میں اکیلا

کچھ غلط تو نہیں کہا تھا اس نے جو گھر کا بڑا تھا مگر ہم نے کب بات سُنی ہے کسی کی سواے باپ کے جس کے ایک فون پر سارے کام چھوڑ کر حاضر ہو جاتا تھا اور اب تو وہ بھی نہیں رہا اور کسی کی سُنے کی عادت بھی تو نہ تھی اور جب سُنی تو دل کی سنی اور جس کی سنی وہ بھی غلط فہمی میں رہا کہ اس کی سن رہا ہوں حالانکہ دل کو بات لگی تو عمل کیا اور کبھی ماحول خوشگوار رکھنے کے لیے سُن بھی لیا
اور دوسرے کان کی جگہ پہلے ہی کان سے کان پکڑ کر نکال باہر کیا اور اس بات نے بھی کان پکڑ لئے کہ دوبارہ اس کان میں کبھی نہ جاوں اور جانے سے پہلے ہی کانوں پر ہاتھ لگاے کہ نہ بابا نہ

پتہ نہیں خوداری کی حدیں کہاں ختم ہوتی ہیں اور انا کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور اگر کسی کو تشویش ہوی تھی میرے بارے میں کہ میں کہیں کسی گرداب میں پھنس تو نہیں گیا یا مایوسی نے مجھ پر حملہ تو نہیں کر دیا اور وہ بھی ایسا شخص جو دور دراز رہتا ہو اور کوی نقصان بھی نہ پہنچایا ہو نہ آپس میں کوی کاروباری مفاد جڑا ہوا ہو اور صرف میری تحریر کے کسی فقرہ سے اندازہ لگایا کہ میں شائد ڈپریشن کی کسی قسم میں مبتلا ہوں اور ایسا ہو سکتا ہے کہ اندر ہی اندر کوی غم موجود ہو لا شعوری طور پر اور شعور کو پتہ نہ ہو اور کسی باشعور کو اس کا ادراک ہو رہا ہو اور نہ بھی ہو کہ قریبی لوگ جانتے ہیں کہ میں اکثر مسکراتے ہوے کوی ذومعنی بات کوی شاعرانہ اور فلسفیانہ قسم کی بات اور بعض وقت صرف بات سے بات نکالنے کا شوق اور کوی منفرد بات کرنے کا جنون مگر اس کو تو ان سب باتوں کا نہیں پتہ تھا

یہ حقیقت ہے کہ زندگی میں اُداسیاں آتی رہتی ہیں اور ماضی قریب میں بھی آی ہیں مگر خدا کا فضل آڑے آجاتا ہے اور اس چیز سے نکل جاتا ہوں اور خدا نے تو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا اور میری محدود سوچ کے باوجود لا محدود نوازا اور کبھی غمزدہ ہوا تو اپنی غلطی کی وجہ سے یا تقدیر کے تربیتی پلان کے تحت کوی چھوٹی مشکل آی کسی بڑی آسانی کی خبر لے کر جیسے ایک کتاب میں پڑھا کہ ہم مکھی پر غصہ ہو کر اسے جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں اور وہ مر کے بھی نہیں دیتی کہ موت کا اک دن معین ہے حالانکہ وہ تو یہ بتانے اتی ہے کہ گیلے کپڑے سے صفای کر لو پھر میں نہیں اوں گی اور اسی کتاب میں تھا کہ خدا کی رحمت سے مایوس کرنا شیطان کا سب سے بڑا حربہ ہے اور زندگی میں کوی الجھن یا مصیبت آتی ہے تو وہ آس لیے آتی ہے کہ خدا آپ کو ایک چھوٹے سے امتحان سے گزار کر کچھ نیا باب عطا کرنا چاہتا ہے اور وہ مشکل ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے اور جس طرح ایک چھوٹا سا بیج زمین کے اندر گُھٹن کے لمحات برداشت کر کے اس میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ دھرتی کا بوجھ پھاڑ کر باہر آ جاتا ہے اور ایک تناور درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے"مگر ہم لوگ سمجھ نہیں پاتے بے صبری کی وجہ سے

ہو سکتا ہے وہ صحیح کہ رہے ہوں کہ انہوں نے مجھ سے زیادہ دنیا دیکھی ہے اور کیا پتہ انہیں کوی ذاتی تجربہ ہوا ہو
اصل میں حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو ادب کے کاموں کی وجہ سے اس میں کمی ای اور بہت خوشگوار تبدیلی ای اس کے اثرات کے طور پر جب کہ اپنی زمہ داریوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا کیسے ہے حالات ہوں خدا سے ہی امید باندھی اور خدا نے پوری کی اور یہ خدا کا ہی احسان ہے

ایک بات عجیب اتفاق ہے کہ ہمیشہ ساری دنیا جس طرف بھی رہی میں اس کے دوسری طرف ہی رہا اکیلا
لیکن اکیلے پن نے بڑا کچھ دیا اور بہت سے عجیب وغریب اور دلچسپ تجربے بھی ہوے زندگی میں

ایک زمانے میں مجھے زیادہ بنے سنورنے کا شوق نہیں تھا جیسا کہ غزل کا شعر ہے
میں کپڑے بدل کر جاوں کہاں
اور بال بناوں کس کے لیے
وہ شخص تو شھر ہی چھوڑ گیا
میں باہر جاوں کس کے لیے

حالانکہ وہ شخص بھی شہر میں ہی موجود تھا جس کے لیے بال کیا بہت کچھ بنایا جاسکتا تھا اور میں ہر روز باہر بھی جاتا تھا اور بس کام کی لگن ہوتی تھی کہ باپ کو خوش کرنا ہے اور خدا کو ناراض نہیں کرنا ہے مگر دل سادہ کپڑوں کو چاہتا تھا تو ساری دنیا سمجھاتی رہ گئ کہ اس عمر میں اتنی سادگی اچھی نہیں مگر دل کی سنی اور ان باتوں پر کان نہ دھرے جس کی وجہ سے کان بھی مروڑے گئے الفاظوں کی انگلیوں سے
ایک بار تو میں اچانک کئ برس بعد ایک تصویر دیکھ کر ڈر گیا کہ یہ فقیر بابا کون ہے اس سے دعا ہی کروا لیں تو پتہ چلا وہ میری ہی تصویر تھی
پھر آسمان نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ رنگ برنگی قمیضیں فیشن کے حساب سے بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے جیسے ایکٹر پہنتے ہیں اور ایکٹنگ کا شوق بھی پورا کیا چُھپ کر اور پھر میں دوسری طرف کھڑا تھا کہ وہی دنیا کہ رہی تھی کہ اتنی شوخی بھی اچھی نہیں اور پھر سے اکیلا ہو گیا

اور کچھ سخت مزہبی لوگوں میں بھی گِھر گیا تھا جو زبر دستی گھر سے لیجاتے تھے اور کچھ عالموں کے لیکچر سُن کر خود متاثر ہو کر دوسرے شہر تک پہنچ جاتا تجسس اور علم کی پیاس بجھانے عمل تو ابھی دور کی بات تھی اور لوگوں سے بحث میں الجھ جاتا شوق میں کیا درست ہے اور کیا غلط ہے اور کردار کے غازی کے دھوکے میں گفتار کا غازی بنتا جا رہا تھا اور اقبال کا کہا جواب شکوہ کا شعر یاد آیا

ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

اور اپنی سمجھ سے زہن ہی زہن میں میں میدان جہاد میں اتر جاتا اور الفاظ کی تلوار نیام سے باہر نکال کر کسی کی سوچ کا قتل کر بیٹھتا مگر یہاں بھی خدا کا فضل آڑے آیا اور کچھ مناسب اور معتدل اور انسان دوست عالم اور ادیب جن کی سوچ مسلک و مدرسہ کی قید سے آزاد تھی اور صرف خدا کے احکامات کی پابند تھی انہوں نے سوچ کی گُھٹن میں روشن دان کھولے جس سے تازہ ہوا اور تازہ علم آتے
ایک تجربہ اور ہوا جو چھوٹا سا تھا مگر سیکھنے کی بات بڑی تھی اور بات بے شک بڑی تھی مگر منہ میرا چھوٹا جو آج بھی چھوٹا ہے اور باتیں آج بھی بڑی ہیں جو بڑی ہی رہیں گی ہم مانیں یا نہ مانیں عمل کر پایں یا نہ کر پایں سیکھیں یا نہ سیکھیں سکھایں یا نہ سکھایں حق حق ہے اور باطل باطل ہے اور باطل ہے ہی مٹنے کے لیے
ہوا یوں کہ میں بڑی سختی سے اس سوچ کا حامی تھا کہ عمل اسی وقت تک ہے جب تک آدمی زندہ ہے اور مرنے کے بعد نیکیوں کی فائل بند اور ہے بھی درست اور مدلل مگر کچھ رعایت دی گئ ہے کہ مرنے کے بعد بھی دوسرے لوگ اس کی نیکیوں میں کچھ اضافہ کر سکتے ہیں اور اگر خدا نے کوی رعایت دی ہو تو مولوی کون ہوتے ہیں چھینے والے اور میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ ثواب نہیں پہنچتا اس آدمی کو جو دنیا سے چلا جاے
مگر ایسا ہوا کہ ایک صاحب جو ہمیشہ ہر اتوار کو ہمارے گھر آتے تھے رشتہ داری نبھانے ان کا انتقال ہو گیا تو میں اور میرے کزن کے دل میں آی کہ ان کے گھر جایں تازیت کرنے اور ان کے انتقال کو کافی دن گزر چکے تھے تو ان کے بیٹے بڑے خوش ہوے اور انہیں دیکھ کر ہم بھی مگرایسی خوشیاں اب گھر بیٹھے واٹس ایپ پر آگئ ہیں اور سچی خوشی کی جگہ مسکراتا منہ smily face آ جاتا ہے اور ہمنے منہ دکھانا چھوڑ دیا ہے اور ایسا بھی نہیں کہ خدا نہ خواستہ ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اور منہ دکھایں تو قابل بھی ہو جایں شائد اور کچھ منہ دکھای بھی مل جاے اوریہ بات بھی کہنے کی حدتک رہ گئ ہے کہ قیامت کے دن کیا منہ دکھاینگے
خیر تازیت کے بعد اٹھنے لگے تو انہوں نے کہا قبرستان تک اتار دیں ہم تینوں گئے ان کو کسی قبر پر فاتحہ پڑھنی تھی جبکہ ان کے والد کہیں اور دفن تھے
جب قبرستان آیا تو کزن کو یاد آیا کہ یہاں ہمارے پھوپا دفن ہیں چلو ان کی قبر پر ہم بھی پڑھ لیں میں زرا جھجکا کہ کبھی زندگی میں نہیں گیا قبرستان کہ بس ایک دفعہ ہی جاوں گا خیر اس کے کہنے سے بے دلی سے گیا اور پڑھ بھی لیا اور سچے دل سے توبہ کر کے واپس آگیا کہ ثواب تو پہنچنا نہیں اور وہ بھی مجھ خطاکار کا ہاں کسی کو گھر پہنچا سکتا ہوں راہ چلتے اس کام کا شوق تھا اور یہ نیکی ایک بار گلے بھی پڑ گئ تھی
اس واقعہ کو ایک ہفتہ گزرا ہو گا کہ اسی کزن نے بتایا کہ جن پھوپھا کی قبر پر گئے تھے وہ خواب میں آکر مسکرا رہے تھے میں نے کہا وہ ہماری نادانی پر مسکرا رہے ہونگے
دوسرے دن خاندان کے ایک ایسے شخص نے جو ان کو پوری طرح جانتا بھی نہ تھا جن کی تازیت کو گئے تھے اور وہاں سے پھوپھا کی قبر پر گئے تھے اور ان کی قبر پر نہیں گئے تھے بلکہ صرف گھر پر گئے تھے وہ اس شخص کے خواب میں آے اور ساتھ کوی اور بھی تھا
اور شکایتاً کہہ رہے ہیں کہ ہمارا حصہ نہیں دیا؟
پھر میں سمجھا کہ اچھا ہم پھوپھاکی قبر پر گئے اور ان کی قبر پر نہیں گئے تو وہ ثواب کا اپنا حصہ مانگ رہے ہیں
اب تو میں مانتا نہیں تو اور کیا کرتا مگر ان کے ساتھ کون تھا یہ پتہ نہیں
میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ ثواب پہنچنے کو مان لیا جاے اور میں لاتوں کا بھوت تھا جو باتوں سے نہیں مان رہا تھا پھر ان کے گھر والوں سے پتہ پوچھ کر ان کی قبر پر بھی چلا گیا اور پتہ چلا ساتھ میں ان کے ایک بیٹے کی بھی قبر تھی جو خواب میں بھی ان کے ساتھ آے تھے اور پھر تجسس ہوا کہ اس بارے میں معلومات کی جایں اور مستند حوالوں سے یہی پتہ چلا کہ ہر قسم کا ثواب پہنچتا ہے اور ایک صدقہ جاریہ بھی ہوتا ہے جو مالی بھی ہو سکتا ہے اور ایک مستند روایت میں تو یہ جواب ملا کہ جب مرنے کے بعد قرض ادا ہو سکتا ہے تو ثواب بھی پہنچ سکتا ہے مگر کچھ مولوی نہیں مانتے اور بقول اقبال

شعور ہوش وخرد کا معاملہ ہے عجیب
مقامِ شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا
مسائلِ نظری میں اُلجھ گیا ہے خطیب

اور بات ہورہی تھی میرے اکیلے پن کی مگر میں اکیلا تو نہیں
وہ ہے نہ

وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ

، اور وہ تمہارےساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.