بلا شبہ علامہ ابنِ خلدون کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج
نہیں، علامہ آ ٹھویں صدی ہجری اور چودہویں صدی عیسویں کی نامور عظیم مسلم
شخصیت ہیں جو ایک علمی،ادبی،تاریخی،سیاسی، فنونی ،فلسفیانہ،عمرانی و سماجی
جامعیت و بصیرت کی حامل ہے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ابنِ خلدون عظیم
مسلم مفکر، مدبر، مصلح، معلم، سیّاحِ عالم، فلسفی ، مبصراور نامورمؤرختصور
کئے جاتے ہیں ۔علامہ نہ صرف فلسفۂ تاریخ کے موجد و بانی ہیں بلکہ عمرانیات،
سیاسیات و اقتصادیات کے بعض اصول بھی آپ سے منسوب ہیں۔ مقصودِ امر یہ ہے
کہ دورِ حاضر کی نوجوان نسل اپنے اسلاف کے علمی و عملی کارناموں سے اکثر
نالاں ہے اور مغرب کی تباہ کن دلفریبی اور ذہن سازی کا شکار ہے گویا اس
نومسلم نسل نےمغربی تہذیب کی ابھرتی ہوئی ترقی کو حرفِ آخر سمجھ لیا ہے ،
ان کے افکار و نظریات اپنے اندر جذب کر رہے ہیں جو کہ حقیقت میں سراب ہے
اور بالآخر اس کا انجام بہت خطرناک ثابت ہوگا۔لہذا اس مسلم نوجوان نسل کو
بتانا مقصود یہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے اسلامی تہذیب کے ذریعے کس طرح عظیم
سیاسی قوت حاصل کر کے اس پوری دنیا کے خطہ پر حکومت کا سکہ بٹھایا تھا۔اسکی
مسلم تاریخ سے چند بے نظیر مثالیں ہیں جن میں خلافتِ راشدہ، اسپین پر آٹھ
سو سالہ مسلم حکومت رہی اور بر صغیر ہند پر ہزار سالہ مسلم حکومت رہی اور
یہی نہیں بلکہ معاشی، سماجی، اخلاقی، جمالیاتی، روحانی، ٹیکنالوجی نیز کوئی
بھی زندگی کے شعبہ جات ہوںاپنی عظمتوں اور ترقیوں کی بلندیوں کو پہنچے۔ یہ
ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی قوم کے نزدیک کوئی شے اہم نہیںہوتی ما سوا دو
اشیاء کے ایک اس قوم کا قانون اور دوسری اس کی تاریخ۔چنانچہ ہمارا قانون
قرآن و سنت ہے اور تاریخ مسلم تاریخ ہے اور آج ہم ان دونوں سے ہی باغی
ہیں جو دنیا بھر میں ہماری ذلت اور زوال کا سبب بنتی جارہی ہے۔ واجبِ امر
ہے کہ اپنے اکابرین کے کارنامے اجاگر کیے جائیں تا کہ آنے والی نسلوں کو
کارآمد بنایا جا ئے اوراپنے اجداد کے علمی و تحقیقی خدمات کو آگے بڑھانے
کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی ترقی و استحکام میں ایک کلیدی اور ناگزیر کردار
ادا کر سکیں۔
نام و نسب
ابو زید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن محمد بن الحسن بن جابر بن ابراہیم
بن عبدالرحمن بن خلدون ہے۔ کنیت ابو زید ہے۔ شہرت اپنے آبائی نام ابنِ
خلدون سے پا ئی۔ ابنِ خلدون یمن کے شہر حضر الموت کے رہنے والے حضرت وائل
بن حجرؓ کی نسل سے تھے۔ ابو عمرو بن عبدالبر نے اپنی کتاب استیعاب میں ذکر
کیا ہے کہ حضرت وائل بن حجر رسول اللہ محمد ﷺکیخدمتمیںایکوفدکےہمراہحاضرہوئےتھے،جنابرسولاللہﷺنےانکےبیٹھنے
کےلیے چادر بچھائی اور یہ دعا فرمائی(اَللّٰھٔمَّ بَارِکْ فِی وَائِلِ بْنِ
حَجْرٍ ؓوَ لِوَلَدِہ وَوَلَدِہ ِالَی یَومِ القِیَامَۃِ)کہ اے اللہ! برکت
عطا کروائل میں اور اس کی اولاد میں اور اس کی اولاد میں قیامت تک۔
تقریباً تیسری صدی ہجری کے اواخر میں جس وقت امیر عبداللہ مروانی کا دور
دورہ تھا، اس وقت اس عظیم مؤرخ کا جدِ امجد خلدون بن عثمان یمن کے
شہرحضرالموت سے اندلس(Spain) کے شہر قرمونہ (Carmona)ہجرت کر گئے جہاں ان
کے ہم قوم بستے تھے، کچھ ایاّم قیام کیا اور پھر اندلس کے دوسرے شہر
اشبیلیہ (Seville)جا پہنچے جو قرمونہسے تقریبا۳۱کلو میٹر کے فاصلے پر واقع
ہے۔
بعد ازاں خلدون کے اجداد نے ساتویں صدی ہجری کے وسط میں شمالی افریقہ کے
تونس ہجرت کی۔ تونس کا سلطان ابو یحيٰ بنو خلدون کو بڑی عزت و احترام دیتا
تھا یہاں تک کہ جب اسے کسی کام سے باہر جانا ہوتا تو آلِ خلدون کو اپنا
نائب بناتا۔ بعد ازاں علامہ کے والد سلطانی خدمت سے عاجز آگئے اور اسلاف
کے اس طریق سے سبک دوش ہوئے اور علم و فضل کو اپنامشغلہ بنا لیا۔
ولادت
یکم رمضان ۷۳۲ھ بمطابق ۲۷ مئ ۱۳۳۲ء کو تونس (Tunis)میں علامہ ابنِ خلدون
پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت
ابنِ خلدون کا خاندان ایک علمی گھرانہ تھا۔ چنانچہ مغرب کے جید و معروف
علماء کرام سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ابنِ خلدون نے حفظِ قرآن اور
قرأتِ سبعہ کی تعلیم ابو عبداللہ محمد بن نزل انصاری سے حاصل کی۔تفسیر،
احادیث ابنِ خطیب سے حاصل کی۔علومِ عربیہ اپنے والد سے اور دیگر مشائخ مثلا
ابو عبد اللہ محمد عربی، ابوعبد اللہ شواش اور ابو العباس وغیرہم سے علومِ
اصول و فقہ اور ابو عبداللہ محمد بن محمد عبداللہ الحیانی اور ابو القاسم
محمد سے علم المعانی، فلسفہ، منطق، ریاضی اور علومِ لسانیات و انشاء
سیکھیں۔ الاجازۃ فی الحدیث ابو عبد اللہ بن محمد جابر جو اس وقت کے امام
المحدثین تھے، سے حاصل کی۔اشعار کی کچھ کتابیں حفظ بھی کیں مثلاً حمّاسہ،
متبنیٰ اور اغانی وغیرہ۔ کچھ عرصہ بعد طاعون کے خوف سے تونس سے ہوارہ کا رخ
کیااور وہاں حاکم محمد بن عبدون کے یہاں اقامت پذیر ہوئےجس نے ان کا پر جوش
استقبال کیا اور بلادِ مغرب کے سفر کے لیے زادہ راہ میں مدد دی۔ابنِ خلدون
نے اوائلِ عمر ہی میں ابنِ بطوطہ کی طرح دنیا کی سیاحت کی، اسطرح قفصہ، زاب
اور بسکرہ میں تھوڑا تھوڑا قیام کر کے تلمسان پہنچے۔ وہاں عبد اللہ بن ابو
عمرو کی صحبت میں علومِ باطن کی تحصیل میں مصروفِ عمل رہے۔ مزید برآں کہ
تعلیم و تعلم کے سلسلے کو وسیع کرنے کے لیے مشائخینِ علم ابو عبد اللہ محمد
بن عبد الرزاق، ابو عبد اللہ بن محمد بن الصفا مراکشی، ابو عبد اللہ
المغربی ، ابو عبد اللہ محمد بن احمد العلوی رضوان اللہ علیھم اجمعین کی
خدمات میں بغرضِ استفادہ حاضر ہوتےرہے۔
قید ورہائی
ابنِ خلدون نے اوائلِ عمر ہی میں ابنِ بطوطہ کی طرح دنیا کی سیاحت کی۔ ۷۵۵ھ
میں سلطان ابو عنان المرینی والئی تلمسان نے علامہ کو فاس طلب کیا۔ بادشاہ
نے اسے عزت و شرف سے خوب نوازا اور عہدۂ کتابت تفویض کیا۔لیکن سلطان کے
علامہ کو اس اعلیٰ حسنِ سلوک اور شان و شوکت کے نتیجے میں ہم عصروں کے دلوں
میں حسد و جلن کا لاوا پھٹنے لگا جو بالآخر سلطان کے یہاں ابنِ خلدون کی
شکایتوں کا سبب بنا اور ابن خلدون کو قید کر دیا گیا جس طرح مستعمرات میں
خلفاء کو قید کیا جاتا تھا۔آخر کار ۷۵۹ ھ میں سلطان کا انتقال ہوا۔ اس کے
بعد وزیر عبد اللہ بن عمرنے ابنِ خلدون کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے اس کے
عہدے پر بحال بھی کیا۔ بعد ازاں سلطان ابو سالم مرینی ابنِ خلدون کو اپنے
ہمراہ ملک گیری کی غرض سے اندلس سے تلمسان لے آ یا اور پھر فاس لے گیا۔
زمانے کی گردش دیکھئے کہ وہاں بھی اسے مخالفین کا سامنا رہا اور خطیب ابنِ
مرزوق نے سلطان کے کان بھرنے شروع کر دیے اور اسطرح دوبارہ علامہ کو قید کی
سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔بالآخر وزیر ابنِ عمر نے پرانے تعلقات کی بناء
پر اسے قید سے آزاد کر کے اس کے عہدے تفویض کئے۔
سیر و سیاحت
قید سے رہائی کے بعد علامہ کا دل اندلس کی پر کیف فضا، خوبصورت وادی کی سیر
کی طرف امڈ آیا، لیکن وزیر ابنِ عمر نے منع کیا، مگر جب علامہ نے واپسی کی
امید دلائی تو ان کو اجازت دی گئی۔چانچہ ۷۶۴ھ میں اندلس کا رخ کیا اور
غرناطہ پہنچ گئے۔اس وقت کا حاکم عبد اللہ تھا جو قبیلہ بنی احمد سے تھا۔وہ
ابنِ خلدون کی آمد سے بے انتہا خوش ہوا اور شاندار مکان انھیں رہنے کو
دیا۔۷۶۵ھ میں علامہ نے قشتالہ کا رخ کیا اور وہاں کے حاکم اور مملوک کے
عدوہ کے درمیان ہدیۂ فاخرہ کے ذریعے صلح کرانے کی کوشش کی۔حاکم نےانھیں
ایک خچر عنایت کیا جس کی لگام سونے کی تھی، جب ابنِ خلدون غرناطہ پہنچے تو
خچر اور لگام سلطان ابو عبد اللہ کو ہبہ کر دیں، اس پر بادشاہ نے انھیں خوب
مال و متاع سے نوازا اور ایک شہر بطور جاگیر عطا کی۔پھر انھیں اپنے اہل و
عیال کی یاد ستانے لگی اور بلآخر تونس پہنچے اور وہاں وا ء الحنین کے مرض
میں مبتلا ہوئے جواکثر ادیب و شاعر اور ذکی الطبع انسان کو عموماً ہوا کرتا
ہے۔ بعد ازاں بجلیکا گئےاور پھر ۷۷۶ھ میں تلمسان پہنچے، جہاں انھیں بڑے بڑے
عہدوں پر مامور و فائز کیا گیااور حکومت کے کاروبار ان کے اختیارات میں
آئے۔ ابنِ خلدون نے اپنے علم وقلم سے تمام سلطانی امور کو بخوبی احسن
انجام دیے۔
تصانیف
ابنِ خلدون نے کئی کتابیں تصنیف کیں مگر وہ جواہرات اب تک لا پتہ ہیں ما
سوا چند کے ، جن میں سے علامہ کی شہرۂ آفاق ، بے نظیر و مثال کتاب تاریخ
ِ ابنِ خلدون ہے جس کا پورا نامکتاب العبرو دیوان المبتداء و الخبر فی ایام
العرب والعجموالبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبرہے۔ اس کے علاوہ
مولفینِ عرب میں روزنامچے اورذاتی مشاہدات لکھنے میں ابنِ خلدون کا ثانی
نہیں۔انھوں نے روز مرہ کے حالات و مشاہدات اس وقت کے قلمبند کیے ہیں جس میں
ان کی سوانح، نسب، اسلاف کے تاریخ و واقعات وغیرہ یورپی اسلوب میں پیش کی
اور التعریف بابنِ خلدون سے موسوم کیا۔ ابنِ خلدون تلمسان میں اپنے اہل و
عیال کے ہمراہ چار سال تک اقامت پذیر رہے اور یہیں اپنی شہرۂ آفاق تاریخ
کی ابتدا کی۔ مقدمہ ٔ تاریخ کی تکمیل کے بعد۷۸۰ھ میں پھر اپنے وطن تونس
جانے کا اشتیاق ہوا اور حاکمِ تلمسان سے اجازت چاہی او ر وطن جا پہنچے۔
حاکمِ تونس نے علامہ کو خصوصی عزت و احترام کے ساتھ اپنا پرائیویٹ سیکریٹری
بنا لیا اور تالیفِ تاریخ کی تکمیل پر آمادہکیا، اب ابنِ خلدون نے کامل
اطمٔنان کے ساتھ اپنی تاریخ کی طرف توجہ مبذول کی۔
سفرِمصر اورحجِ بیت اللہ
جب حاکمِ تونس کے یہاں حاسدین و ناقدین کی طرف سے علامہ کے خلاف سازشیں اور
شکایتیں بڑھنے لگیں تو علامہ دل برداشتہ ہو کر سلطان سے اجازت چاہ کر۷۸۴ھ
میں اسکندریہ پہنچے،پھر قاہرہ کا رخ کیا اور وہاں خلافتِ عباسیہ کا شہرۂ
آفاق ادارہ جامعہ ازہر میں فقہ مالکی کی تدریس میں مصروف ہوئے۔جب یہ خبر
سلطانِ مصر برقونی عظیم کو ہوئی تو علامہ کو طلب کر کے۷۸۶ھ میں مالکی مذہب
کا قاضی مقرر کیا۔ اسی دوران علامہ نے اپنے اہلِ خانہ کو تونس سے قاہرہ بلا
بھیجا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ اثنائے راہ میں یہ تمام سمندر
کی نظر ہو گئے، یہ عظیم سانحہ ابنِ خلدون کے لیے شدید المناک ثابت
ہوا۔چنانچہ اب اس نے منصبِ قضاۃ کو خیرباد کہا اور درس و تدریس کو اپنا
مشغلہ بنالیا۔بعد ازاں ۷۸۹ھ میں حج کی ادائیگی کے لئے مکہ گئے اور ایک سال
مکہ میں قیام کے بعد ۷۹۰ھ میں مصر لوٹے، پھر اپنی تاریخ کی تصنیف میں
مصروفِ عمل ہوئے۔بلآخر ۶۵ سال کی عمر میں اور ۱۵ برس کی انتھک محنت و کاوش
کے بعد ۷۹۷ھ میں اپنی شہرۂ آفاق تاریخ کی تکمیل کی۔
مقدمہ ابنِ خلدون پر ایک مختصر نظر
مقدمہ کی پہلی فصل زمین اور اس کے شہروں کی آبادی، انسان کے جسمانی رنگ
اور معاشرت میں آب و ہوا کے اثرات، تمول و قحط کی وجہ سے آبادی کے احوال
میں ہونے والی تبدیلیاں اور آثار پر مشتمل ہے۔اس فصل کی موجود ابحاث میں
اس مغربی علماء کا پیش کردہ نظریہ ارتقائ کے اشارات ملتے ہیں بلکہ مماثلت
پائی جاتی ہے جسے ابنِ خلدون نے آج سے پانچ سو برس پہلے پیش کیا تھا۔
دوسری فصل بدوی آبادی اور وحشی قبائل و اقوام سے متعلق ابحاث جو دیہی اور
شہری مزاجوں کے متعلق پیدا ہوتے ہیں۔ نیز ان دونوں کے ما بین انساب، عصبیت،
ریاست، ملک و سیاست کی بنائ پر امتیاز کیا گیا ہے۔اس میں اجتماعی نظام سے
متعلق عام قوانین جس کا ظہور مغرب میں انیسویں صدی میں ہوا اور ہمارے
معاصرین آج عمرانیات (Sociology) سے تعبیر کرتے ہیں۔ تیسری فصل علمی و
عملی سیاسیات پر مشتمل ہے۔ اس کے مشمولات دولِ عامہ، خلافت، ملک، سلطنت کے
مراحل و مراتب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سیادت و قیادت کے اسباب و علل اور
سلطنتوں کے استحکام کی توجیہات، امارات کے دفاعی و تحفظی طریقے، حکومت و
خلافت کے شرائط، سلاطین کے خصائل ، بیعت کا معنی، ولایت، عہد،فوج اور اسکے
جنگی اصول اور سلطنت کے عروج و زوال کے اسباب کو احسن اور مدلل طریقوں سے
واضح کیا ہے۔ انگلستانی مئورخ گبن نے ایک کتاب رومی سلطنت کے زوال و سقوط
کے اسباب (THE DECLINE AND FALL OF ROMEN EMPIRE) پر لکھی ہے۔ اس میں اس نے
اسی طریقہ کو اختیار کیا ہے جس کو ابنِ خلدون نے اپنے مقدمہ میں پیش کیا
ہے۔
چوتھی فصل کا ہندسہ حریبیہ کی بحث سے تعلق ہے۔ اس میں شہروں، اسکی مختلف
آبادیاں ، ان میں بسنے والے لوگوں کی ثقافت و تمدن، رہائشی عمارتوں، مساجد
اور مکانوں کی تعمیر اور ان افراد کا حکومتوں سے تعلقات کو زیرِ بحث لایا
گیا ہے۔
پانچویں فصل معاشیات سے متعلق ہے۔معاش و کسب و صنائع کے اعتبار سے اسکی
مختلف صورتوں سے بحث کی گئی ہے۔معاش اور اس کے اقسام و طرق اور طبیعت
عمرانی سے اس کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔رزق کے مختلف طرق مثلاً تجارت،
صنعت اور ان کی مختلف اقسام بھی تفصیلی ذکر ہیں، نیز تعمیرات، زراعت،
خیاطی، توالد و تناسل، طب، باغبانی، موسیقی وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی گئی
ہے۔ یہ وہ مباحث ہیں جس کو آج کے لوگ اقتصاد سیاسی اور اقتصاد اجتماعی
(Political Economy & Social Economy)سے تعبیر کرتے ہیں۔اس فصل کی اکثر
مبادیات وہ بنیادی اصول ہیں جن پر کارل مارکس (Karl Marx) کی کتاب راس
المال (DAS CAPITAL) مشتمل ہے۔
چھٹی فصل علوم اور اس کی اقسام، تعلیم و تعلم اور اس کےمختلف طریقوں پر
مشتمل ہے۔ہر علم کی انفرادی سطح پر روشنی ڈالی گئی ہے ہر ایک کی تاریخ اور
اس کے شروط بتائے گئے ہیں۔مثلاً علومِ قرآن، حدیث، فقہ،لسانیات، ریاضی،
طب، شعر، تاریخ، الہیات، طبیعات، علم النفس، علومِ نجوم، علومِ سحر وغیرہ۔
ان متعدد علوم و فنون میں سیر حاصل ابحاث کرنے کی بنائ پر ابنِ خلدون کو ہر
فن مولیٰ (ALL ROUNDER) بھی کہاجاتا ہے کیونکہ آپ نے انسانی زندگی کے کسی
شعبہ کو اپنے تدبر و فکر اور بصیرت و تجربات سے خالی نہیں چھوڑا۔ یہ فصل
علمِ تربیت (PADAGOGY) کی قبیل سے ہے جن کے ماہرین امریکہ میں ولیم جیمس
اور یورپ میں اسپنسر اور فرڈینل وغیرہ ہیں۔
اس مقدمہ نے یورپی مفکرین کے ہاں ایک ضاص اہمیت حاصل کر لی ہے۔علامہ
کاترمیر نےاس کا پیرس کے کتب خانے میں موجود نسخہ سے فرانسیسی زبان میں
ترجمہ کیا ہے ۔ اس کی چند فصول کا ترجمہ انگریزی، جرمنی، اطالوی اور ترکی
میں بھی ہوا ہے۔ یورپ کے تمام بڑے کتب خانوں میں اسکے مطبوعہ اور قلمی نسخے
موجود ہیں۔
یہ مقدمہ ابنِ خلدون کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے البتہ تاریخِ ابنِ
خلدون جو کئی ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے، کےمختصر جائزہ کا یہ مختصر آرٹیکل
متحمل نہیں ہو سکتا اس کے لیے علیحدہ دوسرے آرٹیکل کی ضرورت ہو گی لہذا
اسی مقدمہ پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
وفات
معتبر و مستند تاریخ کی تکمیل ایک عظیم اور قابلِ ستائش کارنامہ ہے۔بعد
ازاں علامہ نے اپنی اس کتابِ تاریخ سلطانِ فارس ابو الحسن المزنی کی خدمت
میں پیش کی، اور علامہ نے ایک عرصہ دراز تک مصر کو اپنا ملجا و مأوا بنائے
رکھا یہاں تک کہ ۸۰۸ھ میں یہ عظیم مؤرخ و مجدد مصر میں اپنے خالقِ حقیقی
سے جا ملے۔ افسوس کہ ابنِ خلدون کی قبر کا اب تک کوئی علم نہیں۔ انا للہ و
انا الیہ راجعون
|