آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

تحریر:طیبہ شیریں
ہر جاندار چیز نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ موت کبھی بھی آسکتی ہے۔ اس کا وقت مقرر ہے، جگہ بھی مقرر ہے لیکن آج کل ہم نے دین کو چھوڑ کر دنیا کمانے میں لگ گئے ہیں۔ آج ہم موت کے تیاری نہیں کرتے۔ موت کو یاد نہیں کرتے۔ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے۔ جو آکر ہی دم لے گی۔ کسی بھی وقت موت کا فرشتہ آپہنچے گا۔ اس وقت ہمارے پاس سوائے افسوس کے کچھ نہ ہوگا۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں

اﷲ تعالی فرماتے ہیں، ’’اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔(سورۃ ال عمران 185) دنیاوی زندگی کا فائدہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا۔( التوبہ 38) موت کی یاد دلوں کو نرم کر دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ ’’تم چاہے کہیں بھی ہو، وہاں ہی موت تم کو آجائے گی‘‘۔

مومن کی شان یہی ہے کہ وہ کثرت سے موت کو یاد کیا کرتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو آخرت کی تیاری کے لیے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں، ’’سرکار دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ، ’’لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرے گا تو اس پر وسعت ہو گی (یعنی اس کو طبعی سکون حاصل ہو گاکہ موت کی سختی کے مقابلے میں ہر سختی آسان ہے) اور اگر عافیت اور خوشحالی میں موت کو یاد کرے گا تو یہ اس پر تنگی کا باعث ہوگا‘‘۔ یعنی موت کی یاد کی وجہ سے وہ خوشی کے زمانے میں آخرت سے غافل ہو کر گناہوں کے ارتکاب سے بچا رہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا، ’’جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر 3 چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا، دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے‘‘۔انسان جتنی بھی طویل عمر پا لے انسان کو اس جہان سے ایک نہ ایک دن کوچ کر جانا ہے جب موت نے زندگی کا دروازہ کھٹکھٹانا ہے انسان کو اسی لمحے اس زندگی کا ہاتھ چھوڑ کر موت کو گلے لگانا اور موت کے ساتھ چلے جانا ہے۔ جب روح سارے بدن سے کھنچ کر ہنسلی کی ہڈی میں آکر اٹک جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا، کوئی دوا دارو کرنے والا حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا۔ روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے۔ یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ وہ اگر آدمی نیک ہے تو شاید وہ شخص زیادہ نیکی کرے (یعنی اس کے نیک اعمال میں اضافہ ہو جائے) اور اگر وہ شخص برا آدمی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ شخص برائی سے توبہ کر لے (بہرحال اس شخص کے واسطے زندہ رہنا بہتر ہے)۔یعنی موت کو یاد تو رکھے مگر موت کی تمنا نہ کرے۔ مطلب موت کے لیے دعا نہ مانگے۔ یہ گناہ کہ زمرے میں آتا ہے۔

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’تم لوگ مرنے کے واسطے دعا نہ مانگا کرو اور نہ تم موت کی تمنا کرو اور اگر تم ضروری دعا مانگنا چاہو تو تم اس طرح سے دعا مانگو، اے اﷲ مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھنا کہ جب تک میرے واسطے زندگی بہتر ہو اور مجھ کو اس وقت موت دینا جب میرے واسطے موت بہتر ہو۔ ہم ہر روز، ہر گھنٹہ بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔ موت ایک مصیبت بھی ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے‘‘۔ (المائدہ 106)

ارسطو لکھتا ہے، ’’موت سب چیزوں سے زیادہ ہولناک ہے کیونکہ اس کے بعد کچھ نہیں رہ جاتا‘‘۔بہر حال دانش مند دور اندیش اور عقلمند وہی ہے جو ہمیشہ دائمی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہے اور اس چند روزہ زندگی میں لڑکر ہمیشہ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچالے۔ نفس اور شیطان انسان کو گناہوں پر آمادہ کرنے کے لیے اس چند روزہ زندگی پر مطمئن کر کے آخرت کی لازوال زندگی ٹالتا رہتاہے جس کی وجہ سے انسان موت کو یاد نہیں کرتا اور وہ آخرت کے لیے نیک اعمال کرنے میں سستی کرتا رہتاہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.