انسان ۔۔۔ خاک کا پتلا۔۔۔ خاک سے بنایا گیا۔۔۔ خاک میں مل
جائے گا۔۔۔ اس کی کیا حیثیت کہ اپنی کہ دوسروں کو حقیر جانے۔۔۔ اسی میں نے
عزازیل کو ابلیس بنایا۔۔۔اسی میں نے ابو الحکم کو ابو جہل کی اندھی کھائی
میں دھکیل دیا ۔۔۔ قارون کو اسی میں نے لے ڈوبا۔۔۔ اور نمرود کو اسی میں نے
آسمان سے لا کر زمین پہ پٹخ دیا۔۔ انسان جہاں میں کو اپنے سینے سے لگا لیتا
ہے وہی مات کھا جاتا ہے۔۔ پھر چاہے اسکے پاس دنیا کی ہر شے موجود ہو اندر
سے وہ خالی ہوجاتا ہے۔۔۔ لیکن جب یہی انسان اس میں کو مٹاتا ہے تو فنا سے
بقاء کی اونچائیوں کو طے کرتا چلا جاتا ہے یہ راستہ آسان بھی ہے اور مشکل
بھی پر ناممکن نہیں۔۔۔ اپنی خواہشات کو کچلنا اور شریعت پر عمل ہی سے انسان
میں کی تاریکیوں سے نکل آتا ہے ۔۔۔ اس کا من دھل جاتا ہے جب من دھل جاتا ہے۔۔۔
تو انسان خود کا آئینہ بن جاتا ہے۔۔ جس میں اس کو ہر وہ چیز دیکھ لیتا ہے۔۔
جس سے وہ ناآشنا ہوتا ہے۔۔۔ من پاک ہوا۔۔ تو بیمار روح کی دوا بن جاتا ہے۔۔۔
روح چمکتی ہے اور فنا سے بقاء کی منازل طے کرتی ہے۔۔۔تب انسان دنیا میں
رہتا ضرور ہے مگر دنیا کا نہیں رہتا۔۔۔ اللہ سے ملاقات کا شوق بڑھتے بڑھتے
ایسا مقام آجاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو بھول جاتا ہے۔۔۔ دل یاد الہی میں غرق۔۔
زبان ذکر الہی سے تر۔۔ یہی فنا سے بقا کا سفر ہے ۔۔۔ جہاں میں میں نہیں
رہتا تو ہی تو ہوجاتا ہے۔۔
|