بھارت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے بعد سے تمام ہی
مسالک بدترین تشدد کی زد میں رہے ہیں مسیحی عبادت خانوں پر حملے ہوں
یامسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلاکر ان کو توڑنے کی سازش ،کشمیر میں درندگی
ہو یا بھارت میں گاؤ ماتا کے نام پر قتل عام ،شدر برادری کی مندر جانے
کامسئلہ ہو یا ریپ مخالف مظاہرے تمام محرکات میں بھارتی جنتا پارٹی کی دو
ذیلی تنظیمیں آر ایس ایس اوروشوایندو پریشد ہر فسادات میں آگے آگے نظر آئیں
ہیں ،کشمیر میں گزشتہ روز بھارتی فوج نے سبز کپڑے پر پابندی لگادی ہے اور
پیغام دیاہے کہ جس شخص کے ہاتھ میں سبزکپڑا دیکھا گیا اس کو فوری گولی مار
دی جائے گی ،سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ سال 2018میں کشمیریوں نے سب سے زیادہ
جانیں گوائیں جوایک غیرملکی ویب سائٹ کے مطابق 441ہیں جبکہ 1لاکھ سے زائد
کشمیری زخمی ہوئے اور درجنوں زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے مگر نہ اقوام
متحدہ جاگی اور نہ او آئی سی ،بھارت کے حد درجہ بڑھتے ظلم کی نوید خود
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دی مگر جواب میں بھارت کے اوپر کوئی دباؤ
نہیں دیاگیا اور تجارت کشمیریوں کے خون پرغالب آگئی ۔
سال 2016میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی کو شہید
کیاتو بھارت بھر میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے جس کو قابو کرنے کیلئے
بھارتی افواج نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا ایسا دعویٰ کیاکہ دنیا بھر
جگ ہنسائی اور بدترین سبکی کا منہ دیکھنا پڑا ،نریندر مودی نامی شخص سے سب
ہی واقف ہوں گے البتہ تھوڑی خوبیاں بیاں کرتاچلوں کہ صاحب کو ہندوستان میں
قصائی کے نام سے مشہور ہیں نریندر مودی وزیراعظم بننے سے قبل ریاست گجرات
کے وزیراعلیٰ رہے جس دور میں انہوں نے 4ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا جس کے
بعد امریکا نے اس پر پابندی لگادی تھی ۔
کشمیر کے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سب نے مل کر بھارت کو دنیا میں عبرت کا
نشان بنا دیا ہے۔ آٹھ لاکھ فوج صرف کشمیر میں ہونے کے باوجود بھارت
کشمیریوں کو قابو کرنے اور ان کی آواز دبانے میں ناکام ہوگیا ہے۔ ظلم کی
ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں لیکن اس کے باوجود آزادی کی شمع بجھنے کا
نام نہیں لے رہی ہے۔ کشمیریوں کی تیسری نسل نے بھارت اور اس کی فوج کی قلعی
کھول کر رکھ دی ہے۔ آج سے ڈیڑھ سال قبل برہان وانی کی شہادت کے بعد سے
اٹھنے والی تحریک آزادی کی لَو نے بھارت کے شمشان گھاٹوں کو پھر سے آباد
کردیا ہے۔ اب بھارت کو کشمیر میں ناجائز قبضہ اتنا مہنگا پڑ رہا ہے جس کا
اس نے اپنے خوابوں اور خیالوں میں بھی نہ سوچا تھا۔ ظلم اور سفاکیت کی
انتہا کرنے کے بعد بھی اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا بلکہ اس نے کشمیریوں کو ایک
نئی امید دلادی۔ وادی کو خون کے رنگ میں رنگنے والے اب کشمیریوں سے شکست کا
مزہ چکھ رہے ہیں جن کے دلوں میں نہ موت کا خوف ہے اور نہ غلامی میں جینے کی
کوئی امید۔
بھارتی فوج کشمیریوں کو شکست دینے کیلئے ان کی آبادی کے تناسب بدلنے میں
مصروف ہے تو دوسری جانب کشمیریوں سے بدلے کی آگ اس حد کو جاپہنچی ہے کہ
ہندو بنیے بھگوا پیروکاروں کو کشمیر کی جنت نظیر وادی میں تحفظ فراہم کرنے
کے نام پر اسلحہ ڈیپو اور نوجوانوں کو اغوا کرکے بدترین تشدد کررہی ہے
کرفیو کے نام پر گھر گھر تلاشی میں نوجوانوں کااغوا ،خواتین کی اسمت دردی
معمول بن گیا ہے مگر نہ کسی اقوام عالم کو نظر آتا ہے اور نہ کسی تنظیم کو
،اس تمام کے باوجود کشمیریوں نیہار نہیں مانی اور بھارتی فوج کو پسپا کیا
ہے۔
بغل میں چھری منہ پے رام رام کی مالا جپتے نام نہاد بھگواکے بیروکاروں کا
بھید اس وقت کھول کرسامنے آتا ہے جبکہ آر ایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم سے
سانحہ سمجھوتا ایکسپریس پر سوال کیا جائے آج سے تقریبا بارہ سال پہلے 18
اور 19 فروری 2007کی درمیانی شب بھارتی صوبہ ہریانہ سے گزررہی سمجھوتہ
ایکسپریس میں ہوئی دہشت گردی میں 80سے زائد پاکستانی زندگی کی بازی ہار گئے
جب کہ 150سے زائد شدید زخمی ہوگئے تھے بھا رت کے سرکاری اعدادو شمار کے
مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 68 ہے یاد رہے کہ یہ ریل گاڑی دہلی
سے لاہور آرہی تھی اور مسافروں کی بھاری تعداد پاکستانی تھی اس سانحے کے
وقوع پذیر ہونے کے بعد حسب عادت بھارتی ذائع ابلاغ نے اس کی ذمہ داری
پاکستان کے کندھوں پر ڈال دی مگرقانونی فطرت ہے کہ سچ کو بہر کیف ظاہر ہونا
ہوتا ہی ہے اور آج دنیا جانتی ہے کہ کس طرح ہندوستان اپنی ان بغل گیر دہشت
گرد تنظیموں کوپاکستان مخالف سمیت کشمیریوں کے خلاف استعمال کرتا ہے ۔
کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان کو اپنی موثر حکمت عملی بنانی پڑے
گی ورنہ خون کی لازوال کہانی پاکستان کو بہت مہنگی پڑنے والی ہے ۔ |