مگر افسوس !

 جس معاشرہ میں دوسروں کے ساتھ رحم کا برتاوٗ،حقوق و فرائض کی ادائیگی اور عدل و انصاف نہیں ہوتا وہ معاشرہ بگاڑ کا شکا ر ہوجاتا ہے۔ گھر،کنبہ،قبیلہ، علاقے، ادارے یا مُلک کاسربراہ ہو ۔ چھوٹا ہو یا بڑا اُس کے لئے اپنے حصے کے فرائض کی ادائیگی اور عدل سب سے ضروری ہے۔ ارشاد ِربانی ہے: ترجمہ -:(کہ اے ایمان والو! مضبوطی سے انصاف پر قائم رہو)۔جس کی جتنی زیادہ ذمہ داری ہوگی ،جتنا بڑا عہدہ ہوگا۔ وہ اُتنا زیادہ جوابدہ ہوگا۔ حکمرانوں کے علاوہ ایسا عہدہ دار جو ظالم وجابرکا آلہ کاربنااور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اﷲ کے بندوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کردینے کاسبب بنا تواُس کا حشر اور بھی بُرا ہوگا۔

اِسلام دین ِفطرت،مکمل ضابطہء حیات ہے۔قیامت تک آنے والے آخری انسان کی ہرلحاظ سے مکمل راہنمائی کے لئے اس کے اصول مضبوط، بنیادیں مستحکم اور تمام احکامات پر مشتمل ہیں۔ اس دین ِکامل میں ہرزمانے اوردورکے ہرفردبچے،جوان،بوڑھے،مردوعورت کے حقوق و فرائض کا تعین کردیا گیاہے۔اس میں عام انسان کے حقوق، تعلیم ،غذائی اشیاء، طبی اصول وضوابط، نظم ونسق، نقل و حمل، صنعت وزراعت،خودکفالت اور تجارتی معاملات کے اصول و ضوابط نیز دھوکہ ، چوربازاری کا سدِباب،یہاں تک کہ دین ِ اِسلام انسان کی بنیادی ضروریات سے لیکر حقوق کی ادائیگی اورفرائض کی تکمیل تک تمام احکامات سے روشناس کرواتا ہے۔یہ پیارا دین اُلفت، محبت،بھائی چارہ، دُشمنیوں کومٹانے، دلوں کو کینہ سے پاک کرنے والا اور عقلوں کو حق کی روشنی عطاء کرنے والا دین ہے۔ دین اِسلام سراسرسلامتی ، امن اوردوسروں کا احترام ،یہاں تک جانوروں پر بھی رحم اوراُن کے حقوق کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔حضرت عبداﷲ بن ابی اوفٰی کہتے ہیں۔ ارشادِ نبویﷺ ہے (جس کا مفہوم کچھ)کہ جن میں ہمدردی کا جذبہ نہ ہو، ان پر کوئی رحمت نازل نہیں ہوتی۔

ہمارے معاشرے میں بدنی و مالی عبادات جیسے نماز ،روزہ،ذکر،حج،زکوٰۃ،صدقہ و خیرات الحمداﷲ کسی نہ کسی سطح پر موجود ہیں۔ مگراِسلام ہمیں جزوی نہیں بلکہ مکمل طورپردین میں داخل ہونے کی دعوت وترغیب دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم معاملات،اخلاق،عدل و انصاف اوردوسروں پررحم کے باب میں بہت پیچھے،مسلسل زوال اور پستی کا شکار ہیں۔ہم نے مالی و بدنی عبادات توکیں،مگر اپنے نفس کی تربیت سے گریز کیا۔ہم نے معاشرتی ناہمواری، نفرت،عداوت ، غصّہ، خودغرضی کو ختم کرنے اورایمانداری ،خلوصِ نیت،محنت کو اپنا شعاربنانے کی بجائے ایک دوسرے کودھوکہ دینے کواپنی کامیابی کا معیار بنا لیا۔ ہم زیادہ فائدہ کی خاطرکھانے پینے کی اشیاء ،حتی کہ زندگی بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ سے باز نہ آئے۔ ہم نے بھائی چارہ،محبت ،عزت واحترام جیساطرز ِعمل اختیارکرنے کی بجائے ایک دوسرے سے دُشمنی اورعداوت کوفروغ دیا۔

ہمارا سب سے بڑاالمیہ تو یہ ہے کہ کہیں بھی آپس میں اتفاق، محبت اورتمام پاکستانیوں کوایک لڑی میں پرونے کی کوشش نظر نہیں آتی ۔ ہمارے سیاسی راہنما،اُستاد، مولوی صاحبان،الیکڑانک اورپرنٹ میڈیا ہر کوئی ایک دوسرے کو لڑانے، نفرتیں پیدا کرنے اور آپس کے فاصلے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ فلاں کرپٹ،رشوت خور، فلاں نااہل اورغدار ،فلاں منافق اور کافر اور فلاں کے نزدیک فلاں واجب القتل،فلاں منکر،فلاں مشرک وبدعتی اور جہنمی ہے ۔ اپنے متعین اورتفویض کردہ کردار میں نااہلی،وقتی مفاداورنفرتیں پھیلانے کی بدولت ہم سب اس ملک کی تباہ حالی،زوال اورموجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن حماقت کی حد یہ ہے کہ کسی کو نہ تو اس چیزکا احساس ہے اورنہ ہی ہم میں سے کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کوتیارہے۔ ایک دوسرے پرالزام اورانتقام کی آگ نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کسی پر مصیبت پڑے تو اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے مصیبت دُور کردیتا ہے،دعاؤں سے مرض کا ازالہ ممکن ہے مگراحمق پن یابیوقوفی تو اﷲ کا قہرہے۔

ہم عوام یہ نہ سمجھیں کہ ساری سزااور عذاب صرف حکمرانوں اور اعلی عہدہ داران کے لئے ہے۔جس کسی نے بھی اﷲ کے بندوں کے حقوق مارے، ستایا،دل دُکھایا،کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کی،جھوٹ بولا،غیبت کی،چغلی کھائی ، کسی قسم کی زیادتی کی یا نقصان پہنچایا، حق مارا یا حق کی ادائیگی میں روکاوٹ بنا تو یہ ظلم معاف نہیں ہوں گے۔ہم میں سے ہرشخص،چاہے وہ جس شعبہ سے بھی منسلک ہے ۔ اُس کی جوبھی ذمہ داری ہے اُس کے دائرہ کار اوردائرہ اختیارکے مطابق روز قیامت جواب دینا ہوگا اورانسانیت کے حق میں جوپھول اورکانٹے بھی وہ بو گیا،اُس کا ریکارڈ کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیرمن وعن محفوظ ہوگا۔

صرف دُنیاداروں کی نہیں،بظاہردین دارنظرآنے والوں کی حالت بھی حقوق کی ادائیگی،اخلاق اور معاملات کی درستگی کے حوالے سے پتلی ہے۔حضرات صحابہ کرام ر ضوان اﷲ علیہم اجمعین کوئی لمبی چوڑی دعوت نہیں دیتے تھے۔لوگ اُن کے اخلاق،دوسروں کی خیرخواہی، تجارت اورمعاملات دیکھتے توخودبخوداسلام کی طرف مائل ہوجاتے۔صحابہ کرامؓؓ فرماتے ہماری طرح ہوجاوٗ۔ ہم آج بھی اتفاق وبھائی چارہ،خیروبرکت،قانون وانصاف کی عمل داری،عوام کی خیرخواہی ، معاشرے کے سُدھار،انسانیت کی معراج ،امن واستحکام کے لئے انہی عظیم ہستیوں کی مثالیں دیتے ہیں۔مگرہماری عملی زندگی میں،ان ہستیوں کے کردارکی جھلک کہیں نظرنہیں آتی۔ کیا ہم خود،ہمارا طرز ِ عمل اورمعاملات اس قابل ہیں کہ ہم کسی کو کہہ سکیں ،کہ ہم جیسے ہوجاؤ۔

موجودہ حالات میں اِنفرادی سطح سے اجتماعی اور قومی سطح پرہماراطرز ِعمل تویہ ہوناچاہیے تھا کہ ہم ہر شعبہ اور ہر سطح پر سنجیدگی وایمانداری سے متحدہوکر ان کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے،مگرہم اپنی ذات، قبیلہ، برادری ،وقتی اورعارضی مفاد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ہم نے انتہائی کم قیمت پر ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی۔آج ہر کوئی صرف اپنے حق کی بات کررہاہے جبکہ فرائض اور ذمہ داری کا کہیں تذکرہ نہیں۔ ہم نے محنت ، ایمانداری اور خلوص ِ نیت سے اپنے حصہ کی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر دوسروں کو برا بھلاکہنے، نقطہ چینی،دوسروں کی برائی سننے ، لوگوں کے بھید لینے اور جھوٹی باتیں گھڑنے کی عادت بنا لی ہے۔ اس طرح ہم اپنے نفس کی تربیت اوراصلاح کی بجائے،دوسروں کی عیب جوئی اورتنقیدمیں اپنی کامیابی تلاش کرتے رہے۔مگرافسوس ہماری رسوائی اور ناکامی کا سبب ہمارا یہی طرز ِعمل ہے۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.