لادینیت، الحاد، مادیت، جنسی بے را ہ روی، ذہنی انتشار ،
ٹوٹتی بکھرتی اخلاقی و تہذیبی قدروں کے بیچ آج کی نوجوان نسل بظاہر عروج
اور ببطان زوال کی انتہاؤں میں گر چکی ہے۔ اوپر سے ہنستے مسکراتے چہرے اندر
سے بے شمار ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ نئی نسل اپنے ذہنی انتشار کو دور
کرنے کے لیے سگریٹ نوشی کرتی ہے، انٹرنیٹ پر وقت گزارتی ہے، انٹرنیٹ پر
اپنا ہمدرد اور مہرباں تلاش کرتی ہے، فلمیں دیکھتی ہے، مغموم نغمے سنتی ہے
لیکن ان سب کے باوجود اسے ذہنی آسودگی حاصل نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کے انقلاب نے
نوجوانی کی دہلیز بھی سمیٹ کر بچپن کی دہلیز سے ملا دی ہے۔ اب تو اسکول کے
کم عمر طلبہ و طالبات بھی اپنی عمر سے کافی بڑے ہو گئے ہیں۔ ’گرل فرینڈ‘
اور ’بوائے فرینڈ‘ کا کلچر کالج اور یونیورسٹی سے نیچے اتر کر اب ہائی اور
مڈل اسکول تک پہنچ چکا ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اب تو ’’اسکول لائف‘ میں
ہی ’بریک اپ‘ بھی ہونے لگا ہے۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون نے تو گاؤں اور شہر
کا فرق بھی مٹا دیا ہے۔ گاؤں میں رہنے والے نوجوان بھی ان غلاظتوں میں پوری
طرح ملوث ہو چکے ہیں۔
ہمارے پاس ان نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے کوئی مضبوط لائحۂ عمل نہیں ہے۔
جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے آج ہمارے یہاں بڑے بڑے اسپتال اور مختلف
امراض کے ماہر اطباء موجود ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ’روحانی امراض‘ کے علاج
کے لیے ’خانقاہیں‘ ہو اکرتی تھیں۔ صوفیائے کرام روحانی اطباء ہوا کرتے تھے۔
ان خانقاہوں میں’تزکیۂ نفس‘ اور ’تربیت نفس‘ کی باضابطہ مشق کرائی جاتی تھی۔
صوفیائے کرام ’بیماروں‘ کی استعداد اور نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا
علاج کرتے تھے۔ خانقاہیں تو آج بھی موجود ہیں لیکن خانقاہوں سے ہمارا رشتہ
ٹوٹ چکا ہے اور اب ایسے صوفیائے کرام بھی نہیں ملتے جن کی ایک نگاہ سے
تقدیریں بدل جایا کرتی تھیں۔
جس قوم کا نوجوان 17 سال کی کم عمری میں ’فاتح سند‘ کا لقب حاصل کرنے
والاہو آج اس قوم کے نوجوانوں کے شب و روز نغمہ و سرور کی محفلوں اور سوشل
میڈیا کی نذر ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کی اخلاقی پستی کے ذمہ دارایک طرف جہاں وہ
خود اور ان کے حالات ہیں وہیں والدین اور سرپرست بھی ہیں۔ ’کلچر گیپ‘ نے
بچوں کوان کے والدین سے بہت دور کر دیا ہے۔ والدین آج کے بچپن کا موازنہ
اپنے وقت کے بچپن سے کرتے ہیں۔ انہیں بچوں کے ہاتھ میں موبائل اور لیپ ٹاپ
دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ وہ ان کی طرز زندگی سے شاکی نظر آتے ہیں۔نتیجے کے
طور پر ان کے پاس صرف شکوے ہی شکوے ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو جب اپنے گھر سے
محبت نہیں ملتی تو وہ بازار کا رخ کرتے ہیں۔اسکول،کالج اور انٹرنیٹ پر محبت
تلاش کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بازار کی ہر چیز اصلی نہیں ہوتی۔ دھوکہ
کھانے کے بعد انہیں خود سے، اپنے معاشرے سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ وہ نفسیاتی
بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
بدلتے ہوئے وقت اور زمانے پر آنسو بہا کر اُسے بدلا نہیں جا سکتا۔ نوجوانوں
میں ایمانی غیرت و حمیت بیدار کرنے کے لیے ہمیں مثبت پیش رفت کرنی ہوگی۔ان
کے مسائل کو سمجھنا ہوگا۔ان کی نفسیات کی تہہ تک اترنا ہوگا۔ انہیں ان کے
مقصدِ حیات سے روشناس کرانا ہوگا۔ یہ سب کچھ بغیر ’روحانی تربیت‘ کے ممکن
نہیں ہے۔ ہم نئی نسل کے ہاتھ سے موبائل اور اسمارٹ فون نہیں چھین سکتے۔ کو
ایجوکیشن ہماری مجبوری ہے۔ ہمیں ایسا ’روحانی نصاب‘ تیار کرنا ہوگا کہ ’کو
ایجوکیشن‘، موبائل،اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور تمام مادی ذرائع کے درمیان رہتے
ہوئے بھی ان کے اندر کا ’مومن‘ اپنی پوری آن، بان اور شان کے ساتھ زندہ رہے
اور دنیا کو زندگی کا درس دیتا رہے۔
اس سلسلہ کی مزید باتیں ان شاء اﷲ اگلے کالم میں ملاحظہ فرمائیں۔
|