مجھے پہچانتے ہو؟ہاں تم مجھے پہچان بھی کیسے سکتے
ہو،ہماری کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی،اور تم مجھے کبھی پہچان ہی نہیں سکو
گے،کیونکہ ہماری کبھی ملاقات ہو ہی نہیں سکے گی، حالانکہ میں اکثر تمہارے
دائیں بائیں ہی ہوتا ہوں
تم مجھے پہچانو بھلے سے نہ ہی پہچانو، ہمارا مشترکہ دشمن مجھے خوب پہچانتا
ہے
کبھی گہری نیند میں جانے سے قبل سوچنا کہ جب تم اور تمہارے ننھے منے لخت
جگر، تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک، سونے لگتے ہو تو اک طمانیت کا گہرا احساس
تمہارے رگ و پے میں سرایت کر رہا ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جس کی وجہ سے ہم
سکوں کی نیند سو رہے ہیں، ہاں وہ کوئی میں ہی تو ہوں
کبھی سوچنا کہ تمہارے شہر، گاوں دیہات، تمہارے دفاتر، تمہارے تعلیمی ادارے،
تمہارے ریل اسٹیشنز، تمہارے ہوئی اڈے تمہاری گلیاں تک کس کی وجہ سے محفوظ
ہیں، میری وجہ سے، کیونکہ میں تمہاری حفاظت پر مامور ہوں، کہیں تمہاری گلی
محلوں میں سیٹی بجاتا ہوا پہرے دار بن کر، خنک سردی میں کہیں کسی دور
قبرستان کی ٹوٹی قبر پر مجاور بن کر بیٹھاہوا، کہیں تمہاری مساجد میں انجان
نمازی بن کر، تو کہیں کچرے کے بد بو دار ڈھیر سے روٹی کا نوالہ تلاش کرنے
والا بن کر،
میں نے خود کش بمباروں کو کبھی تو اپنے بازووں میں بھرا جس سے کبھی میرا
جسم بھسم ہوا تو کبھی میری روح گھائل ہوئی،لیکن میرا لہو لہو بدن ابھی تک
تھکا نہیں، کہ میں صرف قوم کے لئے نہیں بلکہ امت کے لئے کٹا پھٹا ہوں اور
جب تک امت یکجان نہیں ہوجاتی میں تھکوں گا نہیں، اور میں تھک بھی کیسے سکتا
ہوں، کہ تمہاری فرقہ بندیوں کے باوجود میں تمہیں یکجان کرنے کی خدائی ذمہ
داری پر مامور ہوں
وہ میں تھا جو ماشکیل، وانا، دتہ خیل،میران شاہ اور شوال میں جاڑے کی راتوں
میں بیدار تھا جبھی تو مغربی سرحد سے در آنے والے دہشتگردوں کی بر وقت
سرکوبی ممکن ہو سکی تھی
وہ میں ہی تو تھا جو دلی میں موجود رہ کر اپنے وطن کے خلاف ہونے والی ہر
سازش سے اسلام آباد کو بروقت مطلع رکھتا تھا
وہ میں ہی تو تھا جس نے انٹر نیٹ کی عالمی رسائی پر دسترس حاصل کی تاکہ وطن
عزیز بارے گلوبل ولیج کے سازشی منصوبوں سے آگاہ رہ سکوں
تم کیا جانو کہ مملکت خداداد وطن عزیز پاکستان کے مشرق و مغرب، طول و
عرض،پہاڑوں صحراوں، خشکی و تری میں میرے کتنے ہی ایسے جری دفن ہیں جنہوں نے
اس وطن کی خاطر اپنی جان تک دے ڈالی، اور آج چند نادان ان کے خلاف لاف زنی
کرتے ہیں، کیا خیال ہے قربان ہونے والوں کی روح گھائل نہیں ہوتی ہوگی؟
کاش کہ تم سمجھتے، اے ایک ضمیر فروش کے لئے مرنے والو، اے کہ بریانی کی اک
پلیٹ پر اپنے ایمان کو گروی رکھنے والو!کاش کہ تم سمجھتے، کہ تم کتنے گہرے
حصار میں گھر چکے تھے، لیکن تم تو بے خبر تھے، کیا ہوا کہ تم بے خبر تھے،
میں تو با خبر تھا، اور میں نے باخبر ہونے کا وہ حق ادا کیا جو ادا کئے
جانے لائق تھا، کہ میں نمبر ون ہوں، تھا اور رہوں گا
ہاں میں تمہارے دفاع کی آخری لکیر ہوں،
ہاں میں آئی ایس آئی ہوں
تحریر: محمد فہیم شاکر شیخوپورہ |