس انفرادی اور اجتماعی بہتری و ترقی کے لئے ہمیں صرف بامقصد سرگرمیوں کا اپنانا ہو گا۔ اختتام اس دعا کہ ساتھ کرتاہوں ۔ اے رب کائنات ! اپنے لا محدود خزانوں سے ہمیں ایمان ، سکون ِ قلب ، رزق ِ حلال ، صحت ، خوشیاں ، کامیابیاں اور بامقصد زندگی عطا فرما۔ آمین۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.