دنیا میں عظیم لوگ ایک جذبہ اور لگن کے ساتھ پر خلوص
انداز میں اپنے کام میں مگن رہتے ہیں اور انہیں کسی پذیرائی کی خواہش نہیں
ہوتی۔ اہل علم و دانش کی نظر اعلیٰ مقاصد پر ہوتی ہے اور وہ اپنے افکار و
نظریات سے قوم کی راہنمائی کرتے ہیں۔ ایسے عظیم لوگ کسی ستائش، مفاد، شہرت
یا اعزاز کے حصول کی تمنا نہیں رکھتے بلکہ ان کی شخصیت ایسی چیزوں سے ماورا
ہوتی ہے ۔اس کے باوجود دنیا بھر کی حکومتیں اپنے اہل علم کی عزت افزائی
کرتی ہیں ، انہیں اعزازات سے نوازتی ہیں ۔ ان کے نام پر عظیم عمارتوں اور
مقامات کے نام رکھنا، ان کے نام کا سکہ اور کرنسی نوٹ جاری کرنا، ڈاک ٹکٹ
اور ان کے نام پر انعامات دینا ایک عام روایت ہے۔ حکومت پاکستان بھی ہر سال
زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کرنے والوں کی عزت افزائی کرتی
ہے اور صدر پاکستان انہیں اعزازات عطا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایوان صدر اور
حکومت پاکستان کی توجہ علم و ادب کی دو عظیم شخصیات کی جانب اس توقع کے
ساتھ مبذول کرانا چاہوں گا کہ اس سال یوم پاکستان کے موقع پر انہیں ستارہ
امتیاز، تمغہ امتیاز یا حسن کارکردگی کاصدارتی تمغہ عطا کیا جائے گا۔ان
دونوں شخصیات کا پاکستان، اسلام، اردو ادب، اقبالیات اور اہل پاکستان کے
لئے اس قدر عظیم کام ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ اب تک حکومت پاکستان کی توجہ ان
کی طرف کیوں مبذول نہیں ہوئی۔
پہلی شخصیت ایک طویل عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہے اور علم و ادب کی دنیا
میں ممتازمقام رکھتی ہے۔ انہوں نے اسلام، پاکستان، قائداعظم، اقبالیات،
قرآن حکیم، تحریک پاکستان، سیرت رسول اکرمﷺ اور دیگر کئی موضوعات کے بارے
میں انگریزی اور اردو میں 60سے زائد تحقیقی، مستند اور ضخیم کتابیں لکھی
ہیں اور 30کتابوں کے مسودے اشاعت کے لئے تیار ہیں۔قرآن حکیم، اسلام اور
سیرت النبیؐ پر انہوں نے بیس سے زائد کتابیں لکھی ہیں جن میں رسول اکرمؐ
مغربی اہل دانش کی نظرمیں، Quranic Topics 2 Volsقرآنی حکمت کے چند جواہر ،
قرآنی موضوعات، قرآنی دعاؤں کاا نسائیکلوپیڈیا، قرآن مجید کے بارے میں
یورپی مفکرین کی رائے، Prophets and Messengers of Allah اور دیگرکتابیں
شامل ہیں۔قائد اعظم کے بارے میں ان کی کئی کتابیں ہیں جن میں جہاں قائداعظم(
ایوارڈ یافتہ )،قائد اعظم کے اسلامی افکار اور قائد اعظم نے کہا اہم ہیں ۔
تحریک پاکستان کے بارے میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں پاکستان
کا قومی ترانہ اور چوہدری رحمت علی پر چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔اگر فکر
اقبال کے حوالے سے ہی ان کے کام کو دیکھا جائے تو وہ کسی بھی اعزا ز کے
مستحق ٹھہریں گے۔ انہوں نے نصف صدی قبل لندن میں مجلس اقبال کی بنیاد رکھی
اور ہر سال باقاعدگی سے یوم اقبال مناتے ہیں۔اقبالیات پر ان کی شاہکار
کتابوں کی تعداد 23 ہے جن میں موضوعات اقبال، اقبال کے شعری موضوعات، خطبات
اقبال کا جائزہ، مضامین خطبات اقبال، اقبال کا نور بصیرت، نطشے اور اقبال،
Iqbal the Poet & Philospher of Pakistan شرح اور فرہنگ شکوہ جواب
شکوہ،اقبال کا فلسفہ ایران، ذکر حسینؓ اور اقبال، اقبال کے تصور اسلام کا
نچوڑ (تین جلدیں)، شرح ارمضان حجازاور اتنی زیادہ کتابیں ہیں کہ کالم کا
دامن تنگ ہونے کی وجہ سے تمام کے نام نہیں لکھے جاسکتے۔ انہوں نے علامہ کی
شاعری کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے دیگر موضوعات
پرگیارہ کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی کتابیں پاکستان کے مستند اداردوں اقبال
اکیڈمی لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد اور دیگر نے شائع کی ہیں۔ وہ
صرف نثر نگار نہیں بلکہ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں اور شعر وادب پر ان کی
چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔صحافت کے میدان میں بھی ان کی خدمات کا سب کو
اعتراف ہے اور قومی روزناموں میں ان کے باقاعدگی سے کالم شائع ہوتے ہیں۔
لندن میں کچھ عرصہ انہوں نے ایک اخبار کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔
ان کی شخصیت اور فن پر تحقیقی کام بھی ہوا ہے ہے ایک طالب علم نے ان کی
تصانیف پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ عظیم
شخصیت پروفیسر محمد شریف بقا کی ہے جو لندن میں مقیم ہیں اور ان کیاس قدر
شاندار علمی و تحقیقی کام پر صدر پاکستان کی جانب سے انہیں اعزاز ملنا
چاہیے۔
دوسری شخصیت بھی ایک طویل عرصہ سے یورپ میں مقیم ہے اور اردو ادب، اقبالیات،
اسلام، بچوں کے ادب، کشمیر اور پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دے
رہی ہے۔ انہوں نے بچوں کے عالمی ادب کو اردو میں منتقل کرنے کا قابل فخر
کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کی ایک درجن ایسی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
غالباََ وہ واحد ادیب ہیں جنہوں نے یہ عظیم کام کیاہے ۔ اردو میں بچوں کے
ادب کے لئے انہوں نے جس قدر کام کیا ہے اس کی تفصیل اس کالم میں ممکن
نہیں۔بچوں کے لئے ان کی تحریر کردہ کتابیں اردو ادب میں اہم اضافہ ہیں۔ ان
کے دو شعری مجموعے بھی مقبولیت عام رکھتے ہیں۔ فکر اقبال پر انہوں نے منفرد
تحقیقی اور علمی کام کیا ہے کہ بہت سے اہل علم کا کہنا ہے کہ ان گوشوں کی
طرف کسی اور کی نظر نہیں گئی۔ انہوں نے یورپ کے بیس سے زائد ممالک میں
اسلام کی تاریخ لکھی ہے جو لاجواب کارنامہ ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک میں
اردو کی تاریخ لکھ کر انہوں نے محققین اور طلبہ پر احسان عظیم کیا
ہے۔اسیکنڈے نیویا میں مظلوم کشمیری عوام کے لئے انہوں نے ہمیشہ آواز اٹھائی
ہے۔ وہ پچیس سال ریڈیو ڈنمارک کی اردو سروس کے روح رواں رہے ہیں۔ انہوں نے
ڈینش ادب کے معروف ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کی کتابیں نیشنل بک
فاؤنڈیشن ، اکادمی ادبیات اور رائل ڈینش لائیبریری نے شائع کی ہیں۔ ان کا
ایک عظیم کارنامہ پندرہ ہزار سے زائد ڈینش الفاظ پر مشتمل ڈینش اردو لغت کی
اشاعت ہے۔وہ عظیم شخصیت ڈنمارک میں مقیم نصر ملک کی ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ
انہیں اس علمی سفر میں اپنی اہلیہ ہما نصر کی بھر پورمعاونت حاصل ہے۔ انہوں
نے اپنے بھائی ظفر ملک کے ساتھ مل کر اسیکنڈے نیویا کا پہلا اخبار صدائے
پاکستان جاری کیا اور اب اردو ہم عصر کے مدیر ہیں۔نصر ملک کی ان علمی، ادبی
، تحقیقی اور صحافتی طویل جدوجہد پر انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے اعزاز
ملنا چاہیے۔ امید ہے کہ ہمارے اہل علم، برطانیہ اور ڈنمارک کی ادبی اور
سماجی تنظیمیں بھی ہماری تائید کریں گی۔ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر
اور ڈنمارک میں سفیر پاکستان جناب سید ذوالفقار گردیزی سے درخواست ہے کہ وہ
محمد شریف بقا اور نصر ملک کو صدارتی اعزاز عطا ہونے میں اپنا کرادر ادا
کریں تاکہ قوم کے ان محسنین کی خدمات کا اعتراف ہوسکے۔ یہ دونوں شخصیات بجا
طور پر سرکاری اعزاز کی حق دار ہیں۔ |