انسان دو چیزوں کا مرکب ہے ؛روح اور جسم۔ اگر صرف
روح ہو اور جسم نہ ہو، تو اسے انسان نہیں کہتے ،اگر صرف جسم ہو اور روح نہ
ہو،تو اسے میت یا مُردہ کہتے ہیں۔ جس طرح جسم کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے ،
اسی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن ہم میں سے اکثر لوگ جسمانی
غذا کا تو اہتمام کرتے ہیں،مگر روح کی غذا کا اہتمام نہیں کرتے ۔ جس سے
ہماری روح کمزور اور روحانیت سرد پڑ جاتی ہے اور انسان دھیرے دھیرے حیوان
سے بد تر ہو جاتا ہے ۔ ضروری اس بات کی ہے کہ جسمانی فٹنیس سے کہیں زیادہ
روحانی فٹنیس کی فکر کی جائے !اس لیے کہ اگر بدن کچھ پتلا، موٹا یا بے ڈول
بھی ہو جائے تو اس سے اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا ، جتنا روحانیت سے عاری ہو
نے سے پہنچتا ہے ۔ اس کے باوجود دو چیزوں میں دورِ حاضر کے لوگ ایسے پِلے
پڑے ہیں کہ دین کی فکر ہے نہ دنیا کی۔ پیٹ کی بھوک کے ستانے پر دنیا توکما
لیتے ہیں، لیکن روح کی بھوک گویا محسوس ہی نہیں ہوتی۔ یہ دونوں چیزیں
انٹرٹینمنٹ اور فٹنیس ہیں۔ دورِ حاضر میں جسمانی صحت کے نام پر ورزش میں
اعتدال کی حد کو پار کیا جا چکا ہے ۔ کئی کئی گھنٹے لوگ ورزش خانوں (gym)
میں مشغول رہتے ہیں، لیکن انھیں نماز کی فکر ہوتی ہے نہ کسی اورمامور بہ
امر کی۔ اسکول، کالج اور آفس سے آکر ان کے پاس تلاوتِ قرآن مجید یا دینی
مسائل سیکھنے سکھانے کا وقت ہو یا نہ ہو، مسلسل کئی کئی گھنٹے جِم (gym)
میں رہنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے ۔ کمال یہ ہے کہ سردی، گرمی اور برسات
جیسے مختلف موسموں میں بھی ان کے اس عمل میں کوئی رُکاوٹ نہیں آتی۔رمضان
المبارک میں اُنھیں بھلے ہی ایک سوا پارے کی تراویح کا پڑھنا دشوار ہوتا
ہو، لیکن اس کے بعد ہی دو تین گھنٹے ورزش کرنا آسان ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں کہ
ہم ورزش کرنے کو برا یا ناجائز سمجھتے ہیں، لیکن کسی مباح کام میں ایسا
اشتغال کہ مستحبات بلکہ فرائض و واجبات سے غفلت ہونے لگے ، درست قرار نہیں
دیا جا سکتا۔
جِم یا ورزش کے چند اصول
اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ ایسی ورزش جس سے بدن کی قوت وصحت مطلوب ہو، فی
نفسہٖ جائز اور مباح ہے ، اگر اس میں حرمت یا کراہت آئے گی تو کسی عارض کی
وجہ سے ۔ مثلاً: (1)کسی کی نیت کفار کے ساتھ تشبہ کی ہو (2) یا ورزش کے وقت
لباس کفار کا پہنا جائے (3) یا اس کا وقت ایسا مقرر کیا جائے جس سے نماز
ضائع ہو(4)یا اس میں خلل پڑے (5) یا ورزش میں قمار کی صورت ہو کہ جانبین سے
مال کی شرط ہو(6)یا کسی ورزش میں کفّار یا فسّاق کا اختلاط ناگزیر ہو (7)یا
کسی ورزش کا اثر طبائع پر یہ پیدا ہوتا ہو کہ اس کی وجہ سے لوگوں کی نظر
میں کفار کے ساتھ تشبہ کرنا معیوب نہ رہے بلکہ تشبہ کی رغبت پیدا ہو (8)یا
اس کے مثل اور کوئی عارضِ شرعی ہو۔اورحضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ فرماتے
ہیں کہ بطور فیصلے کے ہم کہتے ہیں کہ انگریزی ورزشوں میں جو ورزش دوسروں کے
ساتھ مل کر کی جاتی ہے ، اس سے تشبہ بالکفار کی طرف رغبت پیدا ہوجاتی ہے
اور اس کے بعد انسان ان کے ساتھ اختلاط بھی کرنے لگتا ہے ، اس لیے اس سے
منع کیا جاتا ہے ، بقصدِ اصلاح وامر بالمعروف، بلکہ بقصدِ موالات ولہو
ولعب۔اور جو انگریزی ورزشیں تنہا کی جاسکتی ہیں ان میں کچھ حرج نہیں، جیسے
بدن کو خاص طور سے حرکت دینا، یا ڈمبل وغیرہ ہلانا، بہ شرط یہ کہ ان ورزشون
کو تنہائی میں کیا جائے ۔ اور جس کتاب میں ورزشوں کے اصول لکھے ہیں، ان کو
دیکھنا پاس رکھنا بھی جائز ہے ، مگر تصویروں کا چہرہ پھاڑ دینا یا سیاہی
وغیرہ سے چھپا دینا لازم ہے۔(دیکھیے امداد الاحکام)
میوزک اور نفاق
آج کل جولوگ جِم (gym) کرتے ہیں،اور اس موقع پر میوزک بھی اکثر سنتے ہیں،
جب کہ موسیقی اور غنا اسلام میں ممنوع ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو
وائل رضی اﷲ عنہ کسی ولیمے میں شریک ہوئے ، وہاں لوگوں نے گانا شروع کردیا۔
ابو وائل جوحبار کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے (یعنی انھوں نے ٹانگوں کے گرد
حلقہ بنایا ہوا تھا)، اپنے ہاتھوں کو کھولا اور کہا : میں نے عبداﷲ سے سنا،
وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : غنا (یعنی میوزک)
دل میں نفاق پیدا کرتی ہے ۔ (ابوداؤد)اور حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ نے ڈھول کی آواز سنی تو دونوں
کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور وہاں سے ہٹ گئے ۔ تین بار ایسا ہی کیا۔ پھر
فرمایا: اﷲ کے رسول ﷺ نے ایسا ہی کیا۔(ابن ماجہ) غور کیجیے کہ ہمارے نبی ﷺ
اور ان کے جاں نثار صحابہ تو ایسی جگہوں سے کانوں میں انگلیاں ڈال کر گزر
جائیں، اور ہم خود ایسے آلات کا استعمال کریں! یہی وجہ ہے کہ ہمارے افعال و
اقوال میں تضاد نظر آتا ہے ۔
ستر کو ظاہر کرنا
جِم کرنے والے اکثر اپنے ستر کو بھی نہیں چھپاتے ، بلکہ جان بوجھ کر ایسے
کپڑے پہنتے ہیں جس میں بدن خوب نمایاں ہو۔ ان کا لباس یا تو چھوٹا ہوتا ہے
، یا اتنا چست یا باریک کہ ستر صاف ظاہر ہوتا ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ
سے مروی ہے ، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: جہنمیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنھیں
میں نے اب تک نہیں دیکھا؛ ایک تو وہ عورتیں جو کپڑے پہنیں گی لیکن پھر بھی
برہنہ ہوں گی، خود بھی مَردوں کی طرف مائل ہوں گی اور اُنھیں بھی اپنی طرف
مائل کریں گی۔ اُن کے سروں پر بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح چیزیں ہوں گی۔
یہ عورتیں جنت میں دیکھ سکیں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں
گی،الحدیث۔(مسند احمد)یہی حکم ایسا کرنے والے مَردوں کا بھی ہوگا۔نیز بہز
بن حکیم اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول
اﷲﷺ سے عرض کیا :اے اﷲ کے رسولﷺ! ہم اپنی شرمگاہ کو کس پر ظاہر کریں اور کس
سے چھپائیں ؟ آپ نے فرمایا: شرمگاہ کی حفاظت کرو سوائے اپنی بیوی اور باندی
کے ۔ وہ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! اگر برادری کے لوگ ملے
جلے رہتے ہوں تو ؟ فرمایا: اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ تمھارا ستر کوئی نہ
دیکھے تو چاہیے کہ تمھارا ستر کوئی نہ دیکھے ۔ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے
رسول! اگر ہم میں سے کوئی تنہائی میں ہو تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ
زیادہ حقدار ہیں اس بات کے کہ ان سے حیا کی جائے بہ نسبت اور لوگوں کے
۔(ابوداؤد)
مرد و زن کا اختلاط
ایک خرابی موجودہ جِم (gym) کی یہ ہے کہ بہت سے مقامات پر مَردوں اور
عورتوں کے لیے ایک ہی جگہ پر یہ انتظامات کیے جاتے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو
جِم جاتے ہی اسی لیے ہیں۔اور بعض عورتیں ورزش کرانے کے لیے مرد (guide) طے
کرتی ہیں۔ جب کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے مرد و زن کے اختلاط کو منع فرمایا ہے
۔ ارشادِ ربانی ہے :مومن مَردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں،
اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے ۔
وہ جو کاروائیاں کرتے ہیں اﷲ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے ۔ اور مومن عورتوں
سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کریں۔(النور)اور حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے ، حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ نے جابیہ کے مقام پر ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو میں تمھارے
درمیان رسول اﷲ ﷺکا قائم مقام ہوں، اور آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم لوگوں کو
اپنے صحابہ کی اطاعت کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (تابعین)
کی، اور پھر ان سے متصل آنے والوں (تبع تابعین)کی۔ اس کے بعد جھوٹ رواج پکڑ
جائے گا، یہاں تک کہ قسم لیے بغیر لوگ قسمیں کھائیں گے اور بغیر گواہی طلب
کیے لوگ گواہی دیں گے ۔ خبردار! کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے ،
اس لیے کہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ، الحدیث۔(ترمذی)
خود نمائی، تکبر اور دکھاوا
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو نوجوان چند روز بھی ورزش اور جِم کرنے لگتے ہیں،
ان میں خود نمائی، تکبر اور دکھاوا بہت پیدا ہو جاتا ہے ۔ جب کہ حضرت نبی
کریمﷺ کا ارشادِ گرامی قدر ہے : کتنا برا ہے وہ بندہ جس نے اپنے آپ کو اچھا
سمجھا اور تکبر کیا اور بلند وبالا ذات کو بھول گیا۔ وہ بندہ بھی بہت برا
ہے جو لہو ولعب میں مشغول ہو کر قبروں اور قبر میں گل سڑ جانے والی ہڈیوں
کو بھول گیا۔ اور وہ بندہ بھی برا ہے جس نے سرکشی و نافرمانی کی اور اپنی
ابتداے خِلقت اور انتہا کو بھول گیا۔ اسی طرح وہ بندہ بھی برا ہے جس نے دین
کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنایا۔ وہ بندہ بھی برا ہے جس نے حرص کو راہ نما
بنالیا۔ اور وہ بندہ بھی برا ہے جسے اس کی خواہشات گمراہ کردیتی ہیں، اور
وہ بندہ بھی برا ہے ، جسے اس کی حرص ذلیل کردیتی ہے۔(ترمذی)٭
|