صاحبو! مسلم دنیا کی واحدایٹمی اور میزائل طاقت، مملکت
اسلامی جمہوریہ پاکستان ،مثل مدینہ ریاست مسلمانوں کی لیڈر شپ ، اتحاد و
اتفاق پیدا کرنے والا واحد ملک ہے۔ اسی لیے دشمن اس کو ختم یا کم از کم
ڈسٹرب کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے۔
اس نے پاکستان کو کبھی بھی تسلیم نہیں۔ پاکستان بنتے وقت اس کے لیڈروں نے
کہا تھا۔ جب قائد اعظمؒ کادوقومی نظریہ ٹھنڈا ہو جائے گا یا ہم اِسے کمزور
کر لیں گے تو ہم پاکستان کواَکھننڈ بھارت میں شامل کر لیں گے۔اس کا م کے
لیے بھارت نے مشرقی پاکستان میں دشمنِ وطن، دہشت گردشیخ مجیب الرحما ن کو
قومیت پر لگایا اور فوجی چڑھائی کے ذریعے بنگلہ دیش بنا دیا۔ بھارت کہتا ہے
پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کیے تھے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ اس لیے بھارت پاکستان
میں دہشت گردی کر رہا ہے۔نائن الیون کے بعد صلیبیوں نے پاکستان پر دباؤ
ڈالنے کے لیے گوریلا جنگ شروع کی۔ پاکستان کے دشمنوں نے سوچا کہ مسلمانوں
کودو بدو لڑ کر انہیں شکست نہیں دی جا سکتی الہٰذا اِس کی معیشت کو تباہ کر
اسے کنٹرول کیا جائے۔ اس کام کے لیے دہشت گرد غدارِ وطن الطاف حسین کو
لگایاگیا۔ کراچی میں مہاجر سیاست کی لڑائی پر سیکڑوں بے معنی ہڑتالوں سے
پاکستان کی معیشت تباہ کی گئی۔اس سے قبل بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی
جناحؒ کی کمائنڈ میں تحریک پاکستان ،جب زوروں پر تھی تو ہندوؤں کے نجات
دہندہ گاندھی نے اپنی قوم کو کہا تھاکہ میں پاکستان بننے سے پریشان نہیں ،میں
تو پریشان، اُس وقت سے ہوں جب پاکستان بننے کے بعدافغانستان کے ساتھ مل کر
مسلمانوں کے سمندر سے مل جائے گا تو ہندؤ اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اس
ڈاکڑائین پر بھارت نے افغانستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ وہاں غدارِ وطن
مرحوم عبدلاغفار خان ، سرحدی گاندھی کی مدد سے قومیت کو پھیلایا۔ جب
پاکستان بنا تو غفار خان کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔
سابق صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختون خواہ میں قائد اعظمؒ نے ریفرینڈیم جیت کر
غفار خان کی قومیت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ قومیت کی بنا پر غفار خان نے
پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند کیا اور افغانستان کے شہر جلال آباد میں
مدفن ہے۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو جب شہید کیا گیاتو ملک میں جلاؤ
گہراؤ کی ذریعے ملک کی معیشت کو کھربوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ پاکستان شیعہ
سنی تفریق کی گئی۔ خاص کر کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کیمنٹی کے افراد کو دہشت
گردی کا نشانہ بنایا۔جعلی طالبان بنائے گئے جنہوں نے پورے پاکستان میں دہشت
گردی کی انتہا کر دی۔ پشاور آرمی پبلک اسکول کے کے اسکول کے معصوم بچوں تک
کو نہیں چھوڑا گیا۔ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے ایک کال پر امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک
دیے۔لاجسٹک سپورٹ کے نام پر ملک کے بحری، بری اور فضائی راستے امریکا کے
حوالے کر دیے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ڈالروں کے عوض چھ سو مسلمانوں کو پکٹر
کر امریکا کے حوالے کیا۔پھر پوری دنیا کے صلیبی کی جاسوس ہمارے ملک میں در
آئے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں ہمارے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جا
تی رہیں۔ دشمن ہمارے ایٹمی اثاثوں کے پیچھے پہلے سیلگے ہوئے تھے اور اب بھی
لگے ہوئے ہیں۔ ڈرون حملے ایک قومی عذاب کی شکل اختیار کر گئے۔ نام نہاد وار
آن ٹیرئر میں ہمارے پچھتر ہزار شہری شہید ہوئے۔نیٹو سپلائی کی وجہ سے ہمارے
ملک کا ۱۵۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ملک کا کوئی ادارہ خودکش حملوں
سے نہیں بچا۔ریمنڈ ڈیوس جو قتل کے علاوہ جاسوسی کے اندر ملوث تھا کی رہائی
کی وجہ سے پوری قوم سراپا احتجاج بنی۔ افراط زر سے مہنگائی برداشت سے زیادہ
ہو گئی۔ملک سے محبت رکھنے والے حلقے چلا چلا کر کہتے رہے کہ یہ ہماری جنگ
نہیں ہے۔ مگر اُس وقت کے مقتدر حلقے نہ مانے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ ہماری جنگ
نہیں کسی اور کی جنگ ہے ۔ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں دنیا میں سب سے زیادہ
نقصان اُٹھایا ہے ۔ اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ اب دنیا کو ڈو مور
کرنا چاہیے۔ شکر ہے کہ مقتدر حلقوں کو ہوش آیا ہے۔ یہ تو ہوئی پاکستان کی
بات۔
اب دنیا کے تنازات طے کرنے والی موجودہ اقوام متحدہ کی بات کرتے ہیں۔سچی
بات تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ عیسائیوں قوموں ، خاص کر امریکا کی لونڈی بن
چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے سارے ذیلی اداروں پر صلیبیوں کا کنٹرول ہے۔ آئی ایم
ایف اگر کسی غریب ملک کو قرضہ دیتا ہے تو امریکا کے مفادات کو سامنے رکھ کر
دیتا ہے۔ اقوام متحدہ عیسائیوں کے مفاد کے لیے کام کرتاہے۔ مسلمانوں کو
پوری دنیا میں مولی گاجر کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو کہیں بھی
انصاف نہیں مل رہا۔فلسطین میں عیسائیوں نے دنیا پھر سے یہودیوں کو جمع کر
فلسطینیوں کو اِن کے گھروں سے نکال کر یہودیوں کوذبردستی آباد کیا۔ فلسطین
در بدر ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کی حق اور اسرائیل کی زیادتی
کے خلاف درجنوں قراردادیں منظور کیں۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی ان
قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر فلسطینیوں کے کے خلاف ظلم کے
پہاڑتوڑے۔ مگر اقوام متحدہ کچھ بھی نہیں کر رہی۔ اب تو دنیا اسرائیل کو
امریکا کی ناجائز اولاد کہتی ہے۔برصغیر کی تقسیم دوقومی نظریہ کی بنیاد
پرہوئی تھی۔ مگر بھارت نے کشمیر پر فوج کی ذریعے قبضہ کر لیا۔ جب کشمیر پر
جنگ ہوئی اور پاکستان سری نگر تک پہنچنے والا تھا ۔ تو بھارت وزیر اعظم
نہرو اقوام متحدہ گیا اور درخواست کی کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے
گا۔ مگر اس کے بعدبھارتی لیڈر شپ اس سے مکر گئی۔ کشمیریوں پر اُس وقت سے
ظلم کے پہا ڑ توڑے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی کی جاری ہے۔ دوسری طرف
مسلم انڈونیشیا میں ایک صوبے میں عیسایوں کی اکثریت تھی۔ عیسایوں نے اپنے
عیسائی مذہب کی بنیاد پر انڈونیشیا کے دوسری مسلم اکثریت سے علیحدہ ہونے کی
تحریک چلائی۔ کچھ ہی عرصہ بعد اقوام متحدہ نے ان کا یہ حق تسلیم کر لیا اور
ان کو انڈونیشیا سے علیحدہ کر دیا اور ایک نیا عیسائی ملک بنا دیا۔ یہ اس
لیے ہوا کہ وہ عیسائی تھے۔ اور اقوام متحدہ پر عیسائی دنیا قابض ہے جو
عیسائی دنیا کے مفادات کا کو فوراً تسلیم کرلیتی ہے۔ اسی طرح سوڈان کے ایک
صوبے میں بھی عیسائی اکثریت میں تھے۔ وہاں بھی اقوام متحدہ نے ان کو مسلم
سوڈان سے علیحدہ کر کے ایک عیسائی حکومت قائم کر دی گئی۔ا قوام متحدہ نے نہ
آج تک فلسطین اور نہ ہی کشمیر کا مسئلہ حل کیا ۔ صرف اس لیے کہ دونوں جگہ
مسلمان ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کا مسلمانوں سے تعصب!
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کو قرآن کیا ہدایات دیتا ہے۔اﷲ
تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکرے ٹکرے کر دیا
اور گروہ گروہ بن گئے۔ یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ان کا معاملہ تو
اﷲ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا انھوں نے کیاکچھ کیا ہے‘‘(الانعام۔
۱۵۹)اﷲ اتحاد کو پسند کرتا ہے اور تفرقے سے منع کرتا ہے ۔ قرآن کے ذ ریعے
مسلمانوں کو بتایا گیا کہ اگر تم علیحدہ علیحدہ ہو گئے تو تمہاری ہوا اکھڑ
جائے گی اور دشمن تم پر قابو پا لے گا۔اس لیے آپس میں مل جل کے رہو اور اﷲ
کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو ۔ یہ تو اﷲ کاحکم ہے اب ہماری حالت دنیا میں
کیا ہے ہم کو دشمنوں نے۵۷ راجڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ابھی دور کی بات
نہیں ۱۹۲۴ء سے پہلے عثمانی ترک مسلمان خلافت چلا رہے تین براظموں کے
مسلمان ایک خلافت کے اندر رہ رہے تھے۔ مگر دشمنوں نے مسلمانوں کو تقسیم کیا
اور اِن کے اُو پر اب تک مختلف طریقوں سے حکومت کررہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے
کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا درد رکھنے والے لوگ مسلم دنیا کے اندر
موجود ہیں۔ ترکی کے (مرحوم) اربکان نے اتحاد مسلمین کے لیے بہت کوششیں کیں
۔ ارگان کے نمایاں کام آٹھ اسلامی ملکوں
ترکی،ایران،ملائشیا،انڈونیشیا،مصر،بنگلہ دیش،پاکستان اور نائیجیریا پر
مشتمل اقتصادی فورم8۔D کا قیام ہے۔ اتحاد کے سلسلے میں علامہ ڈاکٹر یوسف
القرضاوی صاحب نے کچھ سال قبل بہت کوششوں کے بعد ’’مسلمان علما کا عالمی
اتحاد‘‘کے نام سے ایک اتحاد کی بنیاد رکھی۔اس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے
سابق امیر مرحوم پاکستان سے محترم قاضی حسین احمد،پروفیسر خورشید
احمد،ڈاکٹر محمود احمد غازی، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب
الرحمن،مولاناعبدالمالک، اور عبدالغفار عزیز،لبنان سے شیخ فیصل ا
لمولوی،تیونس سے شیخ راشد الغنوشی اور عالم اسلام سے تقریباً۳۰۰
قائدین،علماے کرام اور اسکالرز نے شرکت کی۔ تاسیسی اجلاس سے اس کار جلیل کا
آغاز کیا گیا اور علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی اس اتحاد کے صدر چنے گئے ۔ یہ
تو غیر حکومتی عالم اسلام کاجو ایک بین الا قوامی اتحاد ہے اور خوش آئند
بات ہے ۔اس سے قبل مرحوم ذالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اسلامی ملکوں کی
کانفرنس منعقد کر کے اسلامی ملکوں کی اتحاد کی کوشش کی تھی۔ اس میں شہید
شاہ فیصل بن سعود کی بھی کوششیں شامل تھیں۔جب کبھی بھی ملت میں اتحاد ہو ا
تو اﷲ نے اپنے ثمرات سے نوازا ۔پہلے تحفط ناموس رسالت ؐ پر پوری ملت
اسلامیہ پاکستان نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا تو حکومت ِوقت علما کے مطالبات کے
سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ ۱۹۷۳ ء کا اسلامی آئین بنا اور اﷲ نے قاد یا نیوں
کو پارلیمنٹ کے ذریعے اقلیت قرار دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اتحاد کیا تو
اﷲ تعالیٰ نے مملکتِ اسلامیہ پاکستان ،دنیا کی سب سے بڑی مملکت عطا کی۔
صاحبو! اِسے آپ دیوانے کی بڑ کہیں یا جو بھی نام دیں آپ آزاد ہیں۔ ہمارے
نزدیک ’’لیگ آف مسلم نیشن‘‘ ہی امت مسلمہ کی کامیابی کا راز ہے۔ اس سلسلے
میں مسلمانوں کودنیا کو پہلے باورکروائیں کہ ایک ارب پچاس کڑور سے زائد
آبادی کی مسلمان قوم کو اقوام متحدہ کا مستقل نمائندہ تسلیم کرنا چاہیے تا
کہ دنیا کی آبادی میں تناسب قائم ہو اور اقوام متحدہ میں دنیا کی سب قوموں
کی حقیقی نمائندگی ہو۔ یہ ہمارا حق ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی مسلسل
کوششوں میں لگا ہوا ہے کے کسی نہ کسی طرح اقوام متحدہ کا مستقل نمائندہ بن
جا ئے۔ہمیں معلوم ہے یہ مشکل کام ہے مگر ایمان کی پختگی ہو اور مسلسل کام
کرنے سے انشا اﷲ یہ کام ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ ہمیں مسلم دنیا کے اندر بھی
اتحاد کی کوششیں شروع کر دینی چاہیے۔ ابھی تھوڑے دِنوں کی بات ہے ۱۹۲۴ء تک
ہمارا ایک مرکز تھا ایک حکومت تھی خلیفہ مسلمین تھا۔ عثمانی ترک مسلمان قوم
کی رہبری کر رہے تھے۔ اب بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔ ترکی کا صلیبیوں سے سو
سالہ پرانا معاہدہ چار سال بعد، ۲۰۲۳ء میں ختم ہونے والا ہے۔ اس تاریخی
موقعہ ترکی کو پھر سے خلافت قائم کرنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ سب مسلمان
حکومتوں کو اپنی اپنی مقامی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اس خلافت میں شریک
ہو جاناچاہیے۔بقول شاعرِ اسلا م علامہ شیخ ڈاکٹرمحمد اقبال ؒ:۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کاشغر
صاحبو! یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ موجودہ اقوام متحدہ پہلے یورپ پر
مشتمل عیسائی قوموں کی’’ لیگ آف نیشنز‘‘ تھی جو اب اقوام متحدہ کی شکل میں
موجود ہے۔ لہٰذا مسلم دانشوروں کو مسلمان حکومتوں کو بار بار اس بات
پرآمادہ کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کی بھی’’ لیگ آف مسلم نیشنز‘‘ قائم ہونی
چاہیے۔ ہم دنیا میں ۵۷؍آزاد ممالک ہیں۔دنیا کے نقشے کے مرکزمیں آباد ہیں۔
ذزخیز علاقے،آبی گزرگاہیں،فضائی گزر گاہیں،تیل کے ذخاہراور دیگر معدنی
وساہل سے مالا ما ل ہیں۔ پہلے’’لیگ آف مسلم نیشنز‘‘ بنا کر ہی اقوام متحدہ
یہ مطابہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں اقوام متحدہ میں مستقل نمائندگی دی جائے۔یہ
باتیں عجیب وغریب لگتیں ہیں۔ لیکن بات یہ ہی ہے۔جب تک حقوق کا مطا لبہ نہیں
کیا جاتاحقوق نہیں ملتے۔جب مطالبہ کریں گے اور مسلسل کرتے رہیں گے تو ایک
دن یہ کام بھی ہو جائے گا۔ خوش قسمتی سے او۔آئی۔سی کا پلیٹ فارم موجود
ہے۔اسی کو ’’لیگ آف مسلم نیشنز‘‘ کا نام دے کر کام شروع کر دیں۔ اس میں
اقوام متحدہ طرز کے ذیلی ادارے بنائیں۔ مشترکہ کرنسی اور مشترکا منڈی ہو جو
مسلم امّہ کی خدمت کریں۔بقول شاعر :۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں۔
کچھ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے فیصلہ اﷲ پر چھوڑ دیں۔اﷲ کی یہ سنت ہے کہ کچھ
کرنے والوں کو ضرور دے کر رہتا ہے ۔جدوجہد ہی شرط ہے ۔اس سے امتِ مسلمہ کا
حوصلہ بڑے گا دنیا کی قوموں میں زندہ رہنے کا شعور پیدا ہو گا۔لیکن یہ ہوگا
فطری لیڈر شپ کے ذریعے’’ اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی اور میزائل قوت کا
مالک مملکت اسلامی جموریہ پاکستان ‘‘کے ذریعے۔ جس کے عوام میں اسلام کے لیے
مر مٹنے کا جزبہ موجزن ہے۔جو موجودہ صلیبی یلغار کے سامنے سینہ سپر ہونے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف لیڈر شپ کی ضرورت ہے اور وہ اتحاد امت سے پیدا ہو
سکتی ہے۔لہٰذا پاکستان میں اتحاد اس کی پہلی کڑی ہے۔آخری کڑی’’ لیگ آف مسلم
نیشن ‘‘کا قیام ہے۔ اﷲ مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔آمین۔ |