دو عشرے قبل کا قصہ ہے پاکستان کے شہر کراچی میں ایک
خوشحال اور تعلیمیافتہ گھرانے کی ایک صاحبزادی اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ
سینما کا رات نو بجے والا شو دیکھ کر تقریباً بارہ بجے اپنے میکے پہنچی اور
اپنی اماں سے فرمائش کی کہ بہت زور کی بھوک لگی ہے کھانا کھلا دیں ۔ انہوں
نے اپنی نو بیاہتا بہو کو بلوایا اور اسے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا ۔ اور
کھانا بھی کیا؟ بریانی اور شامی کباب ۔
ہم پلہ کھاتے پیتے گھر کی خوبصورت پڑھی لکھی گاڑی خود ڈرائیو کر کے کالج
جانے والی لڑکی حیران و ششدر کھڑی ہے کیونکہ گوشت فریزر میں رکھا ہؤا ہے ۔
وہ کمرے میں واپس گئی اور اپنے چند روز کے مہمان پردیسی شوہر کو اس بارے
میں بتایا اور احتجاج کیا کہ آپ کی بہن رات کا نو بجے والا شو دیکھنے سینما
جا سکتی ہے تو کیا کھانا کھانے کے لئے کسی ریسٹورنٹ نہیں جا سکتی تھی؟ اب
آپ کھانا باہر سے لے کر آئیں ۔
شوہر نے بہت بےبسی کے ساتھ کہا کہ اگر امی نے تمہیں کھانا بنانے کے لئے کہا
ہے تو تمہیں کھانا بنانا ہی ہو گا میں باہر سے نہیں لا سکتا پلیز ، تم میری
خاطر ان کی بات مان لو ۔
یہ وہ شخص تھا جس کی امریکہ کی کمائی سے گھر چلتا تھا اور بہنوں کے بھی
وارے نیارے ہوئے رہتے تھے مگر اس کی مجال نہیں تھی کہ بیوی کے ساتھ اپنی
ماں بہن کی اس کُھلی زیادتی کے خلاف دم بھی مار سکے ۔
آپ ذرا سوچیں تو سہی کہ کیسے اس لڑکی نے آدھی رات کو فریزر سے جما ہؤا گوشت
نکال کر اسے گُھلایا ہو گا اور بریانی اور شامی کباب جیسی محنت و دیر طلب
چیزیں تیار کی ہونگی؟ مگر شاباش ہے کہ اس نیک بخت نے دونوں آئٹم بمع سلاد و
رائتے اور ایک میٹھے کے چار بجے تک تیار کر کے ٹیبل پر لگا دیئے ۔
نند صاحبہ نے کھانے کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنے کے بعد اعلان فرمایا کہ
رات بہت ہو گئی ہے اور صبح چھٹی بھی ہے اس لئے اب میں یہیں سوؤنگی اور صبح
ناشتے کے بعد ہی گھر واپس جاؤنگی ۔ کھانے میں قیمہ پراٹھے بنوا لیں ۔
اور بہو آل موسٹ بیہوش ۔ (رعنا تبسم پاشا)
|