تحریر۔۔۔ فیصل جاوید چوہدری
بدقسمتی دیکھئے کہ ہراج خاندان کا اقتدارہو یا ڈاھا فیملی کا عروج
عبدالحکیم اور عبدالحکیم کی عوام کو ہمیشہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا اور
پھینک دیا گیا ہمیشہ سے ضلع خانیوال عبدالحکیم پر حاکم رہا ہے اور ضلع
خانیوال نے اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے عبدالحکیم پر اکاس بیل کا
کردار ادا کیا اکاس پیلے رنگ کی ایک بل دار بیل ہوتی ہے وہ جس درخت پر چڑھ
جاے اس کو پھلنے پھولنے نہیں دیتی یہی حال خانیوال نے عبدالحکیم کا کیا ہے
عبدالحکیم گزشتہ 20 سالوں سے ہلکی آنچ پر سلگ رہا ہے اور ہر الیکشن میں
سیاستدان مختلف نعروں سے اس سلگتی آگ کا عوام کو ایندھن بناتے ہیعبدالحکیم
چونکہ نواحی دیہات پر مشتمل علاقہ ہے اور یہاں پر تعلیم کی شدید کمی ہے اس
لیے عوام میں سیاسی شعور کم تھا مگر اب حالات بدل چکے ہیں اس کی سب سے بڑی
مثال عبدالحکیم میں ہر ادارے کا سکول ہے آنے والے دس سالوں میں عبدالحکیم
کی عوام میں 40 فیصد پڑھے لکھے مکمل سیاسی شعور رکھنے والے نوجوان سابقہ
فرسودہ سیاسی سسٹم کوبڑا آپ سیٹ دیں گے بات شعبہ صحت کی چل رہی تھی چند دن
پہلے جب عبدالحکیم میں سعید بٹ کو ڈاکووں نے دوران ڈکیتی قتل کیا تو شہر
عبدالحکیم کی بدنصیبی دیکھیں کہ برسر اقتدار خاندان کو شہر میں ایمبولینس
دستیاب نہیں ہو سکی اور ان کو پرائیوٹ گاڑی میں ہسپتال منتقل کرنا پڑا(یاد
رہے ابھی تک پولیس قاتل گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے) (اس کیس کے حل نا
ہونے پر جلد بٹ خاندان اور سول سوسائٹی ایک بڑے احتجاج کا پروگرام رکھتی
ہے)سرکاری ہسپتال میں دستیاب سہولیات کا جائزہ لیا جاے توفریش واٹر کولر تک
موجود نہیں سرکاری عملہ اور ڈاکٹروں کی خوش اخلاقی کی وجہ سے ہسپتال میں ہو
کا عالم ہوتا ہے ڈاکٹر اور عملہ کی پرائیوٹ ہسپتال میں ڈیوٹی اور آپسی
مسائل کی وجہ سے مریض ہسپتال جانے سے گریزاں ہیں انہتائی ایمرجنسی میں اگر
کوئی مریض چلا بھی جاے تو عملہ کے افراد ڈاکٹر صاحب کام گئے ہیں ایمبولینس
خراب ہے ڈرائیور کسی پرائیوٹ کام گیا ہے اس مرض کا ہسپتال میں علاج ممکن
نہیں اور جتنا جلدی ہو سکے مریض کو نشتر ہسپتال ملتان لے جائیں ایکسرے
ٹیکنیشن کا اوقات کار اور مزاج ان کی ذاتی مرضی پر منحصرہیں گائنی شعبہ پر
تو لکھتے ہوے قلم لرز رہاہے ہمت ہینہیں پڑ رہی اﷲ کے فضل و کرم سے پرائیوٹ
سیکٹر گائنی شعبہ کی وجہ سے پھل پھول رہاہے لواحقین جب ایک ڈلیوری کیس کا
15 ہزار سے 40 ہزار روپے پرائیوٹ سیکٹر میں ہاتھ باندھ کر ڈاکٹر کو دے رھے
ہیں تو سرکاری ہسپتال والوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے پیٹی بھائیوں کے
پیٹ پر لات ماریں اس لیے گائنی شعبہ پر سرکاری ہسپتال میں کیوں سہولیات
فراہم کی جائیں اگر عبدالحکیم میں شعبہ صحت پرائیوٹ سیکٹر پر بات کریں تو
چند ڈاکٹروں کو چھوڑ کر شعبہ صحت میں اتائی لوگوں کا راج ہے جب انجان مریض
ان کلینکوں پر پھنس جاتے ہیں تو نام نہاد ڈاکٹر مالی اور جسمانی طور پر
مریض اور لواحقین کو مکمل لوٹنے کے بعد ملتان ریفر کر دیتے ہیں وہ مریض جو
ایک ماہ اس ڈاکٹر کا زیر علاج رہنے کے بعد مکمل لا علاجہو گیا تھا ملتان
جاتے ھوے راستے میں جان بحق ہو جاتا ہے اور بھولے بھالے مریضوں کو قاتل
ڈاکٹر کے اس قتل کی واردات کی سمجھہی نہیں آتی کہ صرف پیسوں کے لیے اس نے
اس مریض کو جس کے مرض کی اسے سمجھہی نہیں تھی اسے اپنے پاس زیر علاج رکھ کر
موت کے منہ میں دکھیل دیتاہے عبدالحکیم سے گردونواح کا محل وقوع شعبہ صحت
کے مافیاز کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہے قریب تر مناسب ہسپتال 50 کلومیٹر
اور نشتر ہسپتال 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے شعبہ طب والوں نے
عبدالحکیم کے شہریوں کو بھیڑیوں کی طرح نوچ کھایا ہے یہی وجہ ہے کہ صرف ایک
عشرے میں شہر عبدالحکیم میں پریکٹس کرنے والے مستند ڈاکٹر اتائی نیم اتائی
حکیم نیم حکیم لاکھوں سے اربوں پتی کا سفر طے کر چکے ہیں جب بھی مریض کسی
پرائیوٹ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اگر مریض نزلہ زکام بخار کے علاوہ کسی اور
مرض میں مبتلا ہے تو ڈاکٹر اور ہسپتال کی چاندی ہو جاتی ہے اﷲ کے فضل و کرم
سے جو مرض سرے سے ہے ہی نہیں اور جس مرض کا علاج ڈاکٹر صاحب کر ہی نہیں
سکتے ان کے ٹیسٹ بھی کروا لیے جاتے ہیں ہسپتال میں داخل ہونے سے ادوایات تک
ادوایات بھی صرف اسی ہسپتال سے ملنی ہیں ٹیسٹ بھی خاص لیبارٹریوں کے ہی
قبول ہونے ہیں کا لامتناہی سلسلہ چل نکلتا ہے جس کا اینڈ مریض کی ملتان
جاتے ہوے رستے میں موت کی صورت نکلتا ہے ہزاروں مثالیں موجود ہیں ہر گھر
میں میاں چنوں تلمبہ عبدالحکیم پل باگڑ اس بیلٹ میں کتنے ہی لوگ اس طریقہ
کار کی وجہ سے اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں سرکاری ہسپتال عبدالحکیم
سمیت ہر شہر کے سرکاری ہسپتال میں اگر کوئی مریض چلا جاے تو واپس پر وہ
ایسی داستانیں سنا دیتاہے کہ کسی دوسرے مریض کا جانا کو دل ہی نہیں
کرتاپرائیوٹ سیکٹر کو سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر عملہ کی مکمل پشت پناہی کی
وجہ سے یہ عروج حاصل ھے شہر عبدالحکیم میں میں محکمہ صحت کا چیک اینڈ بیلنس
صفر ہے جگہ جگہ نان کوالیفائڈ لوگ پریکٹس کر رہے ہر دوسرا آدمی ڈینئل سرجن
کی پریکٹس کر رہا ہے شہر میں کئی لیبارٹریز بن چکی ہیں جو منظور شدہ نہیں
ہیں اور نا ہی ان کا کام معیاری ھیاتائی لوگوں کی وجہ سے ہر شخص مریض بنا
ھوا ہے کسی پرائیوٹ ہسپتال میں معیاری طریقہ پر سرجری نہیں ہوتی اور نا ہی
معیاری آلات استعمال ہوتے ہیں محکمہ صحت خانیوال نے ان تمام مسائل پر آنکھ
بند کر رکھی ہیں اور اس شعبہ کے ہر فرد کو اجازت دی ہوئی ہے کہ وہ عوام کی
جان مال سے بے فکرہو کر کھلیں رہی سہی کسر شہر عبدالحکیم کے حکیموں نے پوری
کیہوئی ہے حکمت کی آڑ میں معصوم مریضوں کو دن رات اپنی پڑیوں اور شربتوں
میں سٹے رائیڈ اور اینٹی بائیوٹک ادوایات مکس کر کے کھلا پلا رہے ہیں شہر
عبدالحکیم میں جو چند مستند حکیم ہیں ان کے پاس مریض جاتے نہیں آور جو
مستند نہیں ہیں وہ اپنے(تیر تکوں) سے مریضوں کا علاج کر کے ارب پتیہو چکے
ہیں اور مریض قبروں میں جا چکے ہیں شہر عبدالحکیم میں اگر میڈیکل ہالوں پر
بات کریں تو سابقہ پنجاب حکومت کے واضح احکامات کے باوجود چند میڈیکل ہال
کو چھوڑ کر سب کی اسناد کراے پر مستعار لی ہوئی ہیں ہر دوسرے میڈیکل سٹور
پر 2نمبر غیرمعیاری ادوایات ملٹی نیشنل کمپنیاں کے نام سے فروخت کی جا رہی
ہیں شہر عبدالحکیم میں چند میڈیکل ہال ممنوعہ ادوایات نشہ آور ادوایات مانع
حمل ادوایات کھلے عام فروخت کر رہے ہیں پورے شہر میں محکمہ صحت پرائیوٹ
سیکٹر پر کسی کا چیک اینڈ بیلنس نہیں کون کیا کر رہا کیا بیچ رہا ہے کس مرض
کا علاج کر سکتا ہے لیباٹری ٹیسٹ کرنے کی اہل ہے کہ نہیں غرض محکمہ صحت کا
پورا نظام اﷲ کی(اس امید) پر چل رہاہے محکمہ صحت کے لوگوں کی نااہلی کی کئی
مثالیں اون ریکارڈ ہیں کئی مریض موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ |