آسیہ پری وش، حیدرآباد
کتنی دفعہ تمہیں اس موبائل اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال سے منع کیا ہے
لیکن مجال ہے جو تم پہ کوئی اثر بھی ہو۔ وہ جو اپنے تئیں سب سے چْھپ کر
کمرے کے کونے میں دْبکا موبائل گیم میں گْم تھا باپ کے اس اچانک چھاپے پہ
بوکھلا کر کھڑا ہوگیا۔ موبائل کو چْھپانے کا بھی اسے موقع نہ مل سکا کیونکہ
وہ تو پہلے ہی باپ کے ہاتھ میں پناہ لے چکا تھا۔ وہ ابو، یوں اچانک چوری
پکڑے جانے پہ بوکھلاہٹ میں اس سے جملہ بھی پورا ادا نہ ہوسکا۔ حالانکہ ایسی
چوریاں پکڑے جانا تو اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ کیا وہ ابو؟ انہیں
موبائل اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہی تو اتنی چھوٹی عمر میں
ہی یہ اتنا موٹا چشمہ اپنی آنکھوں پہ سجا چکے ہو پھر بھی ان چیزوں کا پیچھا
نہیں چھوڑ رہے ہو۔
باپ کی ڈانٹ پہ حارث نے موٹے فریم کے چشمے سے سجی آنکھوں سمیت سر جْھکادیا۔
یہ حقیقت تھی کہ اسے چشماٹو حارث انہیں موبائل اور کمپیوٹر پہ کثرت سے گیم
کھیلنے اور کارٹون دیکھنے نے ہی بنایا تھا۔ شروع میں ہی جب اس نے موبائل
اور کمپیوٹر کا استعمال زیادہ کرنا شروع کیا تو اس کے ماں باپ نے اسے پیار،
ڈانٹ اور مار سے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے تو کسی چیز کا اثر نہیں
لیا مگر کمپیوٹر اور موبائل کی مہلک شعاعوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔
پہلے پہل جب حارث کو بلیک بورڈ پہ ٹیچر کی لکھائی اور کتابوں کی لکھائی
دھندلی اور پڑھنے میں مشکل ہونے لگی تو اس نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں
دی لیکن جب اس مشکل کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں دْکھنا اور آنکھوں سے کبھی
کبھی پانی آنے کی تکلیف بھی ہونے لگی تو اس کے اندر خطرے کا احساس جاگا۔
ماں باپ کی ڈانٹ اور مار کے ڈر سے وہ خاموش رہ کر کمپیوٹر اور موبائل سے
دور رہنے کی کوشش کرنے لگا لیکن حد سے بڑھی عادتیں کب اتنی جلدی پیچھا
چھوڑتی ہیں سو اپنی ناکام کوششوں کے باوجود جب اس کے سر میں بھی درد ہونے
لگا تو اس نے اپنی ممکنہ ڈانٹ کے خوف سے ڈرتے اور روتے روتے اپنی کیفیت
اپنی امی کو بتادی جس کی بنا پہ اسے سخت ڈانٹ کے ساتھ ساتھ کالے موٹے فریم
کے چشمے کے تحفے کے ساتھ چشماٹو حارث کے لقب کا اعزاز بھی مل گیا۔ نظر کا
چشمہ لگ جانے کے بعد جب اسے اپنی آنکھوں، لکھنے پڑھنے اور سر کے درد کی طرف
سے اطمینان ہوا تو وہ اپنی پرانی روش پہ دوبارہ سے چل پڑا تھا۔
حارث کو موبائل اور کمپیوٹر کے علاوہ کرکٹ کا بھی جنون کی حد تک شوق تھا۔
وہ اپنے محلے کی ٹیم کا بہترین کھلاڑی تھا۔ اس دفعہ دسمبر کی چھٹیوں میں ان
کی ٹیم اور محلے کی ہی دوسری ٹیم نے آپس میں مقابلے کا پروگرام بنایا تھا۔
جس کے لیے وہ سب کھلاڑی بہت پْرجوش سے تیاری میں مگن تھے کہ میچ سے ایک دن
پہلے پریکٹس کرتے اچانک حارث کا چشمہ گر کر ٹوٹ گیا۔ زمین پہ گرے ٹوٹے چشمے
کو دیکھ کر اسے صدمہ تو بہت ہوا لیکن چونکہ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا سو بغیر
چشمے کے تھوڑی دیر اور پریکٹس کرنے کے بعد وہ گھر آگیا۔ دوسرے دن میچ کے
وقت سے تھوڑا پہلے جب وہ بغیر چشمے کے میدان جنگ کی طرف جانے کے لیے گھر سے
نکلا تو گھر سے نکلتے ہی اسے اپنے سامنے اور اردگرد کی دنیا اوپر نیچے ہوتی
نظر آئی۔ جس کا سبب بھی اسے پتا چل گیا کہ اب اس کی کمزور بینائی بغیر چشمے
کے دھوپ اور تیز روشنیوں کا سامنا نہیں کرسکتی۔ پھر بھی وہ اپنی آنکھوں کو
دھوپ سے بچاتا خود کو سنبھالتا میچ کے گراؤنڈ کے قریب تک پہنچ ہی گیا لیکن
جب اس کی نظر سامنے گراؤنڈ پر پڑی تو اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے کیونکہ
سورج کی شعاعیں پورے ہی گراؤنڈ کو اپنی لپیٹ میں لے کر وہاں موجود کھلاڑیوں
اور دوسرے لوگوں کے جسموں کو حرارت پہنچا رہی تھیں۔
پورے گراؤنڈ میں چمکتی دھوپ کو دیکھ کر حارث نے بے اختیار اپنا چکراتا سر
تھام لیا۔ اپنی ممکنہ ناکامی اور اپنے بیچ میں گھومتی دنیا کو محسوس کرکے
اب حارث کو صحیح معنوں میں احساس ہورہا تھا کہ ضرورت سے زیادہ موبائل اور
کمپیوٹر کے استعمال نے اسے آدھا اندھا بنادیا ہے۔ اس نے اپنی بیوقوفی کے
ہاتھوں ہی خود میں ایک بہت بڑی خامی پیدا کروا دی ہے لیکن اب پچھتائے کیا
ہوت، جب چڑیاں چْگ گئیں کھیت۔ |