آج کتنی خوبصورت رات ہے . دو دلوں کی ملن گھڑی، چاہت کی
چہچہاہٹ کے ساتھ محبت کی خاموش سنسناہٹ اور وصل کی راحت۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتے گزرتے تیزی سے گزر گیا۔ بہت کچھ بدلتے بدلتے بہت کچھ
بدل گیا ۔ خیالی محبت سے نکل کر شہزور اور شیرینی حقیقت کی دنیا میں قدم
رکھتے رکھتے تلخ حقیقت کی وادی میں پہنچ چکے تھے ۔ پہنچنا کہاں تھا اور
کہاں پہنچ چکے تھے یا اس بے رحم دنیا نے اور لوگوں کی بے فہم باتوں نے اُن
کو ایسی جگہ پہنچا دیا تھا جہاں سے واپسی مشکل نظر آرہی تھی ۔
سسرال اور میکہ کے ہاتھیوں کی جنگ میں دو پھول بن کھلے مرجھانے لگے اور ان
پھولوں کی گود میں ایک ننھی کلی سہمی ہوئی اس نئ دنیا کی نہ سمجھنے والی
حقیقت اپنی معصوم آنکھوں سے دیکھنے پر مجبور تھی۔
شہزور اور شیرینی کے تین سالہ گھر میں دو سالہ" رحمت کی پری" پرے بیٹھی "زحمت
کی گھڑی" کو دیکھ رہی تھی جو والدین کی غلطیوں کی وجہ سے بنی بنائی جنت سے
نکل کر خود ساختہ دوزخ میں رہنے پر مجبور تھی اور کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی
اور اپنوں کے بنا رہ بھی نہ سکتی تھی ۔
میکے والوں کی محبت مہنگی پڑتی جارہی تھی جس کی وجہ سے شیرینی کی محبت نفرت
میں بدل کر سڑتی جا رہی تھی اور شہزور کی خوداری شرمندگی سے زمین میں گڑتی
جارہی تھی ۔
شہزور روز روز کی مداخلت اور سُسر کے جبری احسانات سے تنگ آکر اس کا غصہ
شیرینی پر اتارتا جس کی شیریں زباں کڑوی ہونے لگی اور وہ چھپ چھپ کر رونے
لگی۔
آخر وہ وقت آپہنچا جس کا ڈر تھا۔ شیرینی میکہ آبیٹھی اور شہزور کا دل بیٹھ
گیا ، رشتہ دار غلط فہمیاں پھیلانے آ بیٹھے اور ساتھ ہی جرگہ بھی بیٹھ گیا
مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور یوں سات مہینے گزر گئے ۔
آخرکار ان خاندانوں کے دو مشترکہ دوستوں حامد اور شاہد کو ثالثی کا کردار
سونپا گیا جن میں ایک کو مصالحتی ملاقاتوں کا اور دوسرے کو ایک نکتہ پر
مرکوز باتوں کا تجربہ تھا ۔ لیکن اصل راز نیک نیتی سے خاندانوں کو جوڑنا
تھا جس پر خدا کا فضل ہونا تھا۔
جمعرات اور جمعہ کی مبارک رات ہے . حامد اور شاہد لڑکی کے گھر پر موجود
تمام عزیزوں کی موجودگی میں معاہدہ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو دونوں فریقوں کے
درمیان بڑی مشکل اور انا کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے کے بعد طے پایا ہے جس
کے مطابق لڑکی کے والدین ایک خاص عرصہ تک خوشگوار لا تعلقی اپنا کر لڑکے
اور لڑکی کی خوشگوار ازدواجی زندگی کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہوے حامد
اور شاہد کو نگرانی کے فرائض سونپ دیں گے۔
اس سے پہلے لڑکے والوں سے ملاقات میں کچھ حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں اور
کئی شکایات سامنے آئیں مگر وہ معاف کرنے اور لڑکی کو دوبارہ وہی عزت اور
محبت دینے کو تیار تھے اور بقول ان کے لڑکی بہت اچھی ہے لیکن دوسروں کے زیر
اثر غلطی کر بیٹھی ہے۔ دوسری طرف لڑکی کا بھی خیال ہے کہ شوہر بہت اچھا ہے
مگر ماں کی باتوں میں آ جاتا ہے جبکہ ماں بیٹے کو سمجھاتی ہے کہ ماں بیٹی
کو جدا نہ کرو یعنی کہیں نہ کہیں ہر فرد میں تھوڑی سی انسانیت ضرور موجود
ہے جو انہیں انسان بننے پر مجبور کر رہی ہے مگر شیطان چھوٹی بات کو بڑا بنا
کر دکھا رہا ہے تو کہیں اپنی انا اور اپنا نفس آڑے آرہا ہے اور کہیں لوگ
بات کا بتنگڑ بنارہے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں سے ایک دوسرے
کی بات پر خاموشی سے صبر کر لے تو کچھ ہی دن میں بات دب جاتی ہے اور یاد
بھی نہیں رہتا کہ لڑائ کس بات پر ہوئ تھی۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی یہ ہوئی کہ اس جنگ میں جہاں جھوٹ جائز کر دیا جاتا
ہے وہاں سچ بھی بولا جارہا ہے ۔ جب حامد نے سوال کیا کہ آپ کو ساس سے اتنی
شکایات ہیں تو بچی کو ان کے پاس چھوڑ کر آپ مطمئن کیسے بیٹھی ہیں تو لڑکی
نے جواب دیا کہ اس معاملہ میں ان پر اعتماد ہے۔
حامد نے لڑکی سے صاف صاف کہہ دیا کہ شوہر کے گھر جانے کا اُس کا اپنا فیصلہ
ہو گا کیونکہ تین سال اسی نے گزارے ہیں اور ان لوگوں کو وہی بہتر جانتی ہے۔
اس پر لڑکی نے جواب دیا کہ وہ گھر بنانا چاہتی ہے اور اپنی بچی کا مستقبل
بھی عزیز ہے جو قریبی عزیز ہی بگاڑ نے پر تُلے ہوئے ہیں۔
حامد اور شاہد بطور ثالث لڑکی کے گھر پر موجود ہیں ۔ رخصتی کا سا ماحول ہے
۔ شوہر کے گھر والوں کی طرف سے بھیجا ہوا دلہن جیسا سرخ جوڑا پہن کر شیریں
بالکل دلہن لگ رہی ہے ۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو ہیں جسے دیکھ کر سب کی
آنکھیں نم ہیں ، پیچھے غم ہیں آگے خوشی کی زلفوں کے خم ہیں۔
تین سال پرانی دلہن نئے عزم کے ساتھ نیا جنم لئے عازم سفر ہے۔ حامد ڈولی
ڈرائو کر رہا ہے ۔ شاہد برابر میں بیٹھا ان باتوں کا عینی شاہد ہے ۔ ان
دونوں کو وساوس گھیرے ہوے ہیں کہ دلہن کو تو ہم گھر سے لے آئے ہیں اگر تین
سال پرانے جزباتی دلہا کے زہن میں خدا نہ کرے کوئی انتقامی خیال پک رہا ہو
تو ہماری کیا عزت رہ جاے گی اور کس منہ سے بیچاری دلہن کو واپس لے جائیں
گے۔
اس وسوسہ اور رحمت کی امید لیے وہ آگے بڑھتے رہے کہ اب جو ہو سو ہو
لڑکے کا گھر آچکا ہے
لڑکی گاڑی سے اتر چکی ہے
اے خُدا !!!
تو ہی عزت رکھنے والا ہے !
تمام گھر والے اور شوہر استقبال کو آگے بڑھے۔ خوشی اور محبت چہروں سے عیاں
ہے ۔ بہت خوبصورت سماں ہے ۔ خدا کی اماں ہے
دونوں طرف سے تشکر کے جزبات آنکھوں سے آنسو کی شکل میں چھلک پڑے اور وہ ایک
دوسرے سے ملنے کے لئیے لپک پڑے۔
حامد اور شاہد کی جان میں جان آئی ، اس گھر کی خوشیاں لوٹ آئیں اور ایک نئ
شان آئی ۔
بچی امی کو دیکھ کر چھلانگ مار کر گود میں جا پہنچی ۔ غلط فہمی سے بگڑی
ہوئی حالت سنبھل گئی ہے اور جدائی ملن میں ڈھل گئی ہے۔
میں نے شہزور سے کہا
آپ گاڑی سے چوکلیٹ لے آؤ گے جو بچی کے لیے لایا تھا؟
اس نے کہا
جی ضرور
آپ میری بیوی لے آئے
میں چوکلیٹ بھی نہ لاؤں!
میں یہ تحریر سفر کے دوران جہاز میں لکھ رہا ہوں اور میری تحریر کا آغاز ہو
چکا ہے ، جہاز عازم پرواز ہو رہا ہے۔ اُن کی نئ زندگی کا آغاز ہو رہا ہے ۔
یہ ازدواجی پرواز کبھی کبھی ناہموار بھی ہو سکتی ہے مگر جہاز کی طرح یہ سفر
جاری رکھا جاتا ہے۔
برابر والی سیٹ پر ایک خاتون بیٹھی ہیں جو بہت بے چین ہیں ۔ شائد کسی
مرد کے برابر بیٹھنے سے یا اپنے مرد سے بات کرنے کے بعد سے، جس کا فون آیا
تھا ۔
میرا سکون قائم رہا ۔ آہستہ آہستہ وہ بھی سکون میں آگئیں اور مجھے چیونگم
کی پیشکش کی جو میں نے شکریہ کے ساتھ فوری قبول کی ۔
شائد اسی طرح ایک کے سکون سے خاموش رہنے کی وجہ سے میاں بیوی میں بات بنی
رہتی ہے اور دوسرے کی بے چینی کم ہونے لگتی ہے ۔گھر کی بات باہر نکل کر
بتنگڑ بنے سے بچ جاتی ہے۔
اس واقعہ سے میری خوشی اور اطمینان عروج پر ہیں جو شائد دولت اور شہرت سے
بھی حاصل نہ ہوسکے۔
اس کہانی کا چشم دید گواہ ہوں بلکہ اس کا ایک اہم کردار ہوں ۔
حامد میں ہی ہوں اور مجھ خطاکار سے ہی انجانے میں یہ نیکی سرزد ہوئی جس میں
سانولی کی دعا بھی شامل ہے جو میری دوست ہے۔
فضائ میزبان سانولی رنگت کی لڑکی اپنے ہاتھوں میں چاے لیے کھڑی ہے جس کا
دھواں میرے زہن میں اُٹھتے گزشتہ واقعہ کی دھواں دار یاد کے ساتھ مل کر
ماضی کی کھڑکی سے باہر نکل کر نئے مستقبل کی کھڑکی کھول رہا ہے۔
|