کچھ الفاظ اور جملے اس طرح زبان زدخاص و عام ہو
جاتے ہیں کہ آدھی لا ئن ہم بولیں تو سامنے والا مکمل کر دیتا ہے اور زیادہ
تر لوگ مطلب تک نہیں جانتے اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی
جاتی بعض تعلیم یافتہ بھی وضاحت نہیں کر سکتے اور اگر جانتے بھی ہوں تو اس
کو گول کر دیتے ہیں جیسا کہ جہیز ہے کسی سے بھی پوچھیں تو کہے گا ،جہیز
لعنت ہے ،زبانی جمع خرچ کرنے والوں کے لیے کہنا تو آسان ہوتا ہے مگر عمل
کہیں نظر نہیں آتا بلکہ کچھ سفاہت طبیعت کے مالک لوگ تو باقاعدہ ڈیمانڈبھی
کر لیتے ہیں کہ آپ کی اپنی عزت بڑھے گی ورنہ ہمیں مال و متاع کی کوئی کمی
نہیں ہر کام کی ابتدا کسی پوئنٹ سے ہوتی ہے اس کی تا ریخ کو دیکھا جائے تو
ہندو کلچر میں ملتی ہے کیوں کہ اس میں وراثت کا قانون نہیں لڑکی کو جوکچھ
دینا ہوتا و ہ شادی کے وقت دے دیا جاتااسی لئے جب رخصتی کے لئے لڑکے والے
جاتے تو اپنے ساتھ سامان اٹھوانے اور اگر دور دراز میں جانا ہوتا تو راہ
زنوں سے حفاظت کے لیے اپنے ساتھ لوگوں کی کثیر تعداد لے جاتے جن میں ا سلحہ
سے لیس بھی شامل ہوتے اس جتھے کو بارات کا نام دیا جاتا ورنہ اسلام میں
بارات کا کوئی کنسیپٹ ہی نہیں جس کو والیمہ سے بھی زیادہ اہم کر دیا گیا ہے
کچھ لوگ تو بارات پر ہی مدعو کر لیتے ہیں تاکہ والیمہ کا خرچہ بھی بچ جائے
یہ زمہ داری بھی لڑکی والوں کے ناتواں کندھوں پر ڈالی جائے بر صغیر کے
مسلمان چونکہ ہندؤں کے ساتھ ہی رہتے تھے اس لئے اسلام توقبول کر لیا لیکن
کچھ چیزیں جو ں کی توں برقرار رہیں ایسا نہیں کہ مبلغین ؓنے ان کے نقصانات
سے آگاہ نہیں کیا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر علاقائی کلچر کا
رنگ غالب آتا گیااس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اسلام نے بیٹی کو وراثت میں حصہ
دار بنایااورہندو جہیز دے تے اب سر مایہ داروں کو وراثت بچانے کے لیے
ہندوآنہ رسم پسند آئی ان کا فائدہ غریب کے گلے کا پھندہ بن گیاکیوں کہ
وراثت جس کے پاس ہوتی اسی کو دینا پڑتی اس طرح کسی مفلس پر بوجھ نہیں پڑتا
تھا اسلام آسانیاں پیدا کر تا ہے لیکن انسان کی ذات شریف نے آزادی کو ٹھکرا
کر رسموں کی دل دل میں غوطہ خوری کے شوق میں سر سے پاؤں تک دھنسنا پسند
فرمایا اﷲ کے احکامات کو بھولاکر دنیاوی رواجوں کو اہمیت دی اسلام تو
دیکھاوے کی عبادت کو قبول نہیں کرتا اور تو اور کچھ لوگ جہیز پیکج کے نام
پر سیاست بھی چمکاتے ہیں کسی غریب کی بیٹی کو جہیز دے کر نیکی کی جائے یہ
کسی نیکی ہے جس کو لعنت بھی کہتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کیا یہ
دہرامیعارنہیں تبلیغ کا مطلب لوگوں کو قرآن پاک کی طرف لانا ہے جبکہ یہ تو
اس کے الٹ ہوگیاوہ نہیں سمجھتے تو ہم ڈھیلے پڑ جاتے ہیں ایک طرف تو یہ
فریضہ آدا ہو رہا ہے اور دوسری طرف بوجھ کو روا ج دیا جا رہا ہے جس گھر میں
اس نے جانا ہے کیا ان کے پاس ایک انسان کے لیے سامان نہیں ہوتا دس بارہ
مہمان آجائیں تو ان کے لئے آسانی سے انتظام ہوجاتا ہے اور ایک لڑکی کی اتنی
ضرورت ہوتی ہے کہ جب تک کمرہ بھرا نہ ہو وہ نہیں رہ سکتی افسوس کی بات ہے
اﷲ تعالیٰ اپنی پہلی قوموں سے اس طرح مخاطب ہو ئے اور وہی احکام ہمارے لیے
ہیں ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔ترجمہـ:حکم کرتا ان کو ساتھ بھلائی کے اور منع
کرتا ہے ان کو نا معقول چیزوں سے اور حلال کر تا ہے واسطے ان کے پاکیزہ
چیزیں اور حرام کر تا ہے اوپر ان کے ناپاک چیزیں اور اتار رکھتا ہے ان سے
بوجھ ان کے او ر طوق جو تھے اوپر ان کے ۔الاعراف۔آیت ۱۵۷۔ اس کو ہوا دینے
والا گرہ تو اچھا خاصہ کمالیتاہے ایک خود راہ راست سے بھٹکتے ہیں دوسرا
اپنی حرکتوں پرپر دہ ڈلنے کے لیے ایک عظیم ہستی کی مثال پیش کر تے ہیں کہ
حضرت فاطمہؓ کو بھی تو جہیز دیا گیا چاہے وہ ایک مشکیزہ ،چکی ،کوزہ ،مصلہ،تکیہ
اور گدہ ہی تھاان کی کم علمی پر افسوس آپﷺ حضرت فاطمہؓاور حضرت علیؓ دونوں
کے سر پرست تھے حضرت علیؓ کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا اس لئے اب ایک نیا
گھر بسانا تھا ،ڈاکٹر اسرار لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ
فاطمہؓ کو مہر دینے کے لیے آپ کے پا س کیا ہے تو جواب ملا ایک زرہ کے علاوہ
میرے پاس کچھ بھی نہیں جس پر آپ ﷺ نے کہا اس کو بیچ کر مہر آداکر دیں جو اس
وقت حضرت عثمانؓ نے تیس درہم یا دینار میں خرید لی اور بعد میں تحفہ کے طور
پر واپس کر دی اس مہر کی رقم سے گھر کا کچھ ضروری سامان خریدا گیا، اس کو
بیساکھی بنا کر غریب پر بیٹی کو بھاری بھرکم بوجھ بنا دیا گیا آج کا غریب
بھی اسلامی تعلیمات سے نظریں چراکر دنیا وی چکروں کے چکر میں با خوشی
پڑگیاوہ بھی اس مقابلے کی دوڑمیں پیچھے نہیں رہنا چاہتا یہ تمغہ تو وہ ضرور
اپنے نام کرنا پسند کرے گا چاہے اس کے لیے کسی امیر مالک کا گلہ کاٹ کر
دولت ہتھیانا پڑے یا اپنی گردن گروی رکھ کر اور اگر موقع ملے تو اپنی اوقات
کے مطابق کرپشن میں جو ہر دیکھانے کا ارادہ کرے گافیصلے کی پختگی کے مطابق
دریچے کھلتے چلے جائیں گے ظلمت کی سلطنت میں بادشاہوں کی طرح رہنا پسند ہے
لیکن مسلمانوں کی سی سادگی اپنا کر صراط مستقیم پر چلنے سے اس کی عزت کی
چادر داغ دار ہوتی ہے رشتہ کر تے وقت ان کی بھی شرط یہی ہوتی ہے لوگ امیر
ہوں چاہے جتنا جہیز مانگیں دیں گے اس طرح کے لوگوں کوملتے بھی ایسے ہی لوگ
ہیں جب کوئی زوال کا دریچہ کھلتا ہے تو سب تنکوں کی طرح اڑ جاتے ہیں اپنے
ارد گرد جم غفیر پانے والا تنہائی کا شکار ہوتو یقین آتا ہے یہ سارا کمال
تو پیسے کا تھا اسی لیے کہتے ہیں برے وقت میں سایہ بھی چھوڑ جاتا ہے میں تو
یہی کہوں گی ۔
مصیبت کی گھڑی میں سب جہاں میں چھوڑ جاتے ہیں
شجر کو جس طرح پتے خزاں میں چھوڑ جاتے ہیں |