دنیا میں جتنے بڑے نام ہیں۔ چاہے دنیاوی اعتبار سے ہوں یا
دینی لحاظ سے نظر آتے ہیں۔ جنہیں ہم کامیاب گردانتے ہیں۔ اْن میں سے بیشتر
کہ اندر ایک صفت عمومی نظر آتی ہے۔ وہ ہے سوال کرنے کی عادت کا ہونا۔ جو
جتنا بڑا ہے۔ لازم نہیں اْس کے پاس علم زیادہ ہو۔ اْس کے پاس سوال زیادہ
ہوتے ہیں۔سوال کرنے سے علم بڑھتا ہے۔
ہم اپنے اردگر نظر دوڑائیں تو بہت سے سوال ایسے بکھرے ہوئے ہیں . اْن میں
سے اکثریت ایسے ہیں جو قوم کی ذہنی فرسودگی کا پتا دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر
جوان ہونے والے شخص کو کیسی نا کیسی وقت اِن سوالات سے پالا پڑتا ہے۔ یہ
سوالات ایسے ہیں جن سے کیسی کو سروکار نہیں ہوتا۔ بس راہ جاتے اگلے کو اذیت
میں مبتلا کرنے واسطے کیے جاتے ہیں۔
اِن سوالات کا سلسلہ آٹھویں سے جیسے ہی بچہ نویں میں قدم رکھتا ہے تو شروع
ہو جاتا ہے۔ پہلا سوال "بیٹا سانس رکھ رہے ہو یا کمپیوٹر؟" اکثر سوال کرنے
والا خود اِس چیز سے نابلد ہوتا کہ سانس کے سبجیکٹ کون سے ہیں؟ آرٹس میں کن
مضامین سے نورا کْشتی ہوتی ہے؟ کمپوٹر کا فن حاصل کرنے والے کیا ڈبہ آ گے
ہی بِٹھتے ہیں یا کچھ اور بھی سیکھایا جاتا ہے۔ دو سال جیسے تیسے گذرتے ہیں۔
میٹرک کا رزلٹ سر پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ بچے اور اْس کے گھر والوں سے زیادہ
اوپر والوں کو فکر ہوتی۔ "ہور سنا۔ کینے نمبر آئے، پاس وی ہو گیاں یا نہیں۔"
گر خْدانخواستہ پچھلی نسل میں سے کوئی رہ گیا ہو کیسی مضمون میں تو اْس کا
بھی سنا جاتے۔ "پیو طرح رہ گیاں ایں۔" نمبر کم ہیں تو پھر مسئلہ۔ نمبر اچھے
آ گئے تو دوسروں کے ساتھ ملانا شروع کر دیتے۔ فلاں کے بیٹے نے اتنے نمبر
لیے۔ فلاں نے یہ گریڈ حاصل کر لیا۔ نیز سکون و چین کیسی حال میں نہیں۔۔
تین چار ماہ سکون کے ملے نہیں ابھی، سوالات پھر سے شروع ہو گئے۔ بیٹا
انجینر بن رہے ہو، ڈاکٹر بن جاتے۔ . ڈاکٹر تو پہلے سے بہت ہیں۔ آپ انجئینر
بن جاتے۔ ماشاء اﷲ ذہین ہو سی ایس ایس کیوں نہیں کر لیتے، سول سروس میں
کیوں نہیں چلے جاتے۔ آگے سے گر سوال کر لیا جائے۔انکل آپ نے کیا کر رکھا ہے
؟ گستاخ اور بدتمیز کے القابات بنا کیسی ڈگری مکمل کیے شخصیت کا حصہ بنا
دئیے جاتے ہیں۔
ڈگری جیسے تیسے کر کے مکمل ہوئی۔ بندا سڑکوں پر روزگار کی تلاش میں دربدر
کے دھکے کھا رہا۔ دفتروں کے چکر لگا لگا جوتے گِھسنے کو آ گے۔ وہیں ماما،
چاچا ، تایا ،پھوپھا مْوڈے تے سْتھر چکے آ دھمکے۔ "ہاں پْتر نوکری لگی کہ
نہیں لگی؟" جواب نفی میں ہو۔ تو پورا لیکچر سنو۔ قائد اعظم کے دور کا
خوشحال پاکستان سے لے کر ملکی حالات کیسے خراب ہوئے۔ جس کی انتہاء نئی نسل
کی بدتہذیبیوں اور نافرمانیوں پر جا منتہج ہوتی ہے۔
اﷲ پاک نے کرم فرمایا۔ کیسی کی دْعا رنگ لے آئی۔ کیسی جگہ کام مل گیا۔
پریکٹیکل لائف شروع ہو گئی۔ تو پھر نام نہاد بڑوں کو یہ فکر کھائے جاتی ہے۔
عمر نکلتی جا رہی۔ شادی کس عمر میں کرنی ہے؟ لڑکی کون دے گا؟ معاشرہ کیا
کہے گا؟ ساری عمر پڑی ہی سیٹل ہونے کو۔ دھیرے دھیرے سب ہو جائے گا۔
چارونا چار چاہت نا ہوتے ہوئے بھی قرضہ لے کر دھوم دھام سے شادی کی تقریب
منعقد ہوئی۔ کھانے کے موقع پر حیوانواں کا جھمگٹا ہو جاتا۔ قرض دار کو اپنی
عزت کے لالے پڑ جاتے۔ چہرے پر فرضی مْسکراہٹ۔ دل حلق میں جا ٹکا ہوتا۔ ہاتھ
لوگوں سے ملتے نظر تو آتے . پر رب کے سامنے زیادہ جڑے ہوتے۔ خْدارا عزت
سلامت رہے۔
اولاد رب کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ جس کو چاہتا ہے اْس کو عطا کرتا
ہے۔ اِس میں بندے کا اختیار نہیں۔ سب سے پریشان کن سوال یہی ہے۔ "اور سناو،
خوش خبری نہیں سنائی ابھی تک ؟" جواب نفی میں ملے۔ تو سوالات کا پٹارا کھول
جاتا۔ اکثر نوجوان جوڑوں کو اِن سوالات کے زد میں آکر شرم سے اپنی ہی نظروں
میں گرتے دیکھا جا سکتا۔ سوالات ہی پر بس اکتفا نہیں کرتے۔ مفت میں حکیم و
ڈاکٹر بھی بن جاتے ہیں۔
خْدارا احساس کیجیے۔ سوال کیجیے۔ پر آداب سیکھ کر۔ کون سا سوال کرنے والا۔
کون سا نہیں۔ اگلی کی ذہنی کیفیت کا احساس کیجیے۔ اِس میں شک نہیں اکثر کی
نیت صاف ہوتی ہے۔ خیرخواہی میں پوچھتے ہیں۔ پر آپ کی خیر خواہی اگلا کا
سکون تو نہیں برباد کر رہی۔ اْسے کیسی ذہنی اذیت میں مبتلا تو نہیں کر رہی۔
سوال کرنے کا سلیقہ آ گیا تو ادب آ جائے گا۔ جب ادب آ جاتا ہے تو علم
خوبخود چلا آتا ہے۔ |